عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب (فتح کے موقع پر) مکہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے لگے: انہیں یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے لاغر و کمزور کر دیا ہے، اور انہیں وہاں شر پہنچا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع دی تو آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اکڑ کر کندھے ہلاتے ہوئے تیز چلیں، اور دونوں رکنوں (یعنی رکن یمانی اور حجر اسود) کے درمیان عام چال چلیں، اور مشرکین اس وقت حطیم کی جانب ہوتے تو انہوں نے (ان کو اکڑ کر کندھے اچکاتے ہوئے تیز چلتے ہوئے دیکھ کر) کہا: یہ تو یہاں سے بھی زیادہ مضبوط اور قوی ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2948]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2948
اردو حاشہ: (1) تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: 2943۔ اس وقت تو رمل کی یہی وجہ تھی، بعد میں اللہ تعالیٰ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ ادا پسند آگئی تو اسے مستقلاً حج اور عمرے کے طواف میں داخل کر دیا۔ (2) رمل کا یہ انداز اگرچہ فخر اور تکبر کا انداز ہے، اور اللہ تعالیٰ کو فخر و تکبر پسند نہیں، لیکن کفار کے مقابلے میں میدان جنگ میں اکڑ کر چلنے والا مسلمان اللہ تعالیٰ کو بہت پیارا لگتا ہے۔ رمل بھی کافروں کو دکھانے بلکہ ڈرانے کے لیے تھا، لہٰذا اس میں بھی اکڑ کر چلنا اللہ تعالیٰ کو پسند آیا۔ بعد میں یہ سنت جاری ہوگئی جس طرح صفا مروہ کے درمیان سعی اور منیٰ میں قربانی بھی حضرت حاجرہ اور حضرت ابراہیم رحمہم اللہ کی یادگار ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں اور حج اور عمرے کا حصہ بنا دی گئیں۔ (3) دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہونے کے لیے اہل اسلام کو بھرپور تیار رکھنی چاہیے اور ہر میدان میں ترقی کی اعلیٰ ترین منازل حاصل کرنی چاہئیں، وہ تعلیم کا میدان ہو یا جدید ٹیکنالوجی اور جدید اسلحے کا۔ اپنے دفاع کے لیے جسمانی تربیت اور جنگی مشقیں کرتے رہنا چاہیے اور دشمن کو مرعوب رکھنے کے لیے ان صلاحیتوں کا گاہے گاہے اظہار کرتے رہنا بھی ضروری ہے تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے رہے اور وہ کوئی حماقت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2948
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1886
´طواف میں رمل کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے اور لوگوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور کر دیا تھا، تو مشرکین نے کہا: تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں بخار نے ضعیف بنا دیا ہے، اور انہیں بڑی تباہی اٹھانی پڑی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس گفتگو سے مطلع کر دیا، تو آپ نے حکم دیا کہ لوگ (طواف کعبہ کے) پہلے تین پھیروں میں رمل کریں اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں، تو جب مشرکین نے انہیں رمل کرتے دیکھا تو کہنے لگے: یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم لوگوں نے یہ کہا تھا کہ انہیں بخار نے کمزور کر دیا ہے، یہ لوگ تو ہم لوگوں سے زیادہ تندرست ہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمام پھیروں میں رمل نہ کرنے کا حکم صرف ان پر نرمی اور شفقت کی وجہ سے دیا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1886]
1886. اردو حاشیہ: کفر وکفار کو زیر رکھنے اور ان پرمسلمانوں کارعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے لئے مختلف مناسب مواقع پراپنے شباب وقوت کا اظہار ومظاہرہ کرنا شرعا مطلوب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1886
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 613
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان چار چکر عام معمول کے مطابق چل کر لگائیں۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/حدیث: 613]
613 لغوی تشریح: «اَمَرهمْ» سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ 7 ہجری میں عمرۃ القضاء کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حکم فرمایا تھا۔ «ان يرملوا»”میم“ پر ضمہ ہے۔ دوڑتے ہوئے۔ «اشواط» «شوط» کی جمع ہے۔ جس کے معنی ہیں چکر لگانا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 613
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2982
´صفا و مروہ کے درمیان سعی کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تاکہ مشرکین کو اپنی قوت دکھا سکیں (تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم مدینے جا کر کمزور و لاغر ہو گئے ہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2982]
