الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
12. بَابُ : الْخَدِيعَةِ فِي الْبَيْعِ
12. باب: خرید و فروخت میں دھوکہ کھا جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4490
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ كَانَ يُبَايِعُ , وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , احْجُرْ عَلَيْهِ , فَدَعَاهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ , قَالَ:" إِذَا بِعْتَ فَقُلْ: لَا خِلَابَةَ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کم عقلی کا شکار تھا اور تجارت کرتا تھا، اس کے گھر والوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے نبی! آپ اسے تجارت کرنے سے روک دیجئیے، تو آپ نے اسے بلایا اور اسے اس سے روکا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں تجارت سے باز نہیں آ سکتا، تو آپ نے فرمایا: جب بیچو تو کہو: فریب و دھوکہ نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4490]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/البیوع 68 (3501)، سنن الترمذی/البیوع 28 (1250)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 24 (2354)، (تحفة الأشراف: 1175)، مسند احمد (3/217) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   جامع الترمذيبايعت فقل هاء وهاء ولا خلابة
   سنن أبي داودإن كنت غير تارك البيع فقل هاء وهاء ولا خلابة
   سنن ابن ماجهإذا بايعت فقل ها ولا خلابة
   سنن النسائى الصغرىإذا بعت فقل لا خلابة

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4490 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4490  
اردو حاشہ:
(1) تجارت اور سوداگری میں دھوکا دینا، شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ ایسا تاجر جو لوگوں کو خرید و فروخت میں دھوکا دیتا ہے، وہ ان کا مال باطل طریقے سے کھاتا ہے اور یہ حرام ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایک فریق کی طرف سے بھی کوئی ایسی شرط ہو جو شرعاً جائز ہو تو وہ معتبر ہو گی۔ نہ صرف شرط معتبر ہو گی بلکہ اس کی وجہ سے سودا فسخ اور ختم کرنے کا اختیار بھی اسے حاصل ہو گا۔
(3) یہ حدیث اس اہم مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خبر واحد قطعی طور پر حجت ہے۔
(4) معقول عذر کی وجہ سے بالغ شخص پر تجارت نہ کرنے کی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
(5) دھوکا نہیں ہونا چاہیے گویا کہا جا رہا ہے: اگر دھوکا ہو گا تو سودا واپس ہو گا۔ اگر صراحتاً واپسی کی شرط لگانے سے واپسی ہو سکتی ہے تو کنایۃً واپسی کی شرط سے واپسی میں کیا حرج ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4490   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2354  
´جو شخص اپنا مال برباد کرتا ہو تو اس پر حجر (پابندی لگانا) درست ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کچھ کم عقل تھا، اور وہ خرید و فروخت کرتا تھا تو اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا، اور اس کو خرید و فروخت کرنے سے منع کیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ خرید و فروخت نہ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جب خرید و فروخت کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ دھوکا دھڑی کی ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2354]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
«لاخلابة» دھوکا نہیں۔
کامطلب یہ ہے کہ اگر اس بیع میں تم نے مجھ سے دھوکا کیا تو معلوم ہونے پر میں بیع فسخ کرنے کا حق رکھتا ہوں۔

(2)
انہیں دھوکا اس لیے لگ جاتا تھا کہ ایک بار سر میں شدید زخم آنے کی وجہ سے ان کی عقل متائر ہو گئی تھی۔

(3)
جس شخص کی عقل درست نہ ہو اسے خرید وفروخت سے حکماً روکا جا سکتا ہے اور اس کی بیع کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے اس کے بعد جوشخص اس سے لین دین کرے گا وہ خود ذمہ دار ہو گا کیونکہ وارث اس کے لین دین کو کالعدم قرار دینے کا حق رکھتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2354   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1250  
´جسے بیع میں دھوکہ دے دیا جاتا ہو وہ کیا کرے؟`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ۱؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کر سکوں گا، آپ نے فرمایا: (اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1250]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حبان بن منقذ بن عمروانصاری تھے اورایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سرمیں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ لڑاتھا پتھرسے شدید زخم آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اورعقل میں کمزوری آ گئی تھی اورزبان میں بھی تغیرآ گیا تھا لیکن ابھی تمیزکے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔

2؎:
مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ وفریب نہیں کیونکہ دین تونصیحت وخیرخواہی کا نام ہے۔

3؎:
ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1250