الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
95. بَابُ : الرَّجُلِ يَبْتَاعُ الْبَيْعَ فَيُفْلِسُ وَيُوجَدُ الْمَتَاعُ بِعَيْنِهِ
95. باب: سامان خریدنے کے بعد قیمت ادا کرنے سے پہلے آدمی مفلس ہو جائے اور وہ چیز اس کے پاس جوں کی توں موجود ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4680
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَيُّمَا امْرِئٍ أَفْلَسَ ثُمَّ وَجَدَ رَجُلٌ عِنْدَهُ سِلْعَتَهُ بِعَيْنِهَا , فَهُوَ أَوْلَى بِهِ مِنْ غَيْرِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (سامان خریدنے کے بعد) مفلس ہو گیا، پھر بیچنے والے کو اس کے پاس اپنا مال بعینہ ملا تو دوسروں کی بہ نسبت وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4680]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الاستقراض 14 (2402)، صحیح مسلم/المساقاة 5 (البیوع 26) (1559)، سنن ابی داود/البیوع76(3519، 3520)، سنن الترمذی/البیوع 26 (1262)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 26 (4358، 2359)، (تحفة الأشراف: 14861)، موطا امام مالک/البیوع 42 (88)، مسند احمد (2/228، 247، 249، 258، 410، 468، 474، 508)، سنن الدارمی/البیوع 51 (2632) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس باب کی احادیث کی روشنی میں علماء نے کچھ شرائط کے ساتھ ایسے شخص کو اپنے سامان کا زیادہ حقدار ٹھہرایا ہے جو یہ سامان کسی ایسے شخص کے پاس بعینہٖ پائے جس کا دیوالیہ ہو گیا ہو، وہ شرائط یہ ہیں: (الف) سامان خریدار کے پاس بعینہٖ موجود ہو۔ (ب) پایا جانے والا سامان اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہو۔ (ج) سامان کی قیمت میں سے کچھ بھی نہ لیا گیا ہو۔ (د) کوئی ایسی رکاوٹ حائل نہ ہو جس سے وہ سامان لوٹایا ہی نہ جا سکے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريمن أدرك ماله بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره
   صحيح مسلمإذا أفلس الرجل فوجد الرجل عنده سلعته بعينها فهو أحق بها
   صحيح مسلممن أدرك ماله بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره
   صحيح مسلمإذا أفلس الرجل فوجد الرجل متاعه بعينه فهو أحق به
   جامع الترمذيأيما امرئ أفلس ووجد رجل سلعته عنده بعينها فهو أولى بها من غيره
   سنن أبي داودأيما رجل أفلس فأدرك الرجل متاعه بعينه فهو أحق به من غيره
   سنن أبي داودأيما رجل باع متاعا فأفلس الذي ابتاعه ولم يقبض الذي باعه من ثمنه شيئا فوجد متاعه بعينه فهو أحق به مات المشتري فصاحب المتاع أسوة الغرماء
   سنن أبي داودمن أفلس مات فوجد رجل متاعه بعينه فهو أحق به
   سنن النسائى الصغرىإذا وجد عنده المتاع بعينه وعرفه أنه لصاحبه الذي باعه
   سنن النسائى الصغرىأيما امرئ أفلس ثم وجد رجل عنده سلعته بعينها فهو أولى به من غيره
   سنن ابن ماجهمن وجد متاعه بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره
   سنن ابن ماجهأيما رجل باع سلعة فأدرك سلعته بعينها عند رجل وقد أفلس ولم يكن قبض من ثمنها شيئا فهي له قبض من ثمنها شيئا فهو أسوة للغرماء
   بلوغ المرام من أدرك ماله بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره
   مسندالحميديأيما رجل وجد متاعه بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4680 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4680  
اردو حاشہ:
