جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ وہ دین پسند ہے جو سیدھا اور سچا ہو۔ (اور یقیناً وہ دین اسلام ہے سچ ہے «إن الدين عند الله الإسلام»)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: Q39]
ہم سے عبدالسلام بن مطہر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عمر بن علی نے معن بن محمد غفاری سے خبر دی، وہ سعید بن ابوسعید مقبری سے، وہ ابوہریرہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا (اور اس کی سختی نہ چل سکے گی) پس (اس لیے) اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ (کہ اس طرز عمل سے تم کو دارین کے فوائد حاصل ہوں گے) اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں (عبادت سے) مدد حاصل کرو۔ (نماز پنج وقتہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ پابندی سے ادا کرو۔)[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 39]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 39
� تشریح: سورۃ حج میں اللہ پاک نے فرمایا ہے: «وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ»[22-الحج:78] یعنی ”اللہ نے دنیا میں تم پر کوئی سختی نہیں رکھی بلکہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے۔“ آیات اور احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلام ہر طرح سے آسان ہے۔ اس کے اصولی اور فروعی احکام اور جس قدر اوامر و نواہی ہیں سب میں اسی حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے مگر صد افسوس کہ بعد کے زمانوں میں خود ساختہ ایجادات سے اسلام کو اس قدر مشکل بنا لیا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اللہ نیک سمجھ دے۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 39
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 39
حدیث حاشیہ: سورۃ حج میں اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ﴾(الحج: 78) یعنی اللہ نے دنیا میں تم پر کوئی سختی نہیں رکھی بلکہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیمؑ کی ملت ہے۔ آیات اور احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلام ہر طرح سے آسان ہے۔ اس کے اصولی اور فروعی احکام اور جس قدر اوامر و نواہی ہیں سب میں اسی حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے مگرصد افسوس کہ بعد کے زمانوں میں خودساختہ ایجادات سے اسلام کو اس قدر مشکل بنالیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اللہ نیک سمجھ دے۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 39
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 39
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمہ باب میں الفاظ «حنفية السمحة» وارد ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے ”سچا اور سیدھا دین“، مگر یہ الفاظ حدیث کے متن میں موجود نہیں لہٰذا یہ اعتراض باقی رہ جاتا کہ پھر ترجمہ اور باب میں مناسبت کس طرح سے؟ دراصل جو ترجمہ میں لفظ «حنفية السمحة» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یہ الفاظ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہیں اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث میں ان الفاظ کو بیان نہیں فرمایا۔ لیکن حدیث میں الفاظ «الدين يسر» یعنی ”دین آسان ہے“ کے موجود ہیں لہٰذا «الدين يسر» سے مراد «حنفية السمحة» ہی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا دین آسان ہے اور وہی «حنفية السمحة» یعنی آسان اور سیدھا ہے۔ یہاں سے بخوبی ترجمہ اور حدیث میں موافقت پیدا ہوئی۔
