مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 20
´ایمان کا تعلق دل سے ہے`
«. . . كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 20]
� تشریح:
اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی و زیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «انااعلمكم بالله» سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہو سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرو مگر مجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی اللہ کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی و بیشی بھی ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 20
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1151
1151. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میرے پاس بنو اسد قبیلے کی ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کون عورت ہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ فلاں عورت ہے، رات بھر سوتی نہیں ہے اور اس کی نماز کا خوب چرچا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ”ایسا کرنے سے رک جاؤ۔ خود پر وہ عمل لازم کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اُکتاتا یہاں تک کہ تم خود اُکتا کر عمل چھوڑ دیتے ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1151]
حدیث حاشیہ:
اس لیے حدیث انس ؓ اور حدیث عائشہ ؓ میں مروی ہے کہ إذا نعسَ أحَدُکُم في الصلوةِ فلیَنَم حتی یعلمَ ما یقرأُ۔
یعنی جب نماز میں کوئی سونے لگے تو اسے چاہیے کہ پہلے سولے پھر نماز پڑھے تاکہ وہ سمجھ لے کہ کیا پڑھ رہا ہے۔
یہ لفظ بھی ہیں:
فَلیرقُد حتی یذھبَ عنهُ النومُ۔
(فتح الباری)
یعنی سوجائے تاکہ اس سے نیند چلی جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1151
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1970
1970. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ سارا شعبان روزے رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ”اے لوگو!اتنی ہی عبادت کرو جو قابل برداشت ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کرنے سے اکتا جاؤ گے۔“ نبی کریم ﷺ کو وہی نماز پسند تھی جو اگرچہ تھوڑی ہو مگر پابندی سے ادا ہو، چنانچہ آپ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1970]
حدیث حاشیہ:
اگرچہ اورمہینوں میں بھی آپ ﷺ نفل روزے رکھا کرتے تھے مگر شعبان میں زیادہ روزے رکھتے کیوں کہ شعبان میں بندوں کے اعمال اللہ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔
نسائی کی روایت میں یہ مضمون موجود ہے۔
(وحیدی)
واللہ أعلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1970
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1987
1987. حضرت علقمہ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ عبادت کے لیے کچھ دنوں کی تخصیص فرماتے تھے؟انھوں نے فرمایا: نہیں، آپ کی عبادت دائمی ہوا کرتی تھی۔ اور تم میں سے کون ہے جو رسول اللہ ﷺ کے برابر طاقت رکھتا ہو؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1987]
حدیث حاشیہ:
جن ایام کے روزوں کے متعلق احادیث وارد ہوئی ہیں جیسے یوم عرفہ، یوم عاشورہ وغیرہ وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1987
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5861
5861. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کو چٹائی سے حجرہ سا بنا لیتے اور نماز پڈھا کرتے اور اسی چٹائی کو دن کے وقت بچھا لیتے اور اس پر بیٹھا کرتے تھے۔ پھر رات کے وقت کی اقتدا میں نماز ادا کرنے لگے۔ جب مجمع زیادہ بڑھ گیا تو آپ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! عمل اتنے ہی کیا کرو جس قدر تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا جب تم نہ تھک جاؤ۔ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ کم ہی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5861]
حدیث حاشیہ:
بہترین عمل وہ ہے جس پر مواظبت کی جائے مثلاً تہجد یا اور کوئی نفلی نماز ہے خواہ رکعات کم ہی ہوں مگر ہمیشگی کرنے سے کچھ خیر وبرکت حاصل ہوتی ہے۔
آج کیا کل ترک کر دیا ایسا عمل اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی وزن نہیں رکھتا۔
یہ حکم نفل عبادت کے لیے ہے۔
فرائض پر تو محافظت کرنا لازم ہی ہے۔
روایت میں چٹائی کا ذکر آیا ہے وجہ مطابقت باب اور حدیث میں یہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5861
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6462
6462. سیدہ عائشہ ؓ سے ہی روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جسے آدمی ہمیشہ کرتا رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6462]
