شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا کہ ”لوٹ جاؤ، میں نے تمہاری بیعت لے لی“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4187]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/السلام 36 (2231)، سنن ابن ماجہ/الطب 44 (3544)، (تحفة الأشراف: 4837)، مسند احمد (4/389، 390) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح سے یہ جانتے تھے کہ اس کے آنے سے لوگ گھن محسوس کریں گے اور ممکن ہے کہ بعض کمزور ایمان والے وہم میں بھی مبتلا ہو جائیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا کہ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں میں نے تمہاری بیعت لے لی۔ خود آپ کو گھن نہیں آئی، نہ آپ کو کسی وہم میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا، آپ سے بڑھ کر صاحب ایمان کون ہو سکتا ہے؟۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4187
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ مجذوم شخص سے بیعت لینا مشروع ہے، تا ہم ایسے شخص سے صرف زبانی کلامی بیعت بھی ہوسکتی ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطر ناک بیماری میں مبتلا شخص سے دوری اختیار کرنا جائز ہے، تاہم ایسے شخص کو بالکل نظر انداز کرنا اور کلی طور پر اسے حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا درست نہیں۔ اس کا علاج کرانا چاہیے۔ ضرورت کے مطابق اس سے میل جول اور اس کی معاونت ہو سکتی ہے۔ (3) آفت زدہ شخص سے مراد وہ شخص ہے جو انتہائی قبیح مرض میں گرفتار ہو۔ لوگ اس سے بہت نفرت کرتے ہوں۔ دوسرے لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو، مثلاََ: جذام (کوڑھ) یہ انتہائی قبیح اور خوف ناک مرض ہے۔ طبعاََ ہر آدمی اس سے دور بھاگتا ہے۔ اس مرض کا مواد مریض کے جسم پر ہر وقت موجود رہتا ہے۔ قریب آنے سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے جس سے اس کے متاثر ہونے کو خدشہ ہے، اس لیے نبی ﷺ نے اسے مجلس میں آنے سے منع فرما دیا۔ ایسے مریض کو خود بھی حتیٰ الامکان مجالس میں آنے سے بچنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ اس مرض سے بچائے۔ (4)”بیعت قبول کرلی ہے“ کیونکہ اصل اعتبار تو دلی عہد کا ہے۔ زبان وہاتھ تو صرف تاکید کے لیے ہیں، ضروری نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4187
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3544
´جذام (کوڑھ) کا بیان۔` شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وفد ثقیف میں ایک جذامی شخص تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا: ”تم لوٹ جاؤ ہم نے تمہاری بیعت لے لی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3544]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) مجذوم کو چاہیے کہ عام لوگوں سے الگ رہے تاکہ لوگوں کو اس سے تکلیف نہ پہنچے۔
(2) بیعت ایک وعدے کا نام ہے۔ اس میں مصافحہ صرف تاکید کےلئے ہوتا ہے۔ بغیر مصافحے کے بھی بیعت ہوجاتی ہے۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان سے مصافحہ نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأحکام، باب بیعة النساء، حدیث: 7214)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3544
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5822
حضرت عمرو بن شرید اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ بنو ثقیف میں ایک کوڑھی زدہ آدمی تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف پیغام بھیجا، ”ہم نے تیری بیعت لے لی ہے، لہذا واپس چلے جاؤ۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5822]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حفاظتی تدابیر اختیار کرنا اور سنگین بیماریوں سے اجتناب برتنا چاہیے اور اسباب ظاہری کو بالکل نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، اگرچہ وہ قطعی اور یقینی نہیں ہوتے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک کوڑھی کے ساتھ کھایا اور فرمایا: ”اللہ پر توکل اور اعتماد کر کے کھانا کھاؤ۔ “ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، یہ ایک آزاد کردہ غلام تھا، جو میری پلیٹ میں کھاتا تھا، میرے پیالہ میں پیتا تھا اور میرے بستر پر سو جاتا تھا یا آپ نے کمزور عقیدہ والے لوگوں کو غلط عقیدہ سے محفوظ رکھنے کے لیے احتیاطی طور پر کوڑھی کو دور رکھا۔