❀ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: « ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ﴾ »[الحج: 78] اس آیت میں آسان دین کو ملت ابراہیم سے تعبیر کیا گیا ہے اور دین ابراہیم کا نام «حنفية» یعنی ”سیدھا اور سچا“ ہے لہٰذا یہاں سے یہ بھی یہ مسئلہ واضح ہوا کہ دین سے مراد دین حنیف ہی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں جو الفاظ نقل فرمائے ہیں «الحنيفية السمحة» ان الفاظ کی حدیث تو پیش نہیں کی کیوں کہ وہ آپ کی شرائط کے مطابق نہ تھی لیکن اسے اپنی کتاب ”الادب المفرد“ میں ذکر فرمایا ہے جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی بطریق «محمد بن اسحاق عن داؤد بن الحصين عن عكرمه ابن عباس رضي الله عنه» سے بروایت سند حسن نقل فرمایا ہے۔ ◈
شاہ ولی اللہ محدث الدھلوی رقمطراز ہیں: «هذا الحديث المعلق لم يسنده المؤلف فى هذا الكتاب، لانه ليس على شرطه، نعم وصله فى كتاب الادب المفرد، وكذا وصله أحمد بن حنبل»[شرح تراجم ابواب البخاري ص 38] شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی وضاحت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ «الحنفية السمحة» امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح میں ذکر نہیں فرمائی۔ مگر آپ نے ”الادب المفرد“ میں اسے ذکر فرمایا ہے اور اسے وصل سے مراد موصول بیان کیا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے۔ دوسری مناسبت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس طرف اشارہ فرما رہے ہوں کہ اعمال داخل ہیں ایمان میں۔ ◈
علامہ محمود حسن صاحب رقمطراز ہیں: ”ترجمتہ الباب اور حدیث کا مطلب اور باہم توافق بالکل ظاہر ہے، مگر ظاہر مطلب کے ساتھ اعمال کے داخل فی الایمان ہونے کی طرف بھی اشارہ ضرور معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابواب سابقہ اور لاحقہ سے بھی سمجھا جاتا ہے۔ نیز معتزلہ اور خوارج کے تشددات کی طرف بھی تعریض ہے۔“[الابواب و التراجم۔ ص26]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:39
حدیث حاشیہ: 1۔ سابقہ ادیان کے مقابلے میں یہ دین انتہائی آسان ہے۔ اس میں ان پا بندیوں کو اٹھالیا گیا ہے جو پہلے لوگوں پر عائد تھیں جیسا کہ بنی اسرائیل میں توبہ کی قبولیت خود کو قتل کرنے پر منحصر تھی۔ لیکن اس امت کی توبہ دل کی شرمندگی اور اعمال صالحہ کے عزم پر مبنی ہے۔ (فتح الباري: 128/1) 2۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کو راحت و سکون کے اوقات میں نہایت نشاط اور مستقل مزاجی سے فریضہ عبادت ادا کرنا چاہیے تاکہ اس کا عمل مستقل بنیادوں پر قائم رہے کیونکہ تھوڑا سا عمل استقلال و ثبات سے کرنا اس عمل کثیر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جس میں انقطاع آجائے۔ (شرح الکرماني: 162/1) 3۔ عزیمت اور رخصت دونوں چیزیں دین میں شامل ہیں اسلام کا تقاضا ہے کہ دونوں پر عمل ہو۔ عزیمت کی حالت میں عزیمت پر عمل کیا جائے اور رخصت کے موقع پر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ہر ہر موقع پر رخصت کی تلاش بے دینی ہے جبکہ ہر وقت عزیمت کی تمنا بھی حد سے تجاوز ہے ایسا کرنے میں ناکامی کا اندیشہ اور نامرادی کا خطرہ رہتا ہے جیسا کہ پانی کے استعمال پر کوئی عذر مانع ہو تو تیمم کی اجازت ہے ایسے موقع پر پانی کے استعمال پر اصرار کرنا دین میں تشدد ہے جسے اسلام نے پسند نہیں کیا۔ اس حدیث میں میانہ روی کی تعلیم دی گئی ہے۔ (فتح الباري: 128/1) 4۔ استقامت اور میانہ روی کا راستہ بھی انتہائی دشوار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ “(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3297) کیونکہ اس سورت کی آیت نمبر112میں آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے یہ ایسی ذمے داری تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے مجھے قبل از وقت بوڑھا کردیا ہے۔ “اس لیے حدیث میں ایک دوسری صورت بتائی گئی ہے کہ اگر پورے طور پر سداد اوراستقامت حاصل نہ ہو تو کم ازکم اس کے قریب قریب تو رہو۔ اسی طرح عمل کی توفیق پر خوش ہو جاؤ اور یہ خوشی صرف استقامت ہی میں نہیں بلکہ اس کے قریب رہنے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بشارت حوصلہ بڑھانے کا ایک طریق ہے۔ اس سے عابد کی ہمت بلند ہوتی ہے اور اس کے عزم میں ایک نیا ولولہ اور نئی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ 5۔ مشکل کام کو آسان بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے مختلف اوقات نشاط پر تقسیم کردیا جائے مثلاً: اس کا کچھ حصہ صبح کچھ بعد از زوال آفتاب اور کچھ رات کے آخری حصے میں سرانجام دیا جائے کیونکہ یہ اوقات اللہ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تہلیل کرنے کے ہیں ان کاموں کے بجا لانے سے دل میں طاقت پیدا ہوتی ہے چونکہ دل انسانی اعضاء کا بادشاہ ہے اگر اس میں طاقت ہوگی تو دیگر اعضاء اپنے اپنے کام میں چست رہیں گے۔ اس طرح کئی اور مشکل کام کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ (فتح الباري: 128/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 39
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5038
´اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ دینی کام کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، ان کے پاس ایک عورت تھی، آپ نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ کہا: فلانی ہے، یہ سوتی نہیں، اور وہ اس کی نماز کا تذکرہ کرنے لگیں، آپ نے فرمایا: ”ایسا مت کرو، تم اتنا ہی کرو جتنے کی تم میں سکت اور طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا، لیکن تم (عمل کرتے کرتے) تھک جاؤ گے اسے تو وہ دینی عمل سب سے زیادہ پسند ہے جسے [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5038]
اردو حاشہ: (1)”بس کرو“ یا تو خطاب حضرت عائشہ کو ہے کہ زیادہ تعریف نہ کرو، اس لیے کہ اس عورت کا یہ انداز قابل تعریف نہیں۔ یا خطاب اس عورت سے ہے کہ یہ طریقہ عبادت چھوڑ دو، یہ درست نہیں بلکہ اس طریقے سے نفل عبادت کیا کرو جس پر تم کاربند رہ سکو۔ (2)”نہیں اکتائے گا“ یعنی اللہ تعالی کے پاس ثواب کی کوئی کمی نہیں کہ ثواب کہ دیتے دیتے ختم ہوجائے بلکہ تم ہی کام کرتے کرتے تھک جاؤ گے اور چھوڑ بیٹھو گے۔ پھر ثواب بھی رک جائےگا۔ (3)”ہمیشگی کرے“ ظاہر ہے یہ وہی ہوگا جس میں عبادت کے ساتھ ساتھ جسمانی آرام اور سہولت کا بھی لحاظ رکھا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5038
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4201
´عمل قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میانہ روی اختیار کرو، اور سیدھے راستے پر رہو، کیونکہ تم میں سے کسی کو بھی اس کا عمل نجات دلانے والا نہیں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: ”اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور مجھے بھی نہیں! مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت وفضل سے مجھے ڈھانپ لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4201]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ افراط وتفریط سے اجتناب ہے یعنی نہ تو بدعت کا ارتکاب کیا جائے اور نہ ہی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کی جائے۔
(2) جنت اصل میں اعمال کا بدلہ نہیں بلکہ اللہ کی خاص رحمت ہے کیونکہ بندے کے نیک اعمال اللہ کے احسانات کے مقابلےمیں انتہائی حقیر ہیں بلکہ ان اعمال کی توفیق بھی اللہ کا احسان ہے۔
(3)(سدودا) کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اصل مقصود کو پیش نظر رکھو (سداد السهم) کا مطلب ہوتا ہے تیر کا نشانے پر لگنا۔ یہ لفظ اسی سے ماخوذ ہے۔ اصل مقصود اللہ کی رضا کا حصول اور جہنم سے نجات ہے۔
(4) نیک اعمال کا مقصد اللہ کی رحمت کا حصول ہے۔ اس کے نتیجے میں جنت بھی مل جائے گی اور جہنم سے بچاؤ بھی ہوجائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4201
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7111