حدیث حاشیہ:
نیک عمل کبھی کرنا کبھی چھوڑ دینا محمود نہیں جو بھی ہو اس پر مداومت ہونی محمود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6462
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6466
6466. حضرت علقمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا: اے ام الومنین! نبی ﷺ کیونکر عبادت کرتے تھے؟ کیا آپ نے ایام میں سے کوئی خاص دن مقرر کر رکھا تھا؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بلکہ آپ کے عمل میں دوام ہوتا تھا، تم میں سے کون ہے جو ان اعمال کی طاقت رکھتا ہو جن کی نبی ﷺ طاقت رجھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6466]
حدیث حاشیہ:
ساری رات عبادت میں گزار دینا حتیٰ کہ پیروں میں ورم ہو جانا سوائے ذات قدسی صفات فداہ روحی کے اورکس میں ایسی طاقت ہو سکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6466
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 20
20. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب صحابہ کرام ؓ کو حکم دیتے تو انھی کاموں کا حکم دیتے جن کو وہ بآسانی کر سکتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا حال آپ جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمایا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کا اثر ظاہر ہوا، پھر آپ نے فرمایا: ”میں تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ کو جاننے والا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:20]
حدیث حاشیہ:
اس باب کے تحت بھی امام بخاری یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ ؓ اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔
یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جوکہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی وزیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔
آنحضرت ﷺ کے فرمان «أنا أعلمكم بالله» سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہوسکتے ہیں اور آنحضرت ﷺ اس معاملہ میں جمیع صحابہ ؓ بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔
بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔
آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔
تم کتنی ہی عبادت کرومگرمجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی خدا کو پسند ہے۔
ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔
اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جاسکتا۔
اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 20
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 763
´نمازی اور امام کے درمیان پردہ حائل ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 763]
763 ۔ اردو حاشیہ:
➊ چٹائی کو کھڑا کر کے حجرہ سا بنانا لوگوں کی مداخلت روکنے اور خلوت مہیا کرنے کے لیے تھا کیونکہ خلوت خشوع و خضوع میں معاون ہے۔
➋ کوئی نیک کام شروع کر کے چھوڑ دینا زیادہ برا ہے بجائے اس کے کہ شروع ہی نہ کیا جائے کیونکہ چھوڑنے میں اعراض ہے، البتہ اگر کبھی کبھار نیند، سستی یا مصروفیت کی بنا پر وہ رہ جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اس کا ثواب لکھا جاتا ہے، بشرطیکہ مستقل نہ چھوڑے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 763
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1643
´شب بیداری کے سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اور ان کے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی تو آپ نے پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ انہوں نے کہا: فلاں (عورت) ہے جو سوتی نہیں ہے، پھر انہوں نے اس کی نماز کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چپ رہو، تم اتنا ہی کرو جتنے کی تمہیں طاقت ہو، قسم اللہ کی، اللہ نہیں تھکتا ہے یہاں تک کہ تم تھک جاؤ، پسندیدہ دین (عمل) اس کے نزدیک وہی ہے جس پر آدمی مداومت کرے۔“ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1643]
1643۔ اردو حاشیہ:
➊ ”رہنے دو“ ممکن ہے خطاب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہو، یعنی زیادہ تعریف نہ کرو کیونکہ ہمیشہ ساری رات جاگنا افضل نہیں اور ممکن ہے خطاب اس عورت کو ہو کہ اتنی عبادت نہ کیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ طبیعت تھک کر، پھر عبادت سے اکتا جائے۔
➋ ”ہمیشگی کرے“ کسی نفل کام پر دوام ہو سکتا ہے، البتہ اسے فرض سمجھتے ہوئے نہیں، مستحب سمجھتے ہوئے دوام کرے تو کوئی حرج نہیں۔