اردو حاشہ: یہ تفصیل طواف کے بیان میں گزر چکی ہے کہ ابتداء طواف وسعی میں بھاگنا مشرکین کے سامنے اظہارِ قوت کے لیے تھا مگر بعد میں اللہ تعالیٰ کو مومنین کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اسے مستقلاً طواف کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ نے حجۃ الوداع میں بھی دوڑ کر چکر لگائے، حالانکہ اس وقت کوئی مشرک موجود نہیں تھا، لہٰذا صفا اور مروہ کے درمیان نشیبی جگہ میں دوڑنا سنت ہے لیکن رہ جانے کی صورت میں قضا نہیں ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2982
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1602
1602. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب مکہ تشریف لائے تو مشرکین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تمھارے پاس ایک ایسا وفد آیا ہے جسے یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزورکردیا ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز تیز اور اکڑ کر چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان معمول کی چال چلیں۔ آپ کو یہ حکم دینےمیں کہ وہ سات چکروں میں اکڑ کر چلیں لوگوں پر آسانی کے علاوہ کوئی امر مانع نہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1602]
حدیث حاشیہ: رمل کا سبب حدیث بالا میں خود ذکر ہے۔ مشرکین نے سمجھا تھا کہ مسلمان مدینہ کی مرطوب آب و ہوا سے بالکل کمزور ہو چکے ہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں ذرا اکڑ کر تیز چال چلیں، مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے تاکہ کفار مکہ دیکھیں اور اپنے غلط خیال کو واپس لے لیں۔ بعد میں یہ عمل بطور سنت رسول جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ اب یادگار کے طورپر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ یاد رہے۔ اس وقت کفار مکہ دونوں شامی رکنوں کی طرف جمع ہوا کرتے تھے، اس لیے اسی حصہ میں رمل سنت قرار پایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1602
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1649
1649. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا دوران طواف میں تیز چلنا اور صفا ومروہ کی سعی میں دوڑنا اس لیے تھا کہ مشرکین کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔ حمیدی نے بھی اس طریق سے اسی طرح روایت بیان کی ہے، تاہم انھوں نے سفیان کی عمرو سے عطاء سے سماعت کی صراحت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1649]
حدیث حاشیہ: حجرا سود کو چومنے یا چھونے کے بعد طواف کرنا چاہیے۔ طواف کیا ہے؟اپنے آپ کو محبوب پر فدا کرنا، قربان کرنا اور پروانہ وار گھوم کر اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا۔ طواف کی فضیلت میں حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں۔ أن النبي صلی اللہ علیه وسلم قال «مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَلَا يَتَكَلَّمُ، إِلَّا بِسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ، إِلَّا بِاللَّهِ، مُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ بِهَا عَشَرَةُ دَرَجَاتٍ، وَمَنْ طَافَ، فَتَكَلَّمَ وَهُوَ فِي تِلْكَ الْحَالِ، خَاضَ فِي الرَّحْمَةِ بِرِجْلَيْهِ، كَخَائِضِ الْمَاءِ بِرِجْلَيْهِ» رواہ ابن ماجة۔ یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایاجس نے بیت اللہ شریف کا سات مرتبہ طواف کیا اور سوائے تسبیح و تحمید کے کوئی فضول کلام اپنی زبان سے نہ نکالا۔ اس کے دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند ہوتے ہیں اور اگر کسی نے حالت طواف میں تسبیح وتحمید کے ساتھ لوگوں سے کچھ کلام بھی کیا وہ رحمت الٰہی میں اپنے دونوں پیروں تک داخل ہوجاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے پیروں تک پانی میں داخل ہوجائے۔ ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ سوائے تسبیح وتحمید کے اور کچھ کلام نہ کرنے والا اللہ کی رحمت میں اپنے قدموں سے سرتک داخل ہوجاتا ہے اور کلام کرنے والا صرف پیروں تک۔ طواف کی ترکیب یہ ہے کہ حجر اسود کو چومنے کے بعد بیت اللہ شریف کو بائیں ہاتھ کرکے رکن یمانی تک ذرا تیز تیزاس طرح چلیں کہ قدم قریب قریب پڑیں اور کندھے ہلیں۔ اسی اثناء میں سبحان اللہ والحمداللہ ولا إله إلااللہ واللہ أکبر ولا حول ولا قوة إلا باللہ! ان مبارک کلمات کو پڑھتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کی شان کا کامل دھیان رکھے۔ اس کی توحید کو پورے طورپر دل میں جگہ دے۔ اس پر پورے پورے توکل کا اظہار کرے۔ ساتھ ہی یہ دعا بھی پڑھے۔ اللَّهُمَّ قَنِّعْنِي بِمَا رَزَقْتَنِي وَبَارِكْ لِي فِيهِ وَاخْلُفْ عَلَيَّ كُلَّ غَائِبَةٍ لِي بِخَيْرٍ (نیل الأوطار) ترجمہ: الٰہی مجھ کو جوکچھ تو نے نصیب کیا اس پر قناعت کرنے کی توفیق عطا کر اور اس میں بھی برکت دے! اور میرے اہل وعیال ومال اورمیری ہرپوشیدہ چیز کی تو خیریت کے ساتھ حفاظت فرما۔ اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الشَّكِّ وَالشِّرْكِ وَالنِّفَاقِ وَالشِّقَاقِ وَسُوءِ الْأَخْلَاقِ.