عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھا تو میں برابر آپ کو لبیک پکارتے ہوئے سن رہا تھا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو جب رمی کر لی تو آپ نے تلبیہ پکارنا بند کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3082]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المناسک 69 (3040)، (تحفة الأشراف: 11056)، مسند احمد (1/214) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3082
اردو حاشہ: رمی آخری فعل ہے جو محرم حج کے دوران میں کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کا احرام ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا لبیک کا وقت بھی رمی تک ہی ہے۔ صحیح صریح حدیث کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ رمی کی آخری کنکری کے ساتھ ہی تلبیہ موقوف کر دیا جائے۔ یہ امام احمد اور بعض اصحاب شافعی کا موقف ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے:ح 3058
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3082
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1815
´لبیک پکارنا کب بند کرے؟` فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ پکارا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1815]
1815. اردو حاشیہ: تلبیہ احرام باندھنے کے وقت سے شروع ہو کر دسویں تاریخ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک ہی ہے جیسے کہ صحیحین کی روایت میں ہے: آپﷺ تلبیہ کہتے رہے حتی کہ جمرہ کے پاس پہنچ گئے۔ (صحیح البخاری الحج حدیث:1543 1544 و صحیح مسلم الحج حدیث:1281]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1815
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3060
´کنکریاں کہاں سے چنی جائیں؟` فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے جس وقت وہ عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح کو چلے تو اپنی اونٹنی کو روک کر فرمایا: ”تم لوگ سکون و وقار کو لازم پکڑو“ یہاں تک کہ جب آپ منیٰ میں داخل ہوئے تو جس وقت اترے وادی محسر میں اترے، اور آپ نے فرمایا: ”چھوٹی کنکریوں کو جسے چٹکی میں رکھ کر تم مار سکو لازم پکڑو“، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، جیسے آدمی کنکری کو چٹکی میں رکھ کر مارتا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3060]
اردو حاشہ: ”خذف“ کے مختلف طریقے بیان کیے گئے ہیں مگر مسنون اور سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھے اور تشہد والی انگلی کے سروں کے ساتھ کنکری پکڑ کر رمی کی جائے، تاہم رش کی وجہ سے موجودہ دور میں اس طریقے پر عمل کرنا بھی مشکل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3060
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3060
´کنکریاں کہاں سے چنی جائیں؟` فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے جس وقت وہ عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح کو چلے تو اپنی اونٹنی کو روک کر فرمایا: ”تم لوگ سکون و وقار کو لازم پکڑو“ یہاں تک کہ جب آپ منیٰ میں داخل ہوئے تو جس وقت اترے وادی محسر میں اترے، اور آپ نے فرمایا: ”چھوٹی کنکریوں کو جسے چٹکی میں رکھ کر تم مار سکو لازم پکڑو“، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، جیسے آدمی کنکری کو چٹکی میں رکھ کر مارتا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3060]
اردو حاشہ: ”خذف“ کے مختلف طریقے بیان کیے گئے ہیں مگر مسنون اور سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھے اور تشہد والی انگلی کے سروں کے ساتھ کنکری پکڑ کر رمی کی جائے، تاہم رش کی وجہ سے موجودہ دور میں اس طریقے پر عمل کرنا بھی مشکل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3060
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3081
´ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس اپنے بھائی فضل بن عباس (رضی الله عنہم) سے روایت کرتے ہیں، فضل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا آپ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ آپ اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3081]
اردو حاشہ: جب قول وفعل دونوں مل جائیں تو اثر انگیزی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے، اس لیے شریعت نے تقریباً تمام عبادات میں فعل کے ساتھ ساتھ قول کو بھی لازم رکھا ہے۔ حج میں بھی احرام کے ساتھ لبیک کہنا، طواف میں ذکر و دعا کرنا، رمی کے ساتھ تکبیرات کہنا وغیرہ اسی اصول کی بنا پر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3081
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 918
´حج میں تلبیہ پکارنا کب بند کیا جائے؟` فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپنا ردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کر لے گئے) آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 918]
اردو حاشہ: 1؎: ان لوگوں کا استدلال ((حَتَّى يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ)) سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کر لینے کے بعد تلبیہ پکارنا بند کرے، لیکن جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جمرہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کر دینا چاہئے، ان کی دلیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت ہے جس میں ((لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى بَلَغَ الْجَمْرَةَ)) کے الفاظ وارد ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 918
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:467
467- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما مزدلفہ سے روانہ ہوتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کی رمی کرلی۔ وہ بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنتا رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کی رمی کرلی (تو تلبیہ پڑھنا موقوف کیا)۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:467]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ سے لے کر کنکر مارنے تک تلبیہ کہتے رہنا چاہیے، ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ ایک سواری پر سوار ہوسکتا ہے، آخری وقوف وقوفِ مزدلفہ ہوگا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 467
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3089
حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح، چلتے وقت لوگوں سے فرمایا: ”سکینت و سکون کو لازم پکڑو“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو (تیز چلنے سے) روکے ہوئے تھے، حتیٰ کہ وادی محسر میں داخل ہو گئے، جو منیٰ کا حصہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکنے والی کنکریاں، جمرہ مارنے کے لیے اٹھا لو۔“ اور آپ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3089]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین۔ تابعین رحمۃ اللہ علیہم۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جمرہ عقبہ کی رمی شروع کرتے وقت تلبیہ کہنا بند کر دیا جائے گا لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے تلبیہ رمی جمرہ عقبہ ختم کرتے وقت ختم کیا جائے گا۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ۔ بعض شوافع اورمحدثین کا موقف یہی ہے۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ۔ امام لیث رحمۃ اللہ علیہ۔ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد تلبیہ کہنا بند کر دیا جائے گا معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کاعلم نہ ہو سکا، جس سے معلوم ہوتا ہے بعض دفعہ قریب تر ین ساتھیوں سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اوجھل رہ جاتا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، ازواج مطہرات میں سے ہیں اور سعد وعلی رضوان اللہ عنھم اجمعین عشرہ مبشرہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے حجت ودلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے کسی جلیل القدر صحابی یا امام کا طرز عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت نہیں بن سکتا۔