➌ اللہ تعالیٰ بندے سے وہی معاملہ کرتا ہے جو بندہ اللہ سے کرتا ہے۔ اگر بندہ اللہ کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے تواللہ رب العزت بھی بندے پر مسلسل نظررحمت رکھتا ہے ا ور اگر بندہ اعراض کرے تواللہ تعالیٰ بھی اعراض فرماتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1643
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1719
´سات رکعت وتر پڑھنے کی کیفیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور بدن پر گوشت چڑھ گیا، تو آپ سات رکعت پڑھنے لگے، اور صرف ان کے آخر میں قعدہ کرتے تھے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت اور پڑھتے تو میرے بیٹے یہ نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی صلاۃ پڑھتے تو چاہتے کہ اس پر مداومت کریں، (یہ حدیث مختصر ہے)۔ ہشام دستوائی نے شعبہ کی مخالفت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1719]
1719۔ اردو حاشیہ: متن میں مخالفت مراد ہے۔ شعبہ کی روایت (نمبر1719) میں سات وتر کی ادائیگی کے وقت صرف آخری رکعت میں بیٹھنے کا ذکر ہے جبکہ ہشام دستوائی نے چھٹی رکعت میں بھی بیٹھنے کا ذکر کیا ہے۔ تطبیق نیچے فائدے میں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1719
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1722
´نو رکعت وتر پڑھنے کی کیفیت کا بیان۔`
سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اس ہستی کو نہ بتاؤں یا اس ہستی کی خبر نہ دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کو زمین والوں میں سب سے زیادہ جانتی ہے؟ میں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، تو ہم ان کے پاس آئے، اور ہم نے انہیں سلام کیا، اور ہم اندر گئے، اور اس بارے میں میں نے ان سے پوچھا، میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے آپ کی مسواک اور آپ کے وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے، پھر رات کو جب اللہ تعالیٰ کو جگانا منظور ہوتا آپ کو جگا دیتا، آپ مسواک کرتے اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، سوائے آٹھویں کے ان میں سے کسی میں قعدہ نہیں کرتے، اللہ کی حمد کرتے اس کا ذکر کرتے، اور دعا مانگتے، پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو جاتے، پھر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے تو اللہ کی حمد اور اس کا ذکر کرتے اور دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جسے آپ ہمیں سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، میرے بیٹے! اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں، لیکن جب آپ بوڑھے ہو گئے اور آپ کے جسم پر گوشت چڑھ گیا تو آپ وتر سات رکعت پڑھنے لگے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، اس طرح میرے بیٹے! یہ کل نو رکعتیں ہوتی تھیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو چاہتے کہ اس پر مداومت کریں۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1722]
1722۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا نو رکعت وتر اکٹھے پڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تشہد صرف آٹھویں میں بیٹھے، پھر اٹھ کر نویں رکعت پڑھے، پھر بیٹھ کر سلام پھیردے۔
➋ پچھلی حدیث میں آٹھویں رکعت والے تشہد میں درود کا بھی ذکر ہے۔ گویا نفل نماز میں درمیانی تشہد میں بھی درود پڑھا جا سکتا ہے اور فرضوں میں بھی۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1722
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1827
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چٹائی تھی اور آپﷺ اس کو رات کو حجرہ بنا کر اس میں نماز پڑھتے تو صحابہ کرام بھی آپﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے اور آپﷺ دن کو اس کو بچھا لیتے تھے، ایک رات لو گ کثرت کے ساتھ جمع ہو گئے تو آپﷺ نے فرما یا: ”اے لوگو! اتنے اعمال کی پابندی کرو، جتنے کی ع تمہیں قدرت حاصل ہے کیونکہ اللہ تعا لیٰ (اجرو ثواب دینے سے) نہیں اکتائے گا۔ تم ہی (عمل سے) اکتاؤ گے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1827]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ثَابُوْا:
لوگ جمع ہو گئے۔
(2)
مَاتُطِيْقُوْنَ:
جس کی طاقت رکھتے ہو۔
(3)
فَإِنَّ اللهَ لاَ يَمَلُّ حَتّٰي تَمَلُّوْا:
اللہ تعالیٰ بدلہ و جزا دینے سے نہیں اکتائے گا،
تم ہی عمل کرنے سے اکتاؤ گے،
عربی محاورہ ہے۔
(4)
فُلاَنٌ لاَ يَنْقَطِعُ حَتّٰي تَنْقَطِعُ خُصُوْمَةٌ:
فلاں انسان بحث و تمحیص سے نہیں تھکتا،
اس کا فریق مخالف ہی تھک ہار کر بس کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے مَلَلْ يا سَأْمُهُ لفظ محض لفظی مشابہت کے طور پر استعمال ہوا ہے،
ورنہ اللہ تعالیٰ تھکنے یا اکتانے سے پاک ہے۔
