ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے ان سے بات کی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں کہ لوگ عائشہ کی باری کے دن ہدیے اور تحفے بھیجتے ہیں اور آپ سے کہیں کہ ہمیں بھی خیر سے اسی طرح محبت ہے جیسے آپ کو عائشہ سے ہے، چنانچہ انہوں نے آپ سے گفتگو کی لیکن آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا، جب ان کی باری کا دن آیا تو انہوں نے پھر بات کی، آپ نے انہیں جواب نہیں دیا۔ انہوں (بیویوں) نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کوئی جواب دیا؟ وہ بولیں: کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا: تم چھوڑنا مت، جب تک کوئی جواب نہ دے دیں۔ (یا یوں کہا:) جب تک تم دیکھ نہ لو کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں۔ جب پھر ان کی باری آئی تو انہوں نے آپ سے گفتگو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ کے تعلق سے مجھے اذیت نہ دو، اس لیے کہ عائشہ کے لحاف کے علاوہ تم میں سے کسی عورت کے لحاف میں ہوتے ہوئے میرے پاس وحی نہیں آئی“۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: عبدہ سے مروی یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3402]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3402
اردو حاشہ: وضاحت: عبدہ سے دو قسم کی روایت ہے: ایک حضرت عائشہؓ کی اور دوسری حضرت ام سلمہؓ کی۔ امام صاحب کے فرمان کے مطابق روایت دونوں طرح درست ہے۔ واللہ أعلم۔ فوائدومسائل: (1) یہ تفصیلی حدیث ہے جس سے سابقہ حدیث کا موقع محل معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں کا قصداً حضرت عائشہؓ کی باری کے دن تحفے بھیجنا دراصل اس بنا پر تھا کہ لوگ جانتے تھے کہ آپ حضرت عائشہؓ کے ساتھ زیادہ محبت فرماتے ہیں اور وہاں تحفے بھیجنے سے آپ زیادہ خوش ہوں گے۔ ازواج مطہرات کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے گھروں میں بھی تحفے آنے چاہییں‘ اس لیے رسول اللہﷺ لوگوں کو حکم دیں کہ وہ ہر جگہ تحفے بھیجیں۔ یا پھر ہم سب سے مساوی محبت فرمائیں تاکہ لوگ سب گھروں میں تحفے بھیجیں۔ (2)”آپ نے کوئی جواب نہ دیا“ کیونکہ لوگوں کو بذات خود تحفے بھیجنے کے لیے کہنات و شان نبوت کے منافی تھا۔ شرم وحیا مانع تھی۔ اور مساوی محبت ممکن نہ تھی‘ اس لیے کہ یہ غیر اختیاری چیز ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3402