عمران بن حذیفہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا قرض لیا کرتی تھیں اور کثرت سے لیا کرتی تھیں، تو ان کے گھر والوں نے اس سلسلے میں ان سے گفتگو کی اور ان کو برا بھلا کہا اور ان پر غصہ ہوئے تو وہ بولیں: میں قرض لینا نہیں چھوڑوں گی، میں نے اپنے خلیل اور محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو بھی کوئی قرض لیتا ہے اور اللہ کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرض ادا کرنے کی فکر میں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا قرض دنیا میں ادا کر دیتا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4690]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الصدقات 10(2408)، (تحفة الأشراف: 18077) (صحیح) (لیکن ’’فی الدنیا‘‘ کا لفظ صحیح نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله في الدنيا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (2408) زياد بن عمرو وعمران بن حذيفة لم يوثقهما غير ابن حبان. وحديث ابن ماجه (الأصل: 2409) وسنده حسن يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 355
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2408
´قرض اس نیت سے لینا کہ اسے واپس بھی کرنا ہے اس کے فضل کا بیان۔` ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ قرض لیا کرتی تھیں تو ان کے گھر والوں میں سے کسی نے ان سے کہا: آپ ایسا نہ کریں، اور ان کے ایسا کرنے کو اس نے ناپسند کیا، تو وہ بولیں: کیوں ایسا نہ کریں، میں نے اپنے نبی اور خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں جو قرض لیتا ہو اور اللہ جانتا ہو کہ وہ اس کو ادا کرنا چاہتا ہے مگر اللہ اس کو دنیا ہی میں اس سے ادا کرا دے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2408]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ضرورت کے وقت قرض لینا جائزہے، تاہم اجتناب بہتر ہے۔
(2) قرض لیتے وقت یہ نیت ہونی چاہیے کہ اسے جلد ازجلد ادا کیا جائے گا۔
(3) ایسی نیت رکھنے والوں کی اللہ تعالی مدد فرماتا ہےاور وہ آسانی کے ساتھ قرض ادا کر دیتے ہیں بشرطیکہ وہ ادائیگی کےلیے مخلصانہ کوشش کریں اور اس میں کوتاہی نہ کریں۔
(4) اللہ تعالی کے ہاں حسن نیت کی بہت اہمیت ہے۔
(5) اگر کوئی شخص قرض ادا کرنے سے پہلے فوت ہو گیا تو وارثوں کا فرض ہے کہ قرض ادا کریں، اگر ادائیگی نہ کی گئی تو قیامت کونیکیوں کی صورت میں ادائیگی کرنی پڑے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2408