مفلس وہ شخص ہوتا ہے جس پر اتنا قرض چڑھ جائے کہ وہ ادائیگی کے قابل نہ ہو۔ ہماری زبان میں اسے دیوالیہ کہتے ہیں۔ اس شخص پر یہ پابندی لگا دی جاتی ہے کہ تو اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مال فروخت کر کے جو کچھ میسر ہوتا ہے، وہ قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور باقی قرض اسے معاف ہو جاتا ہے، مثلاً: اگر اس پر دس ہزار روپے قرض ہیں مگر اس کا مال کل پانچ ہزار روپے میں فروخت ہو تو اس کے قرض خواہوں میں ان کے قرض کا نصف نصف دیا جائے گا اور باقی معاف ہوگا۔ اس حدیث میں ایک استثنا کیا گیا ہے کہ اگر کسی کی کوئی چیز بعینہٖ اس کے پاس ہو، خواہ وہ اسے عاریتاً دی گئی ہو یا بیچی گئی ہو اور اس نے ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا ہو تو وہ چیز پوری کی پوری اس کے مالک کو دے دی جائے گی۔ وہ چیز فروخت کر کے تمام قرض خواہوں میں تقسیم نہیں ہو گی، البتہ اگر اس نے اس کی قیمت میں سے کچھ ادا کر دیا ہو تو پھر وہ باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی۔ اور اس کے مالک کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ ملا کر ان کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی، مثلاً: اگر ان کو ان کے قرض کا نصف دیا جا رہا ہو تو اسے بھی اس کے قرض کا نصف ہی دیا جائے گا۔ جمہور اہل علم اس استثنا کو مانتے ہیں مگر احناف نے استثنا کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس سے دوسرے قرض خواہوں کی حق تلفی ہوگی کہ ان کو تو ان کے قرض کا مثلاً نصف ملا لیکن یہ شخص اپنی چیز پوری کی پوری لے گیا۔ ان کے نزدیک یہ چیز بھی باقی سامان کے ساتھ فروخت ہوگی اور اس شخص کو بھی دوسرے قرض خواہوں کے تناسب سے ادائیگی کی جائے گی۔ احناف کی یہ بات درست نہیں کیونکہ اس شخص کو دوسرے قرض خواہوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کی چیز بعینہٖ مفلس کے پاس موجود ہے جبکہ دیگر لوگوں کا مال تلف ہو چکا ہے۔ اب یہ قطعاً درست نہیں کہ مالک کے ہوتے ہوئے اس کی چیز بیچ دی جائے اور اسے نہ دی جائے۔ یوں سمجھئے کہ وہ بیع کالعدم ہوگئی کیونکہ ابھی کوئی ادائیگی نہیں ہوئی، لہٰذا چیز اصل مالک کو واپس مل گئی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4680   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 727  
´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان`
سیدنا ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص مفلس کے پاس اپنی چیز بعینہ اسی حالت میں پائے تو وہ اس کا دوسرے کی بہ نسبت زیادہ حقدار ہے۔ (بخاری و مسلم) ابوداؤد اور مالک نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے ان الفاظ کے ساتھ مرسل روایت بیان کی ہے کہ کوئی آدمی اگر کوئی چیز بیچے اور خریدنے والا مفلس ہو جائے اور بیچنے والے کو اس کی قیمت میں سے ابھی کچھ بھی نہیں ملا تو (اس صورت میں) اگر وہ بعینہ اپنا مال پا لیتا ہے تو وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے اور اگر خریدار مر جائے تو پھر صاحب مال دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہے۔ بیہقی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور ابوداؤد کی اتباع میں اسے ضعیف کہا ہے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اسے عمر بن خلدۃ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ہم اپنے ایک ساتھی کے لئے جو مفلس ہو گیا تھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا ہی فیصلہ کروں گا (اور وہ یہ تھا کہ) جو کوئی مفلس ہو جائے یا مر جائے اور کوئی آدمی اس کے پاس اپنی چیز بعینہ پا لے تو وہ ہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ابوداؤد نے ضعیف کہا ہے اور اسی طرح ابوداؤد نے اس زیادتی کو جو موت کے ذکر میں ہے، ضعیف کہا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 727»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستقراض، باب إذا وجد ماله عند مفلس، حديث:2402، ومسلم، المساقاة، باب من أدرك ما باعه عند المشتري وقد أفلس، حديث:1559، ورواية أبي بكر بن عبدالرحمن أخرجه أبوداود، البيوع، حديث:3520، ومالك:2 /678، والبهقي:6 /46 وهو حديث صحيح، ورواية، عمر بن خلدة أخرجه أبوداود، البيوع، حديث:3523، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2360، والحاكم:2 /51 وسنده حسن.»
