جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اس نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پناہ لی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا“، چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4895]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4895
اردو حاشہ: (1) فاطمہ بنت محمد“ یہ آپ نے کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے فرمایا ورنہ کہاں خانوادہ رسول اور کہاں چوری؟ معاذ اللہ۔ اتفاقا اس چور عورت کا نام بھی فاطمہ تھا۔ فاطمہ بنت اسود بن عبدالاسد۔ (2) ظاہرا تو یہ اور سابقہ روایات ایک ہی واقعہ بیان کرتی ہیں۔ اس صورت میں چوری سے مراد عاریہ کی واپسی سے انکار ہی ہے کیونکہ عاریہ کی واپسی سے انکار کو مجازا چوری کہا جاسکتا ہے مگر چوری کو کسی بھی لحاظ سے عاریہ کی واپسی سے انکار نہیں کہا جاسکتا۔ یا پھر الگ واقعہ ماننا ہوگا مگر یہ مشکل ہے۔ محدثین نے اسے ایک ہی واقعہ قرار دیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4895