فوائد ومسائل:
جب انسان کوئی نیک کام کرنا شروع کرے تو وہ اپنی مقدرت وطاقت کا لحاظ رکھے کہ میں یہ کام ہمیشہ کس حد تک کر سکتا ہوں کیونکہ وہ کام جس پر ہمیشگی اور دوام کیا جائے۔
وہ اس کام سے بڑھ جاتا ہے۔
جو زیادہ ہو اور چند دن کے بعد تھک ہار کر اس کو چھوڑ دیا جائے اور ظاہر ہے ایسے عمل سے مراد نفلی نماز ہے جس کو انسان ذاتی اور شخصی طور پر اپنے ظروف واحوال کے مطابق اپناتا ہے وہ اعمال جو فرض ہیں ان میں کمی وبیشی تو انسان کے اختیار سے باہر ہے وہ تو شریعت کے مقرر کردہ طریقہ کے مطابق ہی کیے جائیں گے اس لیے نفلی نماز کو انفرادی طور پر گھر میں پڑھنا بہتر اور افضل قرار دیا گیا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےتراویح کی جماعت عام افراد کی سہولت اور آسانی کے لیے شروع کروائی،
لیکن بہتر اورپسندیدہ عمل اس کو قرار دیا گیا کہ انسان انفرادی طور پر رات کے آخری حصہ میں پڑھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1827
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1829
حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میں نے ام المومنین!عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ اے مومنوں کی امی جان! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیسے ہوتا تھا؟ کیا آپﷺ (عمل کے لیے) کچھ ایام مخصوص فرماتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا نہیں! آپﷺ کا عمل دائمی ہو تا تھا، اور تم میں سے کس میں اس قدر استطاعت ہے جس قدر استطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھی؟ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1829]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں خصوصاً ا س کے آخری عشرے میں قیام کا زیادہ اہتمام فرماتے بلکہ بعض اوقات ساری رات بیدار رہتے حدیث میں سوال سے مراد یہ ہے کہ ہفتے کے سات دنوں میں سے کسی دن مثلاً جمعرات کو آپﷺ کوئی خاص عمل زیادہ کرتے تھے؟ تو ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفلی عبادت کے لیے ایام کی تخصیص نہیں کرتے تھے کہ آپﷺ انہیں دنوں وہ کام کریں اور دوسرے دنوں میں وہ کام نہ کریں تاکہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ کام انہیں دنوں کےساتھ خاص ہے۔
اس لیے کسی اچھے اور نیک کام کے لیے اپنی طرف سے دن مخصوص کر لینا اور پھر ہر صورت اس کی پابندی کرنا اورلوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلانا دین میں اپنی طرف سے اضافہ ہے اور ایجادِ بندہ ہے جس کی دین میں گنجائش نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1829
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:20
20. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب صحابہ کرام ؓ کو حکم دیتے تو انھی کاموں کا حکم دیتے جن کو وہ بآسانی کر سکتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا حال آپ جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمایا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کا اثر ظاہر ہوا، پھر آپ نے فرمایا: ”میں تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ کو جاننے والا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:20]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ناراض ہوئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ”آسان کاموں“ کو رفع درجات اور غفران ذنوب کے لیے ناکافی خیال کیا۔
ان کے گمان کے مطابق بلند مراتب کے حصول کے لیے ایسے کٹھن اعمال ہونے چاہئیں جن کی ادائیگی میں تکلیف ومشقت اٹھانی پڑے۔
اس پر آپ نے تنبیہ فرمائی کہ شریعت میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں بلکہ جو اور جیسا ارشاد ہو، اس پر اکتفا کیاجائے۔
2۔
فرائض کی ادائیگی کے متعلق یہ حکم نہیں ہے کہ جتنا بوجھ اٹھاسکتا ہواتنا اٹھا لے کیونکہ فرائض اپنی جگہ شروع ہی سے انسانی طاقت سے زیادہ نہیں ہیں، البتہ نوافل کے متعلق یہ حکم ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق ادا کیے جائیں۔
استطاعت میں ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ان پر تادم آخر عمل کیا جاسکے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
"أَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ أدْومُها وإن قَلَّ" ”اللہ کے نزدیک محبوب اعمال وہ ہیں جن میں دوام ہو، مقدار میں اگرچہ وہ کم ہوں۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1830(783)
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے فرقہ کرامیہ کی تردید کرناچاہتے ہیں جن کاموقف ہے کہ ایمان صرف زبانی اقرار کا نام ہے، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔
اس بناء پر محض زبانی اقرار کوایمان نہیں کہاجا سکتا۔
اس کے لیے معرفت قلبی بھی ضروری ہے، نیز اس سے ایمان کی کمی بیشی بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بلکہ جملہ مخلوقات سے بڑھ کر تھی کیونکہ حدیث میں آپ کا خطاب صرف حاضرین میں سے نہیں بلکہ اس کا تعلق پورے عالم سے ہے جس میں دوسرے انبیاءکرام علیہ السلام اور ملائکہ عظام بھی شامل ہیں۔
(شرح الکرماني: 113/1)
4۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو خیال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مغفور الذنب (بخشے بخشائے)
ہیں، لہٰذا آپ کو زیادہ عمل کرنے کی ضرورت نہیں لیکن ہمیں اعمال میں بہت زیادہ محنت وریاضت کی ضرورت ہے۔
اس پر آپ نے غصے کے انداز میں فرمایا:
”میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔
اور سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں۔
اس تقویٰ اور علم کا تقاضا ہے کہ ہمہ وقت کام میں لگا رہوں۔
یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ مجھے عمل کی ضرورت نہیں۔
مغفرت تو ادنیٰ درجہ ہے اس کے بعد اور بھی درجات ہیں جن کے حصول کی مجھے ضرورت ہے۔
5۔
ایسے وساوس سے جوخیالات دل میں آئیں اور استقرار کی بجائے نکل جائیں،ان پر مواخذہ نہیں ہوگا۔
البتہ انھیں زبان پر لانے یا ان کے مطابق عمل کرنے پر مواخذہ ہوگا۔
لیکن اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایسے بُرے خیالات جو دل میں جم جائیں اور وہ عزم کی صورت اختیار کرلیں وہ قابل مواخذہ ہیں اگرچہ انھیں زبان پر نہ لایا جائے یا ان کے مطابق عمل نہ کیاجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)
”مگر اس کی پکڑ اس چیز پر ہوگی جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔
“ (البقرہ 225/2۔
وفتح الباری 97/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 20
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:43
43. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ ان کے پاس تشریف لائے، وہاں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ آپ نے پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: یہ فلاں عورت ہے اور اس کی (کثرت) نماز کا حال بیان کرنے لگیں۔ آپ نے فرمایا: ”رک جاؤ! تم اپنے ذمے صرف وہی کام لو جو (ہمیشہ) کر سکتے ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں اکتاتا، تم ہی عبادت کرنے سے تھک جاؤ گے۔ اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب، اطاعت کا وہ کام ہے جس کا کرنے والا اس پر ہمیشگی کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:43]
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلے باب میں تھا کہ حسن اسلام مطلوب ہے اور اس باب میں فرمایا کہ وہ حسن مطلوب، دوام عمل میں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں حسن، اعمال سے آتا ہے مگر وہ اعمال اس درجے میں نہ ہوں کہ ان میں زبردستی کی جائے بلکہ اس حد تک مطلوب ہیں کہ ان پر دوام ہوسکے۔
اعمال اتنے زیادہ نہ ہوں کہ دل کی تنگی کی بنا پر ان کے چھوڑنے تک نوبت پہنچ جائے۔
اللہ کے ہاں مقدار نہیں، معیار کی قدروقیمت ہے۔
2۔
اس سے مراد بھی مرجیہ کی تردید ہے کہ یہاں اعمال پر دین کا اطلاق کیا گیا ہے۔
پھر اعمال کی مطلوبیت تو مسلم ہے لیکن مزید ان اعمال پر دوام واستمرار بھی مطلوب ہے۔
اب جو عمل ہی کو دین نہ مانتا ہو وہ دوام عمل کو کیا مانے گا۔
3۔
عمل خیر پرمداومت دولحاظ سے پسندیدہ ہے:
(الف)
۔
اس سے انسان کی بندگی اور غلامی کا اظہار ہوتا ہے۔
اگرجوش میں آکر بڑاکام شروع کردیا لیکن چند دنوں کے بعد اسے ترک کردیا تو اس میں آقا کی ناراضی کااندیشہ ہے۔
گویا غلام نے آقا سے روگردانی کی ہے۔
(ب)
۔
اس سے خدمت گزاری کا اظہار بھی ہوتا ہے جیسے ایک شخص روزانہ شاہی دربار میں حاضری دیتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن آقا کے ہاں لائق التفات ہوگا، برعکس اس انسان کے جوصرف ایک دن آیا اوردربار میں پورا وقت حاضر رہا، وہ آقا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔
(فتح الباري: 138/1)
4۔
معلوم ہوا کہ شدید مجاہدات کا انجام اچھا نہیں ہوگا کیونکہ چند دنوں کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونے لگے گی جو بوقت عمل گھبراہٹ اور تنگی دل کا باعث ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ عمل خیر کو چھوڑ دیا جائے گا یا بد دلی اور بے رغبتی سے جاری رکھے گا۔
یہ دونوں حالتیں ہی مذموم ہیں، اس لیے حدیث میں ہے کہ اللہ کے ہاں وہی عمل پسندیدہ ہے جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6484)
5۔
اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ اگرصبح کی نماز باجماعت فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تہجد پراصرار درست نہیں ہے۔