تشریح:
اس حدیث میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے اس کی نوعیت یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی قسم کا مال خریدے اور اس کی رقم اس پر قرض ہو‘ اس کے بعد وہ مفلس و قلاش ہو جائے اور ادائیگیٔ قرض کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہ بچے‘ اس صورت میں اس مال کے فروخت کرنے والے کو حق پہنچتا ہے کہ اگر اس کی فروخت کردہ چیز بعینہ موجود ہے تو وہ اسے بلاتردد حاصل کر لے اور معاہدئہ بیع کو فسخ کر دے۔
جمہور کا یہی مذہب ہے۔
لیکن احناف کے نزدیک وہ تنہا اس مال کو نہیں لے سکتا بلکہ وہ بھی عام قرض خواہوں کی طرح کا ایک قرض خواہ ہے‘ جس تناسب سے دوسرے قرض خواہوں کو قرض کی واپسی ہوگی اسے بھی اسی تناسب سے قرض واپس ہوگا۔
لیکن یہ حدیث کے خلاف ہے۔
امام ابوداود رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی روایت کردہ ابوبکر بن عبدالرحمن کی مرسل حدیث‘ جسے انھوں نے موصول بیان کیا ہے‘ میں ایک راوی اسماعیل بن عیاش ہے جسے ضعیف قرار دیا گیا ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر اسماعیل شامیوں سے روایت کرتا ہے تو وہ درست ہے اور اس حدیث میں اس نے حارث زبیدی شامی سے روایت کیا ہے‘ تاہم امام ابوداود نے مرسل ہی کو صحیح ترین کہا ہے اور عمر بن خلدہ کی روایت میں أبومعتمر کو امام ابوداود‘ طحاوی اور ابن منذر نے مجہول کہا ہے اور امام ابن ابی حاتم نے اس سے صرف‘ ابن ابی ذئب ہی روایت کرنے والا ذکر کیا ہے‘ اسی لیے امام ابوداود نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(التلخیص) جبکہ ہمارے فاضل محقق نے ابوبکر بن عبدالرحمن کی روایت کو صحیح اور عمر بن خلدہ کی روایت کو سنداً حسن قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راوئ حدیث: «حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی مدنی۔
مدینہ منورہ کے قاضی تھے۔
ان کے نام کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام محمد تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام مغیرہ تھا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ابوبکر اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے۔
بڑے فقیہ‘ عبادت گزار اور ثقہ آدمی تھے۔
انھیں تیسرے طبقے میں شمار کیا گیا ہے۔
ولید بن عبدالملک کے دور خلافت میں وفات پائی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت ہے۔
شعبی اور زہری وغیرہ نے ان سے روایت کیا ہے۔
ان کی وفات ۷۳ یا ۷۴ یا ۷۵ ہجری میں ہوئی۔
«حضرت عمر بن خلدہ رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ابوحفص ان کی کنیت تھی۔
مدینہ منورہ کے انصار میں سے تھے۔
قضا کے عہدے و منصب پر فائز رہے۔
نہایت پرہیزگار‘ پاک دامن و عفیف‘ بڑے بہادر‘ حریف کے مقابل شمشیر بُرّاں اور بڑے با رعب انسان تھے۔
انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور ان سے ربیعہ الرای نے۔
اور خلدہ کے خا پر فتحہ ہے۔
کہا گیا ہے کہ خلدہ ان کے دادا ہیں اور ان کے والد کا نام عبدالرحمن ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 727   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3519  
´آدمی مفلس (دیوالیہ) کے پاس اپنا سامان بعینہ پائے تو اس کا زیادہ حقدار وہی ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مفلس ہو جائے، پھر کوئی آدمی اپنا مال اس کے پاس ہو بہو پائے تو وہ (دوسرے قرض خواہوں کے مقابل میں) اسے واپس لے لینے کا زیادہ مستحق ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3519]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
