عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مائدہ کی وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فاحكم بينهم أو أعرض عنهم» سے «المقسطين»، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے درمیان ایک دیت کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں، وجہ یہ تھی کہ بنو نضیر کے مقتولین کو برتری حاصل ہونے کی وجہ سے ان کی پوری دیت دے دی جاتی تھی اور بنو قریظہ کو آدھی دیت دی جاتی تھی، اس سلسلے میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ان کے سلسلے میں نازل فرمایا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سلسلہ میں حق کی ترغیب دلائی اور دیت برابر کر دی۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4737]
الآيات التي في المائدة التي قالها الله فاحكم بينهم أو أعرض عنهم إلى المقسطين إنما نزلت في الدية بين النضير وبين قريظة وذلك أن قتلى النضير كان لهم شرف يودون الدية كاملة وأن بني قريظة كانوا يودون نصف الدية فتحاكموا في ذلك إلى رسول الله فأنزل الله ذلك فيهم ف
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4737
اردو حاشہ: (1) اسلامی حکومت کے تحت بسنے والے غیر مسلم ذمی کہلاتے ہیں۔ اپنے ذاتی معاملات تو وہ اپنی روایات کے مطابق خود طے کریں گے مگر جن معاملات کا تعلق عدالت سے ہے، وہ فیصلہ ملکی قانون کے مطابق ہوگا۔ ملکی قانون سے مراد اسلامی شریعت ہے۔ مذہب اور دین ذاتی معاملات میں شمار ہوتے ہیں۔ لوگوں سے لین دین اور جرم وسزا وغیرہ ملکی معاملات کے تحت آتے ہیں۔ (2) مذکورہ بالا دونوں روایتوں کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین مذکورہ دونوں روایتوں کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ دونوں روایتیں مل کر درجہ صحت تک پہنچ جاتی ہیں۔ اور دلائل کے اعتبار سے یہی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم، مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة، مسند الإمام أحمد: 5/ 401، وذخیرة العقبی شرح سنن النسائي: 36/ 6-12)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4737