بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ اس شخص نے میرے بھائی کو مار ڈالا، آپ نے فرمایا: ”جاؤ اسے بھی مار ڈالو جیسا کہ اس نے تمہارے بھائی کو مارا ہے“، اس شخص نے اس سے کہا: اللہ سے ڈرو اور مجھے معاف کر دو، اس میں تمہیں زیادہ ثواب ملے گا اور یہ قیامت کے دن تمہارے لیے اور تمہارے بھائی کے لیے بہتر ہو گا، یہ سن کر اس نے اسے چھوڑ دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی، آپ نے اس سے پوچھا تو اس نے جو کہا تھا، آپ سے بیان کیا، آپ نے اس سے زور سے فرمایا: ”سنو! یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے جو وہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ معاملہ کرتا، وہ کہے گا (قیامت کے دن) اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4735]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4735
اردو حاشہ: (1)”تیرا قتل ہو جانا بہتر تھا“ گویا معافی مقتول اور اس کے ولی کے لیے تو بہتر اور افضل ہے مگر قاتل کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ مقتول اور اس کا ولی تو معافی کی وجہ سے جنت میں چلے جائیں گے مگر قاتل کو حساب دینا ہوگا اور عذاب سہنا ہوگا، بخلاف اس کے کہ اگر معاف نہ کیا جاتا اور قاتل کو قتل کر دیا جاتا تو قاتل کا گناہ تو معاف ہو جاتا، البتہ مقتول اور اس کے ولی کی معافی کی کوئی ضمانت نہ ہوتی۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت سے سزا ہونے کے بعد بھی قاتل، مقتول کے وارث سے معافی کی درخواست کر سکتا ہے اور وہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے کیونکہ یہ خالصتاً اسی کا حق ہے۔ اور یہ صرف قتل کے مسئلے میں ہے۔ چوری وغیرہ کے مسئلے میں عدالت میں کیس آنے سے پہلے تو معاف کر سکتا ہے بعد میں نہیں۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4735