حدیث میں مذکور صورت میں اگر بائع (فروخت کنندہ) نے کوئی قیمت وصول نہ کی ہو اور مال بعینہ موجود ہو تو بیع فسخ سمجھی جائے گی اور مال واپس ہوگا۔
اگر اس مال میں کوئی تصرف کیا گیا ہو۔
تو دیگر قرض خواہ بھی اس میں سے اپنا حصہ لے سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3519   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3523  
´آدمی مفلس (دیوالیہ) کے پاس اپنا سامان بعینہ پائے تو اس کا زیادہ حقدار وہی ہو گا۔`
عمر بن خلدہ کہتے ہیں ہم اپنے ایک ساتھی کے مقدمہ میں جو مفلس ہو گیا تھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انہوں نے کہا: میں تمہارا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو مفلس ہو گیا، یا مر گیا، اور بائع نے اپنا مال اس کے پاس بعینہ موجود پایا تو وہ بہ نسبت اور قرض خواہوں کے اپنا مال واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3523]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اس حدیث میں بٖغیر شرط کے قرض خواہ کواپنا مال لے جانے کی اجازت مذکور ہے۔
پچھلی احادیث میں جو صحیح ہیں۔
اس کی شرطیں بیان ہوئی ہیں کہ لینے والا زندہ ہو۔
اور چیز دینے والے نے قیمت کا کچھ حصہ بھی وصول نہ کیا ہو تو بعینہ اپنا مال لے جا سکتا ہے۔
ورنہ ایسا قرض خواہ بھی دو سرے قرض خواہوں کے ساتھ ہوگا۔
اور اسی شرح سے حصہ پائے گا۔
امام ابودائود نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد واضح کردیا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
اس سے پڑھنے والے کوپتہ چل جائےگا۔
کہ جو لوگ اس حدیث کی بنا پر اپنی چیز لے جانے والے کا دعویٰ کریں۔
یا فتویٰ دیں تو قابل قبول نہ ہوگا۔
کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
تاہم بعض حضرات نے اس حدیث کی تحسین کی ہے۔
اس صورت میں اس کے عموم کو گزشتہ احادیث کی رو سے خاص کردیا جائےگا۔
یعنی واپسی کےلئے ان شرطوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا جو دوسری احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3523   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2359  
´ایک شخص کا دیوالیہ ہو گیا اور کسی نے اپنا مال اس کے پاس پا لیا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کوئی سامان بیچا پھر اس نے اس کو بعینہ اس (مشتری) کے پاس پایا جو دیوالیہ ہو گیا ہے، اور بائع کو ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ نہیں ملا تھا، تو وہ سامان بائع کو ملے گا، اور اگر وہ اس کی قیمت میں سے کچھ لے چکا ہے تو وہ دیگر قرض خواہوں کے مانند ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2359]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کسی شخص پر قرض اتنا زیادہ ہو جائے کہ وہ ا سے ادا کرنے سے قاصر ہو تواسے دیوالیہ قرار دینا مشروع ہے۔

(2)
دیوالیہ کے گھر کا اسباب بیچ کر قرض خواہوں کا قرض واپس کیا جائےگا۔ 3۔
اگر دیوالیہ کے پاس قرض خواہ کی کوئی چیز موجود ہو تو اس کی دوصورتیں ہیں
(الف)
اگر دیوالیہ نے اس کی قیمت بالکل ادا نہیں کی توقرض خواہ اپنی چیز وصول کرے گا اور یوں سمجھا جائے گا کہ یہ چیز بیچی اور خریدی ہی نہیں گئی۔

(ب)
اگر مقروض نے اس چیز کی کل قیمت یا کچھ قیمت ادا کر دی ہے تواب یہ مقروض (دیوالیہ)
کی ملکیت ہے۔
