عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے ہاتھ میں ڈھال کی طرح کوئی چیز تھی، تو آپ نے اسے رکھا، پھر اس کے پیچھے بیٹھے، اور اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کیا، اس پر لوگوں نے کہا: ان کو دیکھو! یہ عورت کی طرح پیشاب کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ”کیا تمہیں اس چیز کی خبر نہیں جو بنی اسرائیل کے ایک شخص کو پیش آئی، انہیں جب پیشاب میں سے کچھ لگ جاتا تو اسے قینچی سے کاٹ ڈالتے تھے، تو ان کے ایک شخص نے انہیں (ایسا کرنے سے) روکا، چنانچہ اس کی وجہ سے وہ اپنی قبر میں عذاب دیا گیا“۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 30]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة 11 (22)، سنن ابن ماجہ/فیہ 26 (346)، (تحفة الأشراف: 9693)، مسند احمد 4/196 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (22) ابن ماجه (346) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 321
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 30
30۔ اردو حاشیہ: ➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری میں اسی مفہوم کی ایک روایت اس کی شاہد ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت موقوفاً صحیح ہے، البتہ موصولاً صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے۔ بہرحال مذکورہ بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت صحیح، قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ ”جیسے عورت پیشاب کرتی ہے“ یہ تشبیہ بیٹھ کر پیشاب کرنے میں ہو سکتی ہے اور پردے میں بھی۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ یہ الفاظ کہنے والا شخص آپ کا تربیت یافتہ نہ ہو گا بلکہ کوئی غیرمسلم ہو گا یا منافق یا نو مسلم کیونکہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ یہ بات کہنے والا مسلمان تھا بلکہ بعض احادیث سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ نے آپس میں کی تھی۔ دیکھیے: [فتح الباري: 328/1] اور اس کا مقصد قطعاً آپ کی تحقیر یا نعوذ باللہ آپ کی ہتک نہ تھی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، صحیح بات یہ ہے کہ بول و براز کے آداب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائے ہیں۔ اسلام نے ان آداب کو خوب بیان کیا ہے، جبکہ زمانۂ جاہلیت میں ان آداب قضائے حاجت کی چنداں پروا نہ تھی۔ اوٹ اور پردے کا بھی اہتمام نہ کرتے تھے۔ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کے سامنے ہی پیشاب کر لیتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے تو شروع شروع میں آپ کو اس انداز میں پیشاب کرتے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور تعجب سے یہ بات کہی کہ ایسے تو عورت پیشاب کرتی ہے۔ مرد تو مرد ہی ہوتے ہیں۔ انہیں اس اوٹ اور پھر بیٹھ کر پیشاب کرنے کی کیا ضرورت؟ بہرحال بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اسلامی تربیت فرمائی تو جاہلیت کے یہ تمام طور طریقے اور عادات ختم ہو گئیں۔ ➌ ”قینچی سے کاٹتے“۔ اس سے مراد کپڑا ہے جسے پیشاب لگ جاتا تھا نہ کہ جسم کیونکہ یہ تکلیف ما لا یطاق ہے، یعنی ناقابل عمل چیز ہے ورنہ بول و براز تو نکلتے ہی جسم سے ہیں اور لامحالہ جسم کو لگتے ہیں، تبھی استنجا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بابت مزید تحقیق کچھ اس طرح سے ہے کہ ابوداود کی ایک روایت میں «جلد» چمڑے کے الفاظ ہیں اور ابوداود ہی کی ایک دوسری روایت میں «جسد» جسم کا ذکر ہے۔ جسد کے لفظ کو البانی رحمہ اللہ نے منکر قرار دیا ہے اور جلد سے مراد چمڑے کا لباس ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس طرح کاٹی جانے والی چیز جسم کا حصہ نہیں بلکہ لباس (کپڑا یا چمڑا) ہوتا تھا جسے پیشاب لگ جاتا تھا۔ صحیح بخاری کی روایت سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں: «إذا أصاب توب أحدھم، قرصہ»”جب ان میں سے کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ اسے کاٹ دیتے۔“[صحیح البخاري، حدیث: 226]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 30
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 22
´پیشاب سے پاکی کا بیان` «. . . أَلَمْ تَعْلَمُوا مَا لَقِيَ صَاحِبُ بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ كَانُوا إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَوْلُ قَطَعُوا مَا أَصَابَهُ الْبَوْلُ مِنْهُمْ، فَنَهَاهُمْ، فَعُذِّبَ فِي قَبْرِهِ . . .» ”. . . کیا تمہیں اس چیز کا علم نہیں جس سے بنی اسرائیل کا ایک شخص دوچار ہوا؟ ان میں سے جب کسی شخص کو (اس کے جسم کے کسی حصہ میں) پیشاب لگ جاتا تو وہ اس جگہ کو کاٹ ڈالتا جہاں پیشاب لگ جاتا، اس شخص نے انہیں اس سے روکا تو اسے اس کی قبر میں عذاب دیا گیا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 22]
