انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنے آدمی کے قاتل کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اس سے فرمایا: ”اسے معاف کر دو“، اس نے انکار کیا، تو آپ نے فرمایا: ”دیت لے لو“، اس نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا: ”جاؤ، اسے قتل کر دو، تم بھی اسی جیسے ہو جاؤ گے (گناہ میں)“، جب وہ قتل کرنے چلا تو کوئی اس شخص سے ملا اور اس سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ”(اگر) اسے قتل کر دو، تم بھی اسی طرح ہو جاؤ گے“، چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا، تو وہ شخص (یعنی قاتل جسے معاف کیا گیا) میرے پاس سے اپنی رسی گھسیٹتے ہوئے گزرا۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4734]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2691
´قاتل کو معاف کر دینے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے ولی کے قاتل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے معاف کر دو“، اس نے انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیت لے لو“ اس نے انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اسے قتل کر دو اور تم بھی اسی کی طرح ہو جاؤ“۱؎ چنانچہ اس سے مل کر کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جاؤ تم اس کو قتل کر دو تم بھی اس کے مثل ہو جاؤ“ تو اس نے اسے چھوڑ دیا، قاتل کو اپنے گھر والوں کی طرف اپنا پٹا گھسیٹتے ہوئے جاتے دیکھا گیا، گوی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2691]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مقتول کے وارث کو حق حاصل ہے کہ قاتل سے قصاص لے یا معاف کردے۔
(2) قتل خطا کی صورت میں قصاص لینا درست نہیں، دیت لی جا سکتی ہے یا معاف کیا جا سکتا ہے۔
(3) قتل خطا کی صورت میں قصاص لینا خود قتل کرنے کے برابر گناہ ہے۔
(4) مقتول کے وارث نے پہلے یہ لفظ نہیں سنا تھا: تو بھی اسی کی طر ح ہے، اس لیے وہ قصاص کی نیت سے لے کر چلا۔ جب ارشاد نبوی معلوم ہوا تو فوراً چھوڑا دیا۔
(5) نسعۃ سے مراد چمڑے کا پتلا اور لمبا ٹکڑا ہے جورسی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اردو میں اسے تسمہ بھی کہتے ہیں۔
(6) حضرت عبدالرحمان بن قاسم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے قاتل کا عذر تسلیم کرلیا تھا، اس لیے قصاص کے طور پر قتل کرنے سے منع فرمایا۔ ہم ظاہر پر عمل کے مکلف ہیں۔ اگر ایسے قرائن و دلائل موجود نہ ہوں جن سے اس کا قتل خطا ثابت ہو تو محض مجرم کے کہنے سے قتل خطا تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
(7) ”رملہ والوں کی حدیث“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کی جو سندیں ہیں ان سب میں رملہ سے تعلق رکھتے والے راوی موجود ہیں۔ یہ حدیث کی صحت پر شک کا اظہار نہیں بلکہ اس قسم کے نکتے علمائے حدیث کی باریک بینی پر دلالت کرتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2691