الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب عشرة النساء
کتاب: عورتوں کے ساتھ معاشرت (یعنی مل جل کر زندگی گزارنے) کے احکام و مسائل
3. بَابُ : حُبِّ الرَّجُلِ بَعْضَ نِسَائِهِ أَكْثَرَ مِنْ بَعْضٍ
3. باب: ایک کے مقابلے دوسری بیوی سے زیادہ محبت ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3401
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق الصَّغَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَاذَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أُمَّ سَلَمَةَ، لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا أَتَانِي الْوَحْيُ فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ إِلَّا هِيَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلمہ! مجھے عائشہ کے تعلق سے ایذا نہ دو، اس لیے کہ اللہ کی قسم! اس کے علاوہ کوئی عورت تم میں سے ایسی نہیں ہے جس کے لحاف میں میرے پاس وحی آئی ہو۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3401]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 16874)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الہبة 8 (2581)، وفضائل الصحابة 30 (3775)، سنن الترمذی/المناقب 63 (3879) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح، صحيح بخاري

   صحيح البخاريلا تؤذيني في عائشة ما نزل علي الوحي وأنا في لحاف امرأة منكن غيرها
   جامع الترمذيلا تؤذيني في عائشة ما أنزل علي الوحي وأنا في لحاف امرأة منكن غيرها
   سنن النسائى الصغرىلا تؤذني في عائشة ما أتاني الوحي في لحاف امرأة منكن إلا في لحاف عائشة