جمہور نے اسی بنا پر تمام رات نوافل پڑھنے کو مکروہ خیال کیا ہے اگرچہ سلف کی ایک جماعت نے اس کی اجازت دی ہے۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہوئے اگر نماز صبح کے فوت ہونے کا خطرہ ہوتو اس قسم کے عمل خیر سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(عمد ۃ القاری: 380/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 43
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1151
1151. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میرے پاس بنو اسد قبیلے کی ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کون عورت ہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ فلاں عورت ہے، رات بھر سوتی نہیں ہے اور اس کی نماز کا خوب چرچا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ ”ایسا کرنے سے رک جاؤ۔ خود پر وہ عمل لازم کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اُکتاتا یہاں تک کہ تم خود اُکتا کر عمل چھوڑ دیتے ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1151]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جب تک طبیعت ساتھ دے دل لگی کے ساتھ عبادت کی جائے۔
اگر طبیعت میں اُکتاہٹ پیدا ہو جائے تو عبادت کے بجائے آرام کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ دوران نماز میں اگر نیند آنا شروع ہو جائے تو نماز ترک کر کے سو جانا چاہیے، مبادا وہ استغفار کے بجائے خود کو گالیاں دیتا رہے۔
ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے تنگ نہیں پڑتا بلکہ تم خود ہی اس عمل سے تنگ آ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔
الغرض انسان کو اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
(فتح الباري: 48/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1151
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1970
1970. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ سارا شعبان روزے رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ”اے لوگو!اتنی ہی عبادت کرو جو قابل برداشت ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کرنے سے اکتا جاؤ گے۔“ نبی کریم ﷺ کو وہی نماز پسند تھی جو اگرچہ تھوڑی ہو مگر پابندی سے ادا ہو، چنانچہ آپ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1970]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؓ سال بھر کسی پورے مہینے کے نفلی روزے نہیں رکھتے تھے، صرف ماہ شعبان میں پورے مہینے کے روزے رکھتے اور اسے رمضان کے ساتھ ملا دیتے تھے۔
(مسندأحمد: 311/6)
اس روایت کا مطلب ہے کہ اس مہینے میں کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ شعبان کے چند ایام کے علاوہ پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2722(1156)
ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سے مدینہ طیبہ تشریف لائے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھتے تھے۔
(فتح الباري: 272/4)
بعض علماء نے ان روایات کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شعبان کے پورے مہینے کے روزے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
روایات میں اكثر شهر اور كل شهر کی تطبیق يوں ہے کہ کبھی آپ ﷺ پورے ماہ کے روزے رکھتے اور کبھی کچھ روزے ترک کر دیتے۔
جن روایات میں رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت ہے تو وہ اس صورت میں ہے جب صرف دو تین روزے استقبال رمضان کے طور پر رکھے جائیں۔
(2)
ایک روایت میں ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ شعبان کے ہیں۔
(جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 663)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔
(إرواءالغلیل، حدیث: 889)
پھر یہ روایت صحیح مسلم کی ایک روایت کے معارض ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”رمضان کے بعد ماہ محرم کے روزے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں۔
“ (فتح الباري: 272/4)
ماہ شعبان میں رسول اللہ ﷺ اس لیے کثرت سے روزے رکھتے تھے کہ اس مہینے میں اللہ کی طرف بندوں کے عمل اٹھائے جاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں چاہتا ہوں میرے عمل جب اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں بحالت روزہ ہوں۔
“ (مسندأحمد: 201/5)
واضح رہے کہ جس شخص کی پہلے سے روزہ رکھنے کی عادت نہیں وہ نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب نصف شعبان ہو جائے تو روزے نہ رکھو۔
“ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2336)