اسباب قرض خواہوں میں تقسیم کرتے ہوئے اگر یہ چیز اس قرض خواہ کے حصے میں آجائے تو بھی ٹھیک ہے نہیں تو جس کے حصے میں چلی جائے وہ لے لے گا۔
یہ قرض خواہ دوسرے قرض خواہوں سے اس چیز کا زیادہ حق نہیں رکھتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2359   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3987  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: جس نے اپنا ہو بہو مال اس انسان کے پاس پایا جو مفلس ہو چکا ہے یا اسے دیوالیہ قرار دے دیا گیا ہے، تو وہ دوسروں سے اس کا زیادہ حقدار ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3987]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
افلاس یہ ہے کہ انسان پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا ہے،
کیونکہ اس کے پاس کوئی فلس (پیسہ)
نہیں رہا ہے،
اور قاضی نے اس کو دیوالیہ قرار دے دیا ہے،
کہ وہ اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا،
لیکن اس کا سارامال بیچ کر بھی اس کا قرضہ اتارا نہیں جا سکتا،
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر کوئی انسان دوسرے سے کوئی چیز خریدتا ہے،
اور قیمت نقد ادا نہیں کرتا،
پھر قیمت کی ادائیگی سے پہلے ٹکےٹکے کا محتاج ہو جاتا ہے،
لیکن جو سامان اس نے خریدا تھا،
وہ بغیر کسی تغیروتبدل کے اصل حالت میں اس کے پاس موجود ہے،
تو وہ سامان فروخت کرنے والے کا ہوگا،
دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا،
جمہور ائمہ،
مالک،
شافعی،
احمد اور اسحاق وغیرہ ہم کا یہی موقف ہے،
لیکن ائمہ احناف کا اس کے برعکس نظریہ ہے،
کہ اس میں تمام قرض خواہ حصہ دار ہوں گے،
اور اس حدیث کو انہوں نے،
غضب،
عاریہ،
اور امانت وغیرہ کی واپسی پر محمول کیا ہے،
حالانکہ اگلی روایت میں یہ تصریح موجود ہے،
(انه لصاحبه الذی باعه)
یہ سامان،
اس کے مالک کا ہے،
جس نے اسے فرخت کیا تھا،
اور علامہ انور شاہ نے اس حدیث سے جان چھڑانے کے لیے اس کو دیانت کا مسئلہ قرار دیا ہے کہ مشتری کو فیصلہ عدالت میں جانے سے پہلے پہلے،
یہ مال،
اس کے مالک،
بائع کے حوالہ کر دینا چاہیے،
کیونکہ اگر فیصلہ عدالت میں چلا گیا،
تو پھر بائع بھی دوسروں قرض خواہوں کی طرح ایک قرض خواہ ہو گا۔
(فیض الباری،
ج (3)
،
ص313)

لیکن علامہ تقی عثمانی صاحب احناف کے تمام عذر اور بہانے پیش کرنے کے بعد،
اپنا نظریہ،
یہ ظاہر کیا ہے کہ مذهب الجمهور،
اوفق بلفظ الحديث،
حدیث کے الفاظ جمہور کے موقف کے مطابق ہیں۔
(تکملہ،
ج (1)
،
ص 500)

اور علامہ عبدالحئی لکھنوی نے بھی التعلیق الممجد میں جمہور کی رائے کو پسند کیا ہے۔
(تکملہ،
ج (1)
،
ص501)

اور علامہ سعیدی نے بھی احناف کے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
ہر چند امام ابو حنیفہ کا نظریہ،
قیاس اور درایت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے،
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور صریح احادیث مقدم ہیں۔
(شرح مسلم،
ج (4)
،
ص284)

معلوم نہیں،
احناف کو صحیح احادیث کو قیاس اور درایت کے مخالف ثابت کر کے کیا ملتا ہے،
کہ ایسے قیاس اور درایت کو غلط کیوں قرار نہیں دیتے،
اور اس کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے صحیح احادیث کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں،
اور مقلد ہونے کے باوجود امام صاحب کے غلط موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں،
حالانکہ سیدھی سادی بات ہے کہ امام صاحب کو اس صحیح حدیث کا علم نہ ہو سکا،
