عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آنکھ کے بارے میں جس سے نظر نہ آتا ہو اور وہ اپنی جگہ پر ہو پھر اگر کوئی اسے پھوڑ دے یا نکال دے تو صحیح سالم آنکھ کی تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا، اور شل ہاتھ جب کاٹ دیا جائے تو اس میں صحیح سالم ہاتھ کی دیت کے تہائی کا، اور کالے دانت میں جب وہ اکھاڑ دیا جائے تو صحیح سالم دانت کی تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4844]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4844
اردو حاشہ: واللہ أعلم! شاید ایک تہائی دیت اس لیے دی جا رہی ہے کہ ان اعضا کے پھوڑنے، کاٹنے اور اکھیڑنے سے ظاہری حسن وجمال جاتا رہا ہے۔ یہ اعضاء اگرچہ اپنے اصل مقصد سے خالی ہیں لیکن اپنی جگہ قائم ہونے کی وجہ سے ظاہری زیب وزینت اور حسن وجمال کا فائدہ بہرحال دے رہے ہیں۔ دور سے دیکھنے میں تو وہ شخص بے عیب ہے، لہٰذا ایسے عضو کو ضائع کر دینے سے، شریعت میں اسی عضو کی جتنی دیت مقرر ہے اس کی ایک تہائی دیت دینا ہوگی۔ صحیح آنکھ کی دیت پچاس اونٹ، صحیح ہاتھ کی دیت پچاس اونٹ اور صحیح دانت کی دیت پانچ اونٹ ہے، ان کا تہائی کسر میں آتا ہے۔ لہٰذا کسر کی جگہ قیمت لگائی جائے گی، مثلاً: آنکھ اور بے جان ہاتھ کی دیت سولہ سولہ اونٹ اور باقی دو دو اونٹوں کی کل قیمت کا ایک تہائی حصہ ہوگی۔ دو اونٹوں کی قیمت اگر تین لاکھ روپے ہو تو اس میں سے ایک لاکھ اسے دیا جائے گا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4844