معیقیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی لوہے کی تھی جس پر چاندی چڑھی ہوئی تھی اور کبھی کبھی وہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں بھی ہوتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5208]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الخاتم 4 (4224)، (تحفة الأشراف: 11486) (ضعیف شاذ) (اوپر گزرا کہ رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5208
اردو حاشہ: (1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ اہم مسئلہ بیان کرنا ہے کہ چاندی کا خول چڑھی لوہے کی انگوٹھی پہننا شرعاً جائز ہے۔ مطلقاً لوہے کی انگوٹھی پہننے سے گریز ضروری ہے کیونکہ اسے جہنمیوں کا زیور کہا گیا ہے۔ (الموسوعة الحدیثیة، مسند أحمد:11؍69)۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل کی خدمت کرنا مستحب ہے، نیز آزاد آدمی سے بھی خدمت کرائی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ برضا و رغبت کرنے پر راضی ہو۔ (3) سرکاری اور اسی طرح دیگر اہم اداروں کی ایسی مہریں جن کے ساتھ خطوط و دستاویزات پر مہر لگائی جاتی ہے، ان کی حفاظت کرنا ضروری ہے تاکہ انہیں کوئی غلط استعمال نہ کرے کیونکہ اس طرح تمام دستاویزات اور خطوط وغیرہ غیر معتبر اور ناقابل اعتماد قرار پائیں گے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5208
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1744
´داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا بیان۔` حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی رافع ۱؎ کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے دیکھا تو اس کے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن جعفر رضی الله عنہ کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے دیکھا، عبداللہ بن جعفر رضی الله عنہ نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ اس باب میں سب سے صحیح روایت ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1744]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابورافع رضی اللہ عنہ کے لڑکے ”عبد الرحمن“ ہیں۔
نوٹ: (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ”عبد الرحمن بن ابی رافع“ لین الحدیث ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1744