اس لیے انہوں نے قیاس ورائے کا سہارا لیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3987   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2402  
2402. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنا مال بعینہ کسی شخص کے پاس پایا جو دیوالیہ ہو گیا ہے تو وہ دوسروں کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:2402]
حدیث حاشیہ:
"اگر وہ چیز بدل گئی، مثلاً سونا خریدا تھا اس کا زیور بنا ڈالا تو اب سب قرض خواہوں کا حق اس میں برابر ہوگا۔
حنفیہ نے اس حدیث کے خلاف اپنا مذہب قرار دیا ہے اور قیاس پر عمل کیا ہے حالانکہ وہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ قیاس کو حدیث کے مخالف ترک کر دینا چاہئے۔
حدیث اپنے مضمون میں واضح ہے کہ جب کسی شخص نے کسی شخص سے کوئی چیز خریدی اوراس پر قبضہ بھی کر لیا، لیکن قیمت نہیں ادا کی تھی کہ وہ دیوالیہ ہو گیا۔
پس اگر وہ اصل سامان اس کے پاس موجود ہے تو اس کا مستحق بیچنے والا ہی ہوگا اور دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہ ہوگا۔
حضرت امام بخاری ؒ کا یہی مسلک ہے جو حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
حضرت امام شافعی ؒ کا فتوی بھی یہی ہے۔
"
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2402   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2402  
2402. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنا مال بعینہ کسی شخص کے پاس پایا جو دیوالیہ ہو گیا ہے تو وہ دوسروں کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:2402]
حدیث حاشیہ:
(1)
معاملہ عدالت میں پیش ہو گا اور عدالت تحقیق کرنے کے بعد اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی اس کا مال ہے تو اسے حق دار قرار دے کر وہ مال اس کے حوالے کر دے گی۔
وہ ازخود اس پر قبضہ کرنے کا مجاز نہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق مختلف صورتیں حسب ذیل ہیں:
بیع کی صورت یہ ہے کہ کسی نے اپنا مال ادھار پر کسی کو فروخت کیا، اس کے بعد خریدار مفلس ہو گیا تو بائع نے اپنی فروخت کردہ چیز بعینہٖ خریدار کے پاس پائی تو وہ دوسرے قرض خواہوں سے اس کا زیادہ حق دار ہے۔
قرض کی صورت یہ ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کو قرض دیا، پھر مقروض دیوالیہ ہو گیا تو اگر قرض خواہ اپنا مال بعینہٖ مقروض کے پاس پائے تو وہ دوسرے قرض خواہوں کی نسبت اس کا زیادہ حق دار ہے۔
امانت کی صورت یہ ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کے پاس کوئی امانت رکھی پھر امین مفلس ہو گیا تو امانت دار اس امانت کا زیادہ حق دار ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں، البتہ بیع اور قرض میں کچھ فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(3)
یہ حدیث اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ جب کسی شخص نے کسی دوسرے سے کوئی چیز خریدی اور اس پر قبضہ کر لیا لیکن ابھی ادا نہیں کی تھی کہ وہ دیوالیہ ہو گیا، اگر وہ خرید کردہ چیز بعینہٖ اس کے پاس موجود ہے تو اس کا حق دار فروخت کرنے والا ہے، دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہو گا اور اگر وہ چیز تبدیل ہو گئی:
مثلاً:
سونا خریدا تھا تو اس نے اس کا زیور بنا ڈالا، اس صورت میں فروخت کنندہ اکیلا حق دار نہیں ہو گا بلکہ سب قرض خواہ اس میں برابر کے شریک ہوں گے، عدل و انصاف کا بھی یہی تقاضا ہے۔
امام شافعی ؒ کا فتویٰ بھی اس کے مطابق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2402