یعنی کوئی شخص شروع شعبان سے تو روزے نہیں رکھتا اور پندرہ دن گزرنے کے بعد روزے رکھنا شروع کر دیتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں۔
البتہ اگر شروع شعبان سے روزے رکھتا ہے تو پھر جائز ہے۔
(3)
آخری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتدال کے ساتھ مناسب اوقات میں جو کام پابندی سے کیا جائے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے وگرنہ دوڑ کر چلنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھا کر گر پڑتا ہے۔
اعتدال کے ساتھ کام کرنے سے نفس میں پاکیزگی اور خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1970
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1987
1987. حضرت علقمہ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ عبادت کے لیے کچھ دنوں کی تخصیص فرماتے تھے؟انھوں نے فرمایا: نہیں، آپ کی عبادت دائمی ہوا کرتی تھی۔ اور تم میں سے کون ہے جو رسول اللہ ﷺ کے برابر طاقت رکھتا ہو؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1987]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمعے کا دن روزے کے لیے خاص کرنا ممنوع ہے جیسا کہ گزشتہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔
اس کے علاوہ ہفتے کے دن روزہ رکھنے کی بھی ممانعت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ہفتے کے دن روزہ نہ رکھو، سوائے فرض روزے کے۔
اگر تم میں سے کوئی انگور کا چھلکا یا کسی درخت کا تنکا پائے تو چاہیے کہ اسی کو کھا لے۔
" (سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2421)
ممانعت صرف اس صورت میں ہے کہ جب صرف اکیلا ہفتے کا روزہ رکھا جائے لیکن جب اس کے ساتھ ایک اور روزہ ملا لیا جائے تو جائز ہے۔
(2)
پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
(مسندأحمد: 80/6)
ایک روایت میں ہے:
رسول اللہ ﷺ سے پیر اور جمعرات کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
”ان دنوں اللہ کے حضور بندوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔
“ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث: 2436)
ایک روایت میں ہے:
آپ نے فرمایا:
”میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش کیا جائے تو میں روزے کی حالت میں ہوں، اس لیے میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہوں۔
“ (مسندأحمد: 201/5)
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پیر کے دن کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
”یہ ایسا دن ہے کہ جس میں، میں پیدا ہوا ہوں اور جس دن مجھے نبوت ملی ہے۔
“ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 293/4) (3)
امام بخاری ؒ نے استفہامیہ انداز میں باب قائم کر کے اس مسئلے میں اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے، تاہم امام بخاری نے جو حدیث پیش کی ہے اس سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی دن کو عبادت کے لیے خاص نہیں کیا جا سکتا۔
راجح بات یہ ہے کہ جمعرات اور پیر کے دن کو روزے کے لیے خاص کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنا رسول اکرم ﷺ سے ثابت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1987
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5861
5861. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کو چٹائی سے حجرہ سا بنا لیتے اور نماز پڈھا کرتے اور اسی چٹائی کو دن کے وقت بچھا لیتے اور اس پر بیٹھا کرتے تھے۔ پھر رات کے وقت کی اقتدا میں نماز ادا کرنے لگے۔ جب مجمع زیادہ بڑھ گیا تو آپ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! عمل اتنے ہی کیا کرو جس قدر تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا جب تم نہ تھک جاؤ۔ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ کم ہی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5861]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے چٹائی وغیرہ پر بیٹھنا ثابت کیا ہے۔
قبل ازیں کتاب الصلاۃ میں چٹائی پر نماز پڑھنے کا عنوان قائم کیا تھا۔
دراصل انہوں نے ایک روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شریح بن ہانی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے تھے جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے گھیرنی والی بنایا ہے۔
“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
(مسند أبی یعلی: 426/7، حدیث: 4448) (2)
بہرحال چٹائی وغیرہ پر بیٹھنا اور اس پر نماز پڑھنا ثابت ہے۔
آیت کریمہ سے اس کی ممانعت کشید کرنا محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 387/10)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5861