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3401 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3401  
اردو حاشہ:
وحی من جانب اللہ ہے‘ لہٰذا ا س(عائشہؓ) کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی تم سب سے بڑھ کر ہے اور یہ حضرت عائشہ کے لیے عظیم فخر کی بات ہے کہ وہ اس وقت موجود ازواج مطہرات میں سے عنداللہ بھی سب سے افضل تھیں‘ البتہ اس روایت میں حضرت خدیجہؓ سے مقابلہ نہیں کیونکہ وہ اس وقت زندہ نہ تھیں اور آپ نے مِنْکُنَّ فرمایا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3401   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3879  
´ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدئیے تحفے بھیجنے کے لیے عائشہ رضی الله عنہا کے دن (باری کے دن) کی تلاش میں رہتے تھے، تو میری سوکنیں سب ام سلمہ رضی الله عنہا کے یہاں جمع ہوئیں، اور کہنے لگیں: ام سلمہ! لوگ اپنے ہدایا بھیجنے کے لیے عائشہ رضی الله عنہا کے دن کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہم سب بھی خیر کی اسی طرح خواہاں ہیں جیسے عائشہ ہیں، تو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر کہو کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں (یعنی جس کے یہاں بھی باری ہو) وہ لوگ وہیں آپ کو ہدایا بھیجا کریں، چنانچہ ام سلمہ نے اس کا ذک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3879]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
صحیح بخاری میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ کی قبولیت کی وحی کے بارے میں آیا ہے کہ یہ وحی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں نازل ہوئی،
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپﷺ اورام سلمہ رضی اللہ عنہا ایک ہی لحاف میں تھے،
لحاف میں وحی نازل ہونے کی خصوصیت صرف عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے،
اور یہ بہت بڑی فضیلت کی بات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3879   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3775  
3775. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ لوگ حضرت عائشہ ؓ کی باری کے دن اپنے ہدایا اور نذرانے پیش کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ دیگرازواج مطہراتؓ حضرت اُم سلمہ ؓ کے گھر جمع ہوئیں اور کہنے لگیں۔ اللہ کی قسم!اے اُم سلمہؓ لوگ اپنے ہدایا حضرت عائشہ ؓ کی باری میں پیش کرتے ہیں حالانکہ ہم بھی خیرو برکت کی خواہش مند ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ خیرو برکت کو چاہتی ہیں۔ اس لیے آپ رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں، وہ اپنے نذرانے آپ جہاں بھی ہوں پیش کردیا کریں۔ حضرت اُم سلمہؓ نے اس بات کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے منہ پھیر لیا۔ حضرت اُم سلمہؓ کہتی ہیں کہ جب پھر میری باری پر آپ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے دوبارہ عرض کیا تو آپ نے پھر مجھ سے اعراض کیا۔ جب تیسری مرتبہ تشریف لائے تو میں نے پھر اپنے موقف کو دہرایا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: اے سلمہ ؓ!تم مجھے حضرت عائشہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3775]
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا اس سے عائشہ ؓ کی فضیلت خدیجہ ؓ پر لازم نہیں آتی بلکہ ان بیویوں پر فضیلت نکلتی ہے۔
جو عائشہؓ کے زمانے میں موجود تھیں، اور ان کے کپڑوں میں وحی نازل ہونے کی وجہ یہ ممکن ہے کہ ان کے والد ماجد حضرت ابوبکر ؓ آنحضرت ﷺکے خاص ساتھی تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی صاحبزادی کو بھی یہ برکت دی، یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ حضرت عائشہؓ حضورﷺ کی خاص پیاری بیوی تھیں یا یہ وجہ ہو کہ وہ کپڑوں کو بہت صاف رکھتی ہوں گی۔
الغرض ذلك فضل اللہ یؤتیه من یشاء۔
دوسری حدیث میں ہے کہ پھر ان بیویوں نے حضرت فاطمہؓ سے سفارش کرائی۔
آپ نے فرمایا کہ بیٹی اگر تو مجھ کو چاہتی ہے تو عائشہؓ سے محبت کر، انہوں نے کہا اب میں اس بارے میں کوئی دخل نہ دوں گی۔
قسطلانی اور کرمانی نے کہا ہے کہ احادیث کی گنتی کی روسے اس مقام پر صحیح بخاری کا نصف اول پورا ہوجاتاہے۔
گو پاروں کے لحاظ سے پندرہویں پارہ پر نصف اول پورا ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3775   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3775  
3775. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ لوگ حضرت عائشہ ؓ کی باری کے دن اپنے ہدایا اور نذرانے پیش کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ دیگرازواج مطہراتؓ حضرت اُم سلمہ ؓ کے گھر جمع ہوئیں اور کہنے لگیں۔ اللہ کی قسم!اے اُم سلمہؓ لوگ اپنے ہدایا حضرت عائشہ ؓ کی باری میں پیش کرتے ہیں حالانکہ ہم بھی خیرو برکت کی خواہش مند ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ خیرو برکت کو چاہتی ہیں۔ اس لیے آپ رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں، وہ اپنے نذرانے آپ جہاں بھی ہوں پیش کردیا کریں۔ حضرت اُم سلمہؓ نے اس بات کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے منہ پھیر لیا۔ حضرت اُم سلمہؓ کہتی ہیں کہ جب پھر میری باری پر آپ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے دوبارہ عرض کیا تو آپ نے پھر مجھ سے اعراض کیا۔ جب تیسری مرتبہ تشریف لائے تو میں نے پھر اپنے موقف کو دہرایا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: اے سلمہ ؓ!تم مجھے حضرت عائشہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3775]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سب ازواج مطہراتؓ سے افضل ہیں۔
چونکہ حضرت خدیجہؓ اس سے پہلے فوت ہوچکی تھیں، لہذا وہ اس خطاب میں شامل نہیں۔

بعض حضرات نے حدیث میں مذکور اختصاص کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کپڑوں کی صفائی میں ایک خاص ذوق رکھتی تھیں اورنظافت فرشتوں کو پسند ہے۔
اس لیے آپ کے بستر میں وحی نازل ہوئی تھی۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دیگر ازواج النبیﷺ صفائی کا خیال نہ رکھتی تھیں بلکہ وہ بھی صفائی ستھرائی کے اعلیٰ معیار پر فائز تھیں، لیکن حضرت عائشہؓ سب سے بڑھ کرتھیں۔
بہرحال امام بخاری ؒ نے فضیلت عائشہؓ کے متعلق کافی مواد جمع کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر دے۔
(فتح الباري: 137/7) (آمین)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3775