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دے گا۔"ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اور آپ کو بھی نہیں؟"آپ نے فرمایا:"اور مجھے بھی نہیں۔"الایہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے، لیکن تم، درستگی اختیار کرو۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7111]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جنت میں داخلہ کا سبب محض انسان کا عمل نہیں بن سکتا، کیونکہ عمل کی توفیق اور اس کی قبولیت دونوں اللہ کے فضل و کرم اور رحمت کا نتیجہ ہیں، نیز انسانی عمل کسی قدر بلندو بالا ہو، حق تو یہ ہے، حق ادانہ ہوا کا مصداق ہے اور ایک محدود عمل، لامحدود جزاء کا سبب بھی نہیں بن سکتا، اس لیے عمل کا جنت کا سبب بنانا یہ بھی اس کی رحمت ہے، گویا عمل انسانی جنت میں داخلہ کا سبب ہے، لیکن اس کو سبب بنانا، رحمت الٰہی کا نتیجہ ہے، اس لیے آیت مبارکہ: ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٣٢﴾(سورة النحل: 32) ''اپنے عملوں کے سبب جنت میں چلے جاؤ۔ '' اوروَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٧٢﴾(الزخرف: 72) ''اس جنت کے وارث تم عملوں کے سبب ٹھہرائے گئے ہو۔ ''اس حدیث اور آیت میں مخالفت یا منافات نہیں ہے کیونکہ آیت میں باءسیہ سے اور حدیث میں نفس عوض اور بدلہ کی ہے کہ عملوں کے عوض یا بدلہ میں نہیں بلکہ عمل اللہ کی رحمت کا سبب ہیں اور رحمت ہی جنت میں داخلہ کا سبب ہےاور اس حدیث میں مخالفت یا منافات نہیں ہے، اس لیے آپ نے سدا (صحت و درستگی) کواختیار کرنے کا حکم دیا ہے، تاکہ یہ طرز عمل رحمت الٰہی کا سبب بن سکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7111
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6463
6463. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا۔“ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے بھی نہیں الا یہ کہ مجھے اللہ تعالٰی اپنی رحمت کے سائے میں لے لے، لہذا تم درستی کے ساتھ عمل جاری رکھو۔ میانہ روی اختیار کرو۔ صبح اور شام، نیز رات کے کچھ حصے میں نکلا کرو۔ اعتدال کے سفر جاری رکھو اس طرح تم منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6463]
حدیث حاشیہ: مقصود یہ ہے کہ آدمی صبح اور شام کو اسی طرح رات کو تھوڑی سی عبادت کر لیا کرے اور ہمیشہ کرتا رہے۔ یہ تین وقت نہایت متبرک ہیں آیت ﴿أَقِمِ الصلوٰةَ لدُلوكِ الشَّمسِ﴾ سے ظہر اور ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى﴾(البقرة: 238) سے عصر اس طرح سے قرآن کریم سے پنج وقتہ عبادت کا تقاضا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6463
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5673
5673. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کسی شخص کا عمل اسے جنت میں ہرگز داخل نہیں کر سکے گا۔“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا عمل بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں میرا عمل بھی نہیں۔ ہاں مگر اللہ تعالٰی مجھے اپنے فضل وکرم سے نوازے تو الگ بات ہے اس لیے تم میانہ روی اختیار کرو قریب قریب چلو اور تم میں کوئی بھی موت کی خواہش نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہوگا تو امید ہے کہ اس کے اعمال میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور اگر وہ برا ہے تو ممکن ہے کہ وہ توبہ کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5673]
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں ہے کہ موت کے آثار دیکھنے سے پہلے پہلے کوئی انسان موت کی آرزو نہ کرے، (صحیح مسلم، الذکر و الدعا، حدیث: 6819 (2682) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب موت کے اثرات نظر آنے لگیں تو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تڑپ میں موت کی تمنا کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث بیان کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت رفیق اعلیٰ سے ملنے کا اظہار کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ موت مانگنے کی ممانعت نزول موت سے پہلے وقت کے ساتھ خاص ہے۔ (فتح الباري: 161/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5673