(نیل) الٰہی میں شرک سے، دین میں شک کرنے سے اور نفاق و دو غلے پن اور نافرمانی اور تمام بری عادتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تسبیح وتحمید پڑھتا ہوا اور ان دعاؤں کو بار بار دہراتا ہوا رکن یمانی پر دلکی چال سے چلے۔ رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوبی کونے کا نام ہے جس کو صرف چھونا چاہیے، بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کونے پرستر فرشتے مقر رہیں۔ جب طواف کرنے والا حجر اسود سے ملتزم رکن عراقی اور میزاب رحمت پر سے ہوتا ہوا یہاں پہنچ کر دین ودنیا کی بھلائی کے لئے بارگاہ الٰہی میں خلوص دل کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو یہ فرشتے آمین کہتے ہیں۔ رکن یمانی پر زیادہ تر یہ دعا پڑھنی چاہئے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (مشکوة) یعنی یا اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں سلامتی چاہتا ہوں، اے معبود برحق! تو مجھ کو دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں عطا فرمااور دوزخ کی آگ سے ہم کو بچالے۔ رمل فقط تین چکروں میں کرنا چاہئے۔ رمل كا یہ مطلب ہے کہ تین پہلے پھیروں میں ذرا اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے چلا جائے۔ یہ رمل حجر اسود سے طواف شروع کرتے ہوئے رکن یمانی تک ہوتا ہے۔ رکن یمانی پر رمل کو موقوف کیا جائے اور حجر اسود تک باقی حصہ میں نیز باقی چار شوطوں میں معمولی چال چلا جائے۔ اس طوف میں اضطباع بھی کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں شانے پر ڈال لیا جائے۔ ایک چکر پورا کر کے جب واپس حجراسود آؤ تو حجرا سود کی دعا پڑھ کر اس کو چوما یا ہاتھ لگایا جائے۔ اب ایک چکر پورا ہوا۔ اسی طرح دورسرا اور تیسرا پھیرا کرے۔ ان تین پھیروں میں رمل کرے۔ اس کے بعد چار پھیرے بغیر رمل کے کرے۔ ایک طواف کے لئے یہ ساتھ پھیرے ہوتے ہیں۔ جن کے بعد بیت اللہ کا ایک طواف پورا ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف مثل نماز کے ہے۔ اس میں باتیں کرنی منع ہیں۔ خدا کا ذکر جتنا چاہے کرے۔ ایک طواف پورا کرچکنے کے بعد مقام ابراہیم پر طواف کی دو رکعت نماز پڑھے۔ اس پہلے طواف کا نام طواف قدوم ہے۔ رمل اور اضطباع اس کے سوا اور کسی طواف میں نہ کرنا چاہئے۔ مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھنے کے لئے آتے ہوئے مقام ابراہیم کو اپنے اور کعبہ شریف کے درمیان کرکے یہ آیت پڑھے: ﴿واتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبرَاهیمَ مُصَلیًّ﴾(البقرة: 125) پھر دورکعت دوگانہ پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون اور دوسری میں سورہ اخلاص پڑھے۔ اگر اضطباع کیا ہوا ہے اس کو کھول دے۔ سلام پھیر کر مندرجہ ذیل دعا نہایت انکساری سے پڑھے اور خلوص دل سے اپنے اور دوسروں کے لئے دعائیں مانگے۔ دعا یہ ہے: اللهم إنك تعلم سري وعلانيتي فاقبل معذرتي، وتعلم حاجتي فأعطني سؤلي، وتعلم ما في نفسي فاغفر لي ذنوبي، اللهم إني أسألك إيمانا يباشر قلبي ويقينا صادقا حتى أعلم أنه لا يصيبني إلا ما كتبت لي والرضا بما قسمت لي يا أَرحمَ الراحِمینَ۔ (طبرانی)(ترجمہ) یا اللہ!تو میری ظاہر وپوشیدہ حالت سے واقف ہے۔ پس میرے عذروں کو قبول فرما لے۔ تو میری حاجتوں سے بھی واقف ہے پس میرے سوال کو پورا کردے۔ تو میرے نفس کی حالت جانتا ہے پس میرے گناہوں کو بخش دے۔ اے مولا! میں ایساایمان چاہتا ہوں جو میرے دل میں رچ جائے اور یقین صادق کا طلبگارہوں یہاں تک کہ میرے دل میں جم جائے کہ مجھے وہی دکھ پہنچ سکتاہے جو تو لکھ چکا ہے اور میں قسمت کے لکھے پر ہر وقت راضی برضاہوں۔ اے سب سے بڑے مہربان! تو میری دعاقبول فرمالے۔ آمین۔ طواف کی فضیلت میں عمر وبن شعیب اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: الْمَرْء يُرِيد الطّواف بِالْبَيْتِ أقبل يَخُوض الرَّحْمَة فَإِذا دَخلته غمرته ثمَّ لَا يرفع قدماً وَلَا يضع قدماً إِلَّا كتب الله لَهُ بِكُل قدم خَمْسمِائَة حَسَنَة وَحط عَنهُ خَمْسمِائَة سَيِّئَة وَرفعت لَهُ خَمْسمِائَة دَرَجَة۔ الحدیث (درمنثور،ج: 120/1) یعنی انسان جب بیت اللہ شریف کے طواف کا ارادہ کرتا ہے تو رحمت الٰہی میں داخل ہوجاتا ہے پھر طواف شروع کرتے وقت رحمت الٰہی اس کو ڈھانپ لیتی ہے پھر وہ طواف میں جو بھی قدم اٹھا تا ہے اور زمین پر رکھتا ہے ہر ہر قدم کے بدلے اس کو پانچ سونیکیاں ملتی ہیں اور پانچ سو گنا معاف ہوتے ہیں اور اس کے پانچ سو درجے بلند کئے جاتے ہیں۔ جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا: من طَاف بِالْبَيْتِ سبعا وَصلى خلف الْمقَام رَكْعَتَيْنِ وَشرب من مَاء زَمْزَم غفرت لَهُ ذنُوبه كلهَا بَالِغَة مَا بلغت۔ یعنی جس نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نماز ادا کی اور زمزم کا پانی پیا اس کے جتنے بھی گناہوں سب معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (در منثور) مسئلہ: طواف شروع کرتے وقت حاجی اگر مفرد یعنی صرف حج کا احرام باندھ کر آیا ہے تو دل میں طواف قدوم کی نیت کرے اور اگر قارن یا متمتع ہے تو طواف عمرہ کی نیت کر کے طواف شروع کرے۔ یاد رہے کہ نیت دل کا فعل ہے، زبان سے کہنے کی حاجت نہیں ہے۔ بہت سے نا واقف حاجی صاحبان جب شروع میں حجر اسود کو آکر بوسہ دیتے ہیں اور طواف شروع کرتے ہیں تو تکبیرتحریمہ کی طرح تکبیر کہہ کر رفع یدین کرکے زبان سے نیت کرتے ہیں، یہ بے ثبوت ہے لہذا اس سے بچنا چاہئے (زاد المعاد) بیہقی کی روایت میں اس قدر ضرور آیا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دے کر دونوں ہاتھوں کو اس پر رکھ کر پھر ان ہاتھوں کو منہ پر پھیر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ طواف کرنے میں مرد و عورت کا یکساں حکم ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ عورت کسی طواف میں رمل اور اضطباع نہ کرے (جلیل المناسك) حیض اور نفاق والی عورت صرف طواف نہ کرے۔ باقی حج کے تمام کام بجا لائے۔ حضرت عائشہ کو حائضہ ہونے کی حالت میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا۔ فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي۔ (متفق علیه) یعنی طواف بیت اللہ کے سوا اور سب کام کر جو حاجی کرتے ہیں یہاں تک کہ توپاک ہو۔ اگر حالت حیض ونفاس میں طواف کرلیا تو طواف ہوگیا۔ مگر فدیہ میں ایک بکری یا ایک اونٹ ذبح کرنا لازمی ہے۔ (فتح الباري) مستحاضہ عورت اور سلسل بول والے کو طواف کرنا درست ہے (مشکوة) بیت اللہ شریف میں پہنچ کر سوائے عذر حیض ونفاس کے باقی کسی طرح کا اور کیسا ہی عذر کیوں نہ ہو جب تک ہوش وحواس صحیح طور پر قائم ہیں اور راستہ صاف ہے تو محرم کوطواف قدوم اور سعی کرنا ضروری ہے۔ طواف کی قسمیں! طواف چار طرح کا ہوتاہے (1) طواف قدوم جو بیت اللہ شریف میں پہلی دفعہ آتے ہی حجر اسود کو چھونے کے بعد کیا جاتاہے۔ (2) طواف عمرہ جو عمرے کا احرام باندھ کر کیا جاتاہے۔ (3) طواف افاضہ جو دسویں ذی الحجہ کو یوم نحر میں قربانی وغیرہ سے فارغ ہو کر اور احرام کھول کرکیا جاتاہے۔ اس کوطواف زیارت بھی کہتے ہیں۔ (4) طواف وداع جو بیت اللہ شریف سے رخصت ہوتے وقت آخری طواف کیا جاتاہے۔ مسئلہ: بہتر تو یہی ہے کہ ہر سات پھیروں کا جو ایک طواف کہلاتا ہے اس کے بعد مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھی جائے۔ لیکن اگر چند طواف ملا کر آخر میں صرف دو رکعت پڑھ لی جائیں تو بھی کافی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا بھی کیا ہے۔ (إیضاح الحجة) مسئلہ: طواف قدوم، طواف عمرہ، طواف وداع میں ان دورکعتوں کے بعد بھی حجراسود کو بوسہ دینا چاہئے۔ تنبیہ: ائمہ اربعہ اور تمام علمائے سلف وخلف کا متفقہ فیصلہ ہے کہ چومنا چاٹنا چھونا صرف حجر اسود اور رکن یمانی کے لئے ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔ عن ابن عمر قال «لَمْ أَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُ مِنَ البَيْتِ إِلَّا الرُّكْنَيْنِ اليَمَانِيَيْنِ»(متفق علیه) یعنی ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سوائے حجراسود اور رکن یمانی کے بیت اللہ کی کسی اور چیز کو چھوتے ہوئے کبھی بھی نبی کریم ﷺ کو نہیں دیکھا۔ پس استلام صرف ان ہی دو کے لئے ہے۔ ان کے علاوہ مساجد ہوں یا مقابر اولیاء صلحاء ہوں یا حجرات ومغارات رسل ہوں یا اور تاریخی یاد گاریں ہوں کسی کو چومنا چاٹنا چھونا ہرگز ہر گز جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔ جماعت سلف امت ؒ مقام ابراہیم اور احجار مکہ کو بوسہ دینے سے قطعاً منع کیا کرتے تھے۔ پس حاجی صاحبان کو چاہئے کہ حجراسود اور رکن یمانی کے سوا اور کسی جگہ کے ساتھ یہ معاملات بالکل نہ کریں ورنہ نیکی برباد گناہ لازم کی مثال صادق آئے گی۔ بہت سے ناواقف بھائی مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھنے کے بعد مقام ابراہیم کے دروازے کی جالیوں کو پکڑ کر اور کڑوں میں ہاتھ ڈال کردعائیں کرتے ہیں۔ یہ بھی عوام کی ایجاد ہے جس کا سلف سے کوئی ثبوت نہیں۔ پس ایسی بدعات سے بچنا ضروری ہے۔ بدعت ایک زہر ہے جو تمام نیکیوں کو برباد کردیتا ہے۔ حضرت ام المومنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ»(متفق علیه) یعنی جس نے ہمارے اس دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا کام ایجاد کیا جس کا پتہ اس دین میں نہ ہو وہ مردود ہے۔ مقام ابراہیم پر دورکعت نماز ادا کر کے مقام ملتزم پر آنا چاہئے۔ یہ جگہ حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے بیچ میں ہے۔ یہاں پر سات پھیروں کے بعد دورکعت نماز کے بعد آنا چاہئے۔ یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے یہاں کا پردہ پکڑ کر خانہ کعبہ سے لپٹ کر دیوار پر گال رکھ کر ہاتھ پھیلا کر دل کھول کو خوب رو رو کر دین ونیا کی بھلائی کے لئے دعائیں کریں۔ اس مقام پر یہ دعابھی مناسب ہے: اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ حَمْداً يُوَافِي نعمك، ويكافئ مَزِيدَكَ، أحْمَدُكَ بِجَمِيعِ مَحَامِدِكَ ما عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ على جَمِيعِ نِعَمِكَ ما عَلِمْتُ مِنْها وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَعَلى كُلّ حالٍ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ على مُحَمََّدٍ وَعَلى آلِ مُحَمَّدٍ، اللَّهُمَّ أعِذنِي مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ، وأَعِذْني مِنْ كُلِّ سُوءٍ، وَقَنِّعْنِي بِمَا رَزَقْتَنِي وَبَارِكْ لِي فِيهِ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ أَكْرَمِ وَفْدِكَ عَلَيْكَ، وألْزِمْنِي سَبِيلَ الاسْتِقَامَةِ حتَّى ألْقاكَ يا رب العالمين۔ (أذکار نووي)(ترجمہ) یا اللہ! کل تعریفوں کا مستحق تو ہی ہے میں تیری وہ تعریفیں کرتا ہوں جو تیری دی ہوئی نعمتوں کا شکریہ ہوسکیں اور اس شکریہ پر جو نعمتیں تیری جانب سے زیادہ ملیں ان کا بدلہ ہوسکیں۔ پھر میں تیری ان نعمتوں کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں سب ہی کا ان خوبیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں جن کا مجھ کو علم ہے اور جن کا نہیں غرض ہرحال میں میں تیری ہی تعریفیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اپنے حبیب محمد ﷺ اور آپ کی آل پر درود وسلام بھیج۔ یا اللہ! تو مجھ کو شیطان مردود سے اور ہر برائی سے پناہ میں رکھ اور جو کچھ تو نے مجھ کو دیا ہے اس پر قناعت کی توفیق عطا کر اور اس میں برکت دے۔ یا اللہ! تو مجھ کو بہترین مہمانوں میں شامل کر اور مرتے دم تک مجھ کو تو سیدھے راستے پر ثابت قدم رکھ یہاں تک کہ میری تجھ سے ملاقات ہو۔ یہ طواف جو کیا گیا طواف قدوم کہلاتا ہے۔ جو مکہ شریف یا میقات کے اندر رہتے ہیں، ان کے لئے یہ سنت نہیں ہے اور جو عمرہ کی نیت سے مکہ میں آئیں ان پر بھی طواف قدوم نہیں ہے۔ اس طواف سے فارغ ہوکر پھر حجر اسود کا استلام کیا جائے کہ یہ افتتاح سعی کا استلام ہے۔ پھر کمانی دار دروازے سے نکل كر سیدھے باب صفا کی طرف جائیں اور باب صفا سے نکلتے وقت یہ دعاء پڑھیں: «بسمِ اللہِ والصلوةُ والسلامُ علی رسولِ اللہِ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ»(ترمذي)(ترجمہ) ”اللہ کے مقدس نام کی برکت سے اور اللہ کے پیارے رسول پر درود وسلام بھیجتا ہوا باہر نکلتا ہوں۔ اے اللہ! میرے لئے اپنے فضل وکرم کے دروازے کھول دے۔ “ اس دعا کو پڑھتے ہوئے پہلے بایاں قدم مسجد حرام سے باہر کیا جائے پھر دایاں۔ کو ہ صفاپر چڑھائی! باب صفا سے نکل کر سیدھے کوہ صفاپر جائیں۔ قریب ہونے پر آیت شریفہ: ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ﴾ اللَّهِ تلاوت کریں۔ پھرکہیں: أبدأ بما بدأ اللہ (چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر میں پہلے صفا کا نام لیا ہے اس لئے میں بھی پہلے صفا ہی سے سعی شروع کرتا ہوں) یہ کہہ کر سیڑھیوں سے پہاڑی کے اوپر اتنا چڑھ جائیں کہ بیت اللہ شریف کا پردوہ دکھائی دینے لگے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ مَكَّةَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ ثُمَّ أَتَى الصَّفَا فَعَلَاهُ حَيْثُ يَنْظُرُ إِلَى الْبَيْتِ» الحدیث رواہ أبوداود یعنی اللہ کے رسول ﷺ جب مکہ شریف میں داخل ہوئے تو آپ نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر طواف کیا۔ پھر آپ صفا کے اوپر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ بیت اللہ آپ کو نظر آنے لگا۔ پس اب قبلہ روہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر پہلے تین دفعہ کھڑے کھڑے اللہ أکبر کہیں۔ پھر یہ دعا پڑھیں۔ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ»(مسلم) ”یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک کا اصلی مالک وہی ہے، اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں۔ وہ جو چاہے سو ہوسکتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے جس نے غلبہ اسلام کی بابت اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی امداد کی اور اس اکیلے نے تمام کفارومشرکین کے لشکروں کو بھگا دیا۔ “ اس دعا کو پڑھ کر پھردرود شریف پڑھیں پھر خوب دل لگا کر جوچاہیں دعا مانگیں۔ تین دفعہ اسی طرح نعرہ تکبیر تین تین بار بلند کرکے مذکورہ بالادعا پڑھ کر درودشریف کے بعد خوب دعائیں کریں۔ یہ دعاکی قبولیت کی جگہ ہے۔ پھر واپسی سے پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھ کر ہاتھوں کو منہ پر پھیرلیں۔ اللَّهُمَّ إِنَّكَ قُلْتَ: {اِدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ}[غافر40: 60] . وَإِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ. وَإِنِّي أَسْأَلُكَ، كَمَا هَدَيْتَنِي لِلْإِسْلاَمِ، أَنْ لاَ تَنْزِعَهُ مِنِّي. حَتَّى تَتَوَفَّانِي، وَأَنَا مُسْلِمٌ. (موطأ) یا اللہ تو نے دعا قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ پس تونے جس طرح مجھے اسلامی زندگی نصیب فرمائی اسی طرح موت بھی مجھ کو اسلام کی حالت میں نصیب فرما۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی! صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو سعی کہتے ہیں، یہ فرائض حج میں داخل ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ: أَخْبَرَتْنِي بِنْتُ أَبِي تِجْرَاةَ، إِحْدَى نِسَاءِ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، قَالَتْ: دَخَلْتُ مَعَ نِسْوَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ دَارَ آلِ أَبِي حُسَيْنِ نَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَرَأَيْتُهُ يَسْعَى، وَإِنَّ مِئْزَرَهُ لَيَدُورُ مِنْ شِدَّةِ السَّعْيِ، حَتَّى لَأَقُولَ: إِنِّي لَأَرَى رُكْبَتَيْهِ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «اسْعَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَيْكُمُ السَّعْيَ» رواہ في شرح السنة یعنی صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں کہ مجھے بنت ابی تجراہ نے خبردی کہ میں قریش کی چند عورتوں کے ساتھ آل ابو حسین کے گھر داخل ہوئی۔ ہم نبی کریم ﷺ کو صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ سعی کر رہے تھے اور شدت سعی کی وجہ سے آپ کی ازار مبارک ہل رہی تھی۔ آپ فرماتے تھے لوگو سعی کرو، اللہ نے اس سعی کو تمہارے اوپر فرض کیا ہے۔ پس اب صفا سے اتر کر رب اغفرلِي وارحم إنك أنت الأعز الأکرمُ (طبراني) پڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ چلیں۔ جب سبز میل کے پاس پہنچ جائیں (جو بائیں طرف مسجدحرام کی دیوار سے ملی ہوئی منصوب ہے) تو یہاں سے رمل کریں یعنی تیز رفتار دوڑتے ہوئے دوسرے سبز میل تک جائیں (جوکہ حضرت عباس ؓ کے گھر کے مقابل ہے) پھر یہاں سے آہستہ آہستہ اپنی چال پر چلتے ہوئے مروہ پہنچیں۔ راستے میں مذکورہ بالا دعا پڑھتے رہیں۔ جب مروہ پہنچیں تو پہلے دوسری سیڑھی پر چڑھ کر بیت اللہ کی جانب رخ کر کھڑے ہوں اور تھوڑا سا داہنی جانب مائل ہوجائیں تاکہ کعبہ کا استقبال اچھی طرح ہوجائے اگر چہ یہاں سے بیت اللہ بوجہ عمارات کے نظر نہیں آتا۔ پھر صفا کی دعائیں یہاں بھی اسی طرح پڑھیں جس طرح صفا پر پڑھی تھیں اور کافی دیر تک ذکرو ودعامیں مشغول رہیں کہ یہ بھی محل اجابت دعا ہے۔ پھر واپس صفا کو رب اغفروارحم پوری دعاء پڑھتے ہوئے معمولی چال سے سبز میل تک چلیں۔ پھر یہاں سے دوسرے میل تک تیز چلیں۔ اس میل پر پہنچ کر معمولی چال سے صفا پر پہنچیں۔ صفا سے مروہ تک آنا سعی کا ایک شوط کہلاتاہے۔ صفا پر واپس پہنچنے سے سعی کا دوسرا شوط پورا ہوجائے گا۔ اسی طرح سات شوط پورے کرنے ہوںگے۔ ساتواں شوط مروہ پر ختم ہوگا۔ ہر شوط میں مذکورہ بالا دعاؤ ں کے علاوہ سبحان اللہ والحمد اللہ ولا إله إلا اللہ خوب دل لگا کر پڑھنا چاہئے۔ چونکہ زمین اونچی ہوتی چلی گئی اس لئے صفا مروہ کی سیڑھیاں زمین میں دب گئی ہیں اور اب پہلی ہی سیڑھی پر کھڑے ہونے سے بیت اللہ کا نظر آنا ممکن ہے۔ لہٰذا اب کئی درجوں پر چڑھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ سعی میں کسی قسم کی تخصیص عورت کے لئے نہیں آئی۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ہیں۔ ضروری مسائل! طواف یا سعی کی حالت میں نماز کی جماعت کھڑی ہوجائے تو طواف یا سعی کو چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جاناچاہئے۔ نیز پیشاب یا پائخانہ یا اور کوئی ضروری حاجت در پیش ہو تو اس سے فارغ ہو کر باوضو جہاں طواف یا سعی کو چھوڑا تھا وہیں سے باقی کو پورا کرے۔ بیمار کو پکڑ کریا چا رپائی یا سواری پر بیٹھا کر طواف اور سعی کرانی جائز ہے۔ قدامہ بن عبداللہ بن عمار روایت کرتے ہیں۔ رأیتُ رسولَ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم یسعی بین الصفا والمروةِ علی بعیر (مشکوة) میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا۔ آپ اونٹ پر سوار ہوکر مروہ کے درمیان سعی کررہے تھے۔ اس پر حافظ ابن حجر ؓ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ عذر کی وجہ سے آپ ﷺ نے طواف وسعی میں سواری کا استعمال کیا تھا۔ قارن حج اور عمرے کا طواف اور سعی ایک ہی کرے۔ حج وعمرہ کے ليے علیحدہ علیحدہ دوبار طواف وسعی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری مسلم) عورتیں طواف اور سعی میں مردوں میں خلط ملط ہو کر نہ چلیں۔ ایک کنارہ ہوکر چلیں (صحیحین) سعی کے بعد! صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہونے کے بعد اگر حج تمتع کی نیت سے احرام باندھا گیا تھا تواب حجامت کرا کر حلال ہوجانا چاہئے۔ اور احرام حج قران یا حج افراد کا تھا تو نہ حجامت کرانی چاہئے نہ احرام کھولنا چاہئے۔ حج تمتع کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ مروہ پر بال کتروا دے اور دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں بال منڈوائے۔ عورت کو بال منڈوانے منع ہیں۔ ہاں چٹیا کی تھوڑی سی نوک کتر دینی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مرفوعاً مروی ہے۔ لیس علی النساءِ الحلقُ إِنما علی النساءِ التقصیرُ (أبوداود) یعنی عورتوں کے لئے سرمنڈانا نہیں ہے بلکہ صرف چٹیامیں سے چند بال کاٹ ڈالنا کافی ہے۔ ان سب کاموں سے فارغ ہوکر چاہ زمزم کا پانی پینا چاہئے۔ اس قدر کہ پیٹ اور پسلیاں خوب تن جائیں۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ منافق اتنا نہیں پیتا کہ اس کی پسلیاں تن جائیں۔ آبِ زمزم جس ارادے سے پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے۔ شفا کے ارادے سے پیا جائے تو شفاملتی ہے۔ بھوک پیاس کی دوری کے لئے پیا جائے تو بھوک پیاس دور ہوتی ہے۔ اور اگر دشمن کے خوف سے، کسی آفت کے ڈر سے، روز محشر کی گھبراہٹ سے محفوظ رہنے کی نیت سے پیا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ امن دیتا ہے۔ (حاکم، دارقطني وغیرہ) آبِ زمزم پینے کے آداب! زمزم شریف کا پانی قبلہ رخ ہوکر کھڑے ہوکر پینا چاہیے۔ درمیان میں تین سانس لیں۔ ہر دفعہ شروع میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد اللہ پڑھنا چاہئے اور پیتے وقت یہ دعا پڑھنی مسنون ہے۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا وَاسِعًا وَشِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ (حاکم دارقطني) یا اللہ! میں تجھ سے علم نفع دینے والا اور روزی فراخ اور ہر بیماری سے شفا چاہتا ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1649
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4256
4256. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین نے کہا کہ تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے، اس لیے نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکروں میں رمل کریں، نیز رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آرام سے چلیں۔ آپ نے تمام چکروں میں اکڑ کر چلنے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ مبادا امت پر دشوار ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4256]
حدیث حاشیہ: قعیقعان ایک پہاڑ ہے وہاں سے شامی اور عراقی دونوں رکن دکھائی پڑتے ہیں رکن یمانی اور حجر اسود نظر نہیں آتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4256
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4257
4257. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اورصفا و مروہ کے درمیان سعی اس لیے کی تھی کہ مشرکین کو اپنی قوت دکھائیں۔ ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب نبی ﷺ امن کے سال مکہ مکرمہ تشریف لائے تو فرمایا: ”اکڑ کر چلو تاکہ مشرکین کو اپنی طاقت دکھائیں۔“ اور مشرکین جبل قعیقعان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4257]
حدیث حاشیہ: مونڈھے ہلاتے ہوئے اکڑ کر چلنے کو رمل کہتے ہیں جواب بھی مسنون ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4257
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1602
1602. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب مکہ تشریف لائے تو مشرکین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تمھارے پاس ایک ایسا وفد آیا ہے جسے یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزورکردیا ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز تیز اور اکڑ کر چلیں اور دونوں رکنوں کے درمیان معمول کی چال چلیں۔ آپ کو یہ حکم دینےمیں کہ وہ سات چکروں میں اکڑ کر چلیں لوگوں پر آسانی کے علاوہ کوئی امر مانع نہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1602]
حدیث حاشیہ: (1) صلح حدیبیہ کے بعد جب عمرہ قضا کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مکہ آنے کا پروگرام بنایا تو کفار قریش نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مدینہ منورہ کی آب و ہوا نے انہیں کمزور کر دیا ہے اس بنا پر وہ بہت لاغر ہو چکے ہیں۔ بزعم خود وہ صحابہ کرام ؓ کی لاغری اور دبلا پن دیکھنے کے لیے میزابِ رحمت کے سامنے پہاڑ پر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دفاعی نقطہ نظر سے اپنے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ احرام باندھ کر پہلوانوں کی طرح کندھے ہلا کر چلو تا کہ قریش پر تمہاری طاقت ظاہر ہو اور انہیں پتہ چل جائے کہ ہم کمزور نہیں ہیں، چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے احرام کی چادریں دائیں بغلوں کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھوں پر ڈال لیں اور پہلوانوں کی طرح کندھوں کو ہلا ہلا کر بیت اللہ کا طواف کرنے لگے۔ جب رکن یمانی کے پاس آتے تو حجراسود تک آہستہ آہستہ چلتے۔ جب قریش کے سامنے آتے تو تیز تیز چلتے۔ صرف پہلے تین چکروں میں رمل کیا جاتا ہے۔ (2) عورتوں کو رمل کرنے کی اجازت نہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی یہ ادا اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کے لیے سنت قرار دے دیا، حالانکہ اکڑ کر چلنا تکبر کی علامت ہے لیکن اس وقت کافروں پر رعب ڈالنا مقصود تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب رمل کرنے کا سبب ختم ہو چکا ہے، لہذا اب رمل کرنا مسنون نہیں لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے۔ بہرحال اب بھی یادگار کے طور پر رمل کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے عروج کی تاریخ تازہ رہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1602
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1649
1649. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا دوران طواف میں تیز چلنا اور صفا ومروہ کی سعی میں دوڑنا اس لیے تھا کہ مشرکین کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔ حمیدی نے بھی اس طریق سے اسی طرح روایت بیان کی ہے، تاہم انھوں نے سفیان کی عمرو سے عطاء سے سماعت کی صراحت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1649]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے بھی صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کا ثبوت ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کا سبب مشرکین کے سامنے اپنی قوت و طاقت کا اظہار تھا۔ (3) اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ کو مناسک حج ادا کرنے کا حکم ہوا تو سعی کرتے وقت شیطان آپ کے آگے تیزی سے دوڑا، حضرت ابراہیم ؑ تیز دوڑتے ہوئے اس سے آگے بڑھ گئے، نیز حضرت ہاجرہ کا پانی کی تلاش میں تیز دوڑنا بھی سعی کا سبب ہے جیسا کہ امام بخاری ؒ نے اس کی صراحت کی ہے، اس لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے کئی ایک اسباب ہو سکتے ہیں۔ (فتح الباري: 634/3)(4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں اپنے شیخ حمیدی کے حوالے سے سفیان کے متعلق تصریح سماع ذکر کی ہے۔ چونکہ سفیان مدلس ہیں، اس لیے یہ وضاحت ضروری تھی تاکہ حدیث کے قبول ہونے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔ (5) صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب طواف کی دو رکعتوں سے فارغ ہوئے تو صفا کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا: ”میں بھی اسی طرح آغاز کرتا ہوں جیسا کہ اللہ نے کہا ہے۔ “(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950 (1218) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سعی کے وقت صفا سے آغاز کیا جائے۔ نسائی کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ تم سعی کا آغاز اس طرح کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بیان کرتے وقت فرمایا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سعی کا آغاز صفا سے کرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 635/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1649
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4256
4256. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مشرکین نے کہا کہ تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے، اس لیے نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکروں میں رمل کریں، نیز رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آرام سے چلیں۔ آپ نے تمام چکروں میں اکڑ کر چلنے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ مبادا امت پر دشوار ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4256]
حدیث حاشیہ: 1۔ کندھے ہلا کر آخر کر چلنے کو رمل کہتے ہیں۔ 2۔ اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے ایک خاص مقصد کے پیش نظرایسا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ایسا کرنا اب بھی مسنون ہے۔ واضح رہے کہ جب بیت اللہ کی دیواریں پرانی اور کمزور ہو گئیں تو قریش نے پانچویں مرتبہ اس کی تعمیر شروع کی۔ انھوں نے عہد کیا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر پر حرام کا پیسہ نہیں لگائیں گے، اس لیے چندہ کم پڑ گیا تو انھوں نے بیت اللہ کا ایک حصہ اس تعمیر سے الگ کردیا اسے حطیم کہا جاتا ہے، اس لیے شمال کی جانب بیت اللہ کے دونوں کنارے حضرت ابراہیم ؑ کی بنیاد پر نہیں ہیں اور جانب جبل قعیقعان پر کھڑے تھے جب مسلمان رکن یمانی اور حجر اسود کی طرف ہوتے تو مشرکین کو نظر نہیں آتے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے صرف حطیم کی جانب آتے ہوئے رمل کا حکم دیا اور وہ بھی پہلے تین چکروں میں باقی پھیروں میں مشقت کی وجہ سے عام رفتار کے ساتھ طواف کرنے کے متعلق فرمایا صحیح مسلم کی روایت میں ہے۔ ”مشرکین نے کہا: ہمارا خیال تھا کہ مسلمان مدینے جا کر کمزور ہو چکے ہیں لیکن یہ تو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو چکے ہیں۔ “(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 9530۔ (2166)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4256
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4257
4257. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اورصفا و مروہ کے درمیان سعی اس لیے کی تھی کہ مشرکین کو اپنی قوت دکھائیں۔ ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب نبی ﷺ امن کے سال مکہ مکرمہ تشریف لائے تو فرمایا: ”