ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے خواہش ہوئی کہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرتی جس طرح سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت طلب کی تھی۔ اور لوگوں کے آنے سے پہلے میں بھی منیٰ میں نماز فجر پڑھتی، سودہ رضی اللہ عنہا بھاری بدن کی سست رفتار عورت تھیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (پہلے ہی لوٹ جانے کی) اجازت مانگی۔ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی، تو انہوں نے فجر منیٰ میں پڑھی، اور لوگوں کے پہنچنے سے پہلے رمی کر لی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3052]
استأذنت النبي سودة أن تدفع قبل حطمة الناس وكانت امرأة بطيئة فأذن لها فدفعت قبل حطمة الناس وأقمنا حتى أصبحنا نحن ثم دفعنا بدفعه فلأن أكون استأذنت رسول الله كما استأذنت سودة أحب إلي من مفروح به
وددت أني استأذنت رسول الله كما استأذنته سودة فصليت الفجر بمنى قبل أن يأتي الناس وكانت سودة امرأة ثقيلة ثبطة فاستأذنت رسول الله فأذن لها فصلت الفجر بمنى ورمت قبل أن يأتي الناس
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3052
اردو حاشہ: اگرچہ ہر معذور شخص کو حاصل ہے کیونکہ شریعت کسی مخصوص دور یا اشخاص کے لیے نہیں، مگر حضرت عائشہؓ نے مناسب سمجھا کہ جس طرح رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا تھا، ساری عمر اسی طرح کرتی رہیں، خواہ اس میں مشقت اور تکلیف بھی ہو۔ یہ ان کی رسول اللہﷺ سے محبت کا عظیم ثبوت ہے، لیکن معذور شخص رخصت پر عمل کر سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3052
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 621
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے واپس آ جائیں (یہ اجازت انہوں نے اس لئے طلب کی) کہ بھاری جسم والی تھیں۔ (اس وجہ سے آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلتی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 621]
621 فائدہ: بیماری اور جسمانی کمزوری کے علاوہ بھاری بھر کم جسم بھی معذوری میں شامل ہے۔ ایسے حاجی کو بھی مزدلفہ میں پوری رات گزارے بغیر منیٰ کی طرف جانے کی رخصت و اجازت ہے۔
وضاحت: حضرت سودہ بنت زمعہ بن عبد شمس قرشیہ عامریہ رضی اللہ عنہا، امہات المؤمنین میں سے ہیں۔ مکہ مکرمہ ہی میں ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا اور اپنے خاوند کے ساتھ دوسری ہجرت میں شریک ہوئیں۔ ان کا خاوند وہاں فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے پہلے مکہ میں ان کے ساتھ وظیفہء زوجیت ادا کیا اور 55 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 621
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 623
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو قربانی والی رات پہلے بھیج دیا تھا۔ انہوں نے فجر کے طلوع ہونے سے پہلے کنکریاں ماریں پھر جا کر طواف افاضہ کیا۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 623]
623 فوائد و مسائل: ➊ فجر سے پہلے رمی کی یہ رعایت صرف عورتوں کے لیے اور ان کمزوروں کے لیے ہے جو ان کے ہمراہ جائیں۔ ➋ مذکورہ حدیث سے یہ دلیل پکڑنا صحیح نہیں کہ اس وقت ان مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی کنکریاں مارنا جائز ہے۔ ➌ یہ حدیث پہلی حدیث سے سند کے اعتبار سے راجح ہے، اس لیے دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 623
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3040
´عورتوں کے لیے مزدلفہ سے صبح ہونے سے پہلے واپسی کی رخصت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو مزدلفہ سے فجر ہونے سے پہلے لوٹ جانے کی اجازت دی، اس لیے کہ وہ ایک بھاری بدن کی سست رفتار عورت تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3040]
اردو حاشہ: حضرت سودہؓ وہ پہلی معزز خاتون تھیں جن سے رسول اللہﷺ نے اپنی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد نکاح کیا۔ وہ لمبے قد کاٹھ کی عورت تھیں لیکن حجۃ الوداع کے موقع پر وہ کبر سنی کی وجہ سے بوجھل ہو چکی تھیں اور تیز نہ چل سکتی تھیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے انھیں چند دیگر خواتین اور بچوں کے ساتھ مزدلفہ سے جلدی چل پڑنے کی اجازت دے دی تھی تاکہ وہ بروقت پہنچ سکیں، البتہ انھیں یہ تاکید فرما دی تھی کہ طلوع شمس سے پہلے رمی نہ کریں۔ اس قسم کے ضعیف حضرات کے لیے یہ رخصت اب بھی برقرار رہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3040
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3068
´عورتوں کو سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں مارنے کی رخصت ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کو حکم دیا کہ وہ مزدلفہ کی رات ہی میں مزدلفہ سے کوچ کر جائیں، اور جمرہ عقبہ کے پاس آ کر اس کی رمی کر لیں، اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر صبح کریں۔ اور عطا اپنی وفات تک ایسے ہی کرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3068]
اردو حاشہ: امام نسائی رحمہ اللہ مختلف روایات میں تطبیق دینا چاہتے ہیں۔ بہت سی روایات میں صراحتاً حکم ہے کہ طلوع شمس سے قبل رمی نہ کی جائے اس روایت میں آپ نے اجازت دی ہے۔ گویا عورتوں کو طلوع شمس سے قبل رمی کی اجازت ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ بعض نے صرف آپ کی زوجہ محترمہ کے لیے خصوصی اجازت کا قول ذکر کیا ہے۔ جو علماء طلوع شمس سے قبل بھی رمی کے قائل ہیں ان کی مضبوط ترین ایک دلیل حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی ہے، جس میں ان کے چاند غروب ہونے کے بعد جلد نکلنے کا ذکر ہے۔ نماز فجر سے قبل انھوں نے رمی کی اور پھر فجر کی نماز پڑھی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1679) لیکن بعض محققین کے نزدیک یہ دلیل محل نظر ہے کیونکہ یہ عمل ان کی ذاتی رائے یا اجتہاد کے پیش نظر تھا۔ حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ رمی بھی رسول اللہﷺ کی اجازت ہی سے کی گئی تھی، لہٰذا رسول اللہﷺ کا طلوع شمس سے قبل ہر کسی کو رمی کرنے سے روکنا، پھر یہ کہ آپ کا عمل بھی یہی تھا کہ آپ نے رمی طلوع شمس کے بعد ہی کی، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رمی طلوع شمس کے بعد ہی کرنی چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک بجائے ترجیح کے تطبیق زیادہ مناسب ہے۔ ان کے نزدیک طلوع شمس کے بعد رمی، مستحب اور اس سے قبل جائز ہے۔ وہ حدیث میں وارد نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: 3/ 528، 529، وذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 26/ 41-45)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3068
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3118
حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت سودہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے مزدلفہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور لوگوں کے دھکم پیل سے پہلے (منیٰ) چلی جائیں، کیونکہ وہ بھاری بھر کم عورت تھیں، (قاسم نے ثَبِطَة [صحيح مسلم، حديث نمبر:3118]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ احمد رحمۃ اللہ علیہ۔ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کے نزدیک مزدلفہ میں ٹھہرنا واجب ہے، یعنی اگر رہ جائے تو ایک جانور کی قربانی ضروری ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ سنت ہے اس لیے رہ جائے تو قربانی ضروری نہیں ہے علقمہ۔ نخعی۔ شعبی اور ابن خذیمہ کے نزدیک یہ حج کارکن ہے۔ اس کے بغیر حج نہیں ہوگا یہ وقوف مشعر حرام کے پاس بہتر ہے اور وادی محسر کے سوا وقوف مزدلفہ کے پورے میدان میں ہو سکتا ہے بہتر ہے قیام پوری رات کیا جائے اورصبح کی نماز کے بعد جب خوب روشنی پھیل جائے تو سورج نکلنے سے پہلے منی کو روانہ ہو جائے۔ البتہ عورتوں بچوں اور بوڑھے مردوں کے لیے صبح کی نماز سے پہلے رات کا تہائی حصہ گزرنے کے بعد روانگی کی اجازت ہے۔ باقی افراد کے لیے کتنی دیر ٹھہرنا واجب ہے اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک آ دھی رات تک ٹھہرنا واجب ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کچھ وقت ٹھہرنا واجب اگرمزدلفہ میں رات کو گزارا، لیکن وقوف نہ کیا تو اس پر دم ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج5 ص285۔ )(فتح الربانی کے مصنف نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وقوف کو سنت قرار دیا ہے) اور صاحب ہدایہ نے وقوف مزدلفہ کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رکن قرار دیا ہے اس طرح ائمہ کے مسالک نقل کرنے میں مصنفین کے درمیان اختلاف موجود ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3118
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1681
1681. حضرت عائشہ ؓ سے ہی روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم مزدلفہ میں اترے تو حضرت سودہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اجازت مانگی کہ وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے منیٰ روانہ ہوجائیں کیونکہ وہ ذرا سست رفتار تھیں۔ آپ ﷺ نے انھیں اجازت دے دی، چنانچہ وہ لوگوں کی بھیڑ سے پہلے ہی نکل کھڑی ہوئیں۔ اور ہم لوگ صبح تک وہیں ٹھہرے رہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ واپس ہوئے۔ کاش! میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی ہوتی جیسا کہ حضرت سودہ ؓ نے لی تھی تو یہ میرے لیے زیادہ محبوب اور بہت بڑی خوشی کی بات تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1681]
حدیث حاشیہ: (1) کمزور لوگوں سے مراد بچے،عورتیں، بوڑھے اور بیمار افراد ہیں۔ ان کے لیے اجازت ہے کہ جب چاند غروب ہو جائے تو وہ منیٰ آ جائیں تاکہ ہجوم کی زحمت سے محفوظ رہیں اور طلوع شمس سے پہلے پہلے رمی کر لیں جیسا کہ حضرت اسماء ؓ کے عمل سے واضح ہوتا ہے۔ انہیں رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی تھی جیسا کہ ان کا اپنا بیان ہے۔ (2) بہرحال دسویں کی رات مزدلفہ میں گزارنا ضروری ہے، البتہ بچوں، عورتوں اور کمزور لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ تھوڑی دیر مزدلفہ میں قیام کر کے منیٰ روانہ ہو جائیں اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جائیں۔ اگرچہ بعض حضرات کا موقف ہے کہ ایسے ناتواں لوگ بھی طلوع آفتاب کے بعد کنکریاں ماریں، تاہم حضرت اسماء ؓ کی روایت میں صراحت کے ساتھ اجازت موجود ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا تھا کہ تم ہمارے کمزور افراد اور عورتوں کے ہمراہ جاؤ او نماز صبح منیٰ میں پڑھو، پھر لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جاؤ، نیز حضرت عائشہ ؓ نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش! میں نماز فجر منیٰ میں پڑھتی اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے پہلے رمی کر لیتی۔ (فتح الباري: 668/3،669)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1681