فوائد و مسائل: «قطعوا ما أصابهم البول»” جس کو پیشاب لگتا تھا، اسے کاٹ دیتے تھے۔“ اس میں ابہام ہے کہ کس چیز کو کاٹتے تھے؟ ابوداؤد کی دوسری روایات میں سے ایک میں «جلد»”چمڑے“ کا اور دوسری میں «جسد»”جسم“ کا ذکر ہے۔ جس کے لفظ کو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف ابی داؤد میں منکر کہا ہے اور «جلد» سے مراد چمڑے کا لباس مراد لیا گیا ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس طرح کاٹے جانے والی چیز جسم کا حصہ نہیں بلکہ لباس (کپڑا یا چمڑا) ہوتا تھا جسے پیشاب لگ جاتا تھا، صحیح بخاری کی روایت سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے جس کے الفاظ ہیں: «اذا اصاب ثوب احدهم قرضه»[بخاري، الوضوء، حديث: 226]” جب ان میں سے کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا، تو وہ اسے کاٹ دیتا تھا۔“
اس سے حسب ذیل باتیں مستفاد ہوتی ہیں: ➊ اسلام ہمیشہ سے طہارت و پاکیزگی کا داعی رہا ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ احکام انتہائی سخت تھے۔ جس بدبخت نے لوگوں کو اس امر شرعی کی مخالفت پر ابھارا تھا، اسے قبر میں عذاب دیا گیا۔ ➋ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روکنا، اس میں تحریف کرنا یا تاویل باطل سے اسے مہمل قرار دینا حرام اور شقاوت (بدبختی) کا کام ہے اور ایسا شخص عذاب الہٰی کا مستحق ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 22
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث346
´پیشاب کی چھینٹ سے نہ بچنے پر وارد وعید کا بیان۔` عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک ڈھال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھا اور اس کی آڑ میں بیٹھ کر پیشاب کیا، کچھ لوگوں نے (بطور استہزاء) کہا کہ انہیں دیکھو ایسے پیشاب کرتے ہیں جیسے عورت پیشاب کرتی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا اور فرمایا: ”افسوس ہے تم پر، بنی اسرائیل کے ایک شخص کو جو مصیبت پہنچی، تمہیں اس کی خبر نہیں؟ ان کے کپڑوں میں پیشاب لگ جاتا تو اسے قینچی سے کاٹتے تھے، ایک شخص نے انہیں اس عمل سے روک دیا، تو اسے اس کی قبر میں عذاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 346]
اردو حاشہ: (1) کھلی جگہ پیشاب کرتے ہوئے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ پردہ درخت دیوار وغیرہ سے بھی ہوسکتا ہے اور اپنے پاس موجود کسی چیز سے بھی کیا جاسکتا ہے جیسے آپ ﷺ نے ڈھال کو پردے کے طور پر استعمال فرمایا۔
(2) بے پردگی اور بے حیائی غیر مسلموں کی عادت ہے۔ وہ مسلمانوں کی شرم وحیا اور عفت پر طعنہ زنی کرتے ہیں تاکہ مسلمان بھی ان کی سی عادت واطوار اختیار کرلیں۔ لیکن سچے مسلمان کو ان کے طعنوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان پر واضح کرنا چاہیے کہ تمھارا رسم ورواج اور تمھارے طریقے غلط اور قابل ترک ہیں (3) یہود و نصاری میں بھی اصل شریعی حکم شرم وحیا، پردہ اور طہارت و پاکیزگی کے اہتمام کا ہے۔ موجودہ تہذیب کے مظاہر خود ان کی شریعت اور ان کے انبیائے کرام علیہ السلام کی سیرت کے خلاف ہیں۔
(4) گناہ کی طرف دعوت دینا یا نیکی اور اچھائی سے منع کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ جس کی سزا قیامت سے پہلے قبر میں بھی مل سکتی ہے۔
(5) اس سے عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے۔
(6)(إِذَا أَصَابَهُمْ الْبَوْلُ قَرَضُوهُ بِالْمَقَارِيضِ) جب ان کو پیشاب لگ جاتا تو قینچیوں سے کاٹ دیا کرتے تھے اس میں ابہام ہے کہ کس چیز کو کاٹتے تھے؟ ابوداؤد کی ایک روایت میں (جلد) چمڑے کے الفاظ ہیں اور ابوداؤد ہی کی ایک دوسری روایت میں (جسد) جسم کا ذکر ہے۔ جسد کے لفظ کو شیخ البانی ؒ نے منکر کہا ہےاور جلد سے مراد چمڑے کا لباس لیا ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس طرح کاٹی جانی والی چیز جسم کا حصہ نہیں بلکہ لباس (کپڑا یا چمڑا) ہوتا تھا جسے پیشاب لگ جاتا تھا، صحیح بخاری کی روایت سے بھی اسی باب کی تائید ہوتی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں: (إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ اَحَدِهِم قَرَضَهُ)(صحيح البخاري، حديث: 226) جب ان میں سے کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ اسے کاٹ دیتا تھا-
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 346
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:906
906- سیدنا عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر پیشاب کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کے ذریعے پردہ کیا ہو اتھا کچھ لوگوں نے کہا: یہ صاحب اس طرح پیشاب کررہے ہیں، جس طرح کوئی عورت پیشاب کرتی ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کا یہ حال تھا کہ جب (ان کے کپڑے پر) پیشاب لگ جاتا تھا، تو وہ قینچی کے ذریعے اسے کاٹ دیتے تھے، ان کے ایک ساتھی نے انہیں منع کیا، تو اسے اس کی قبر میں عذاب دیا گیا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:906]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب اور پاخانے کے وقت مکمل پردے کا اہتمام کرنا چاہیے، نیز شریعت اسلامی کس قدر آسان شریعت ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے حکم تھا کہ اگر کپڑے وغیرہ کو پیشاب لگ جائے تو انھیں وہ کپڑا کا ٹنا پڑتا تھا، لیکن ہماری شریعت نے اس کو دھونے کا حکم دیا ہے نہ کہ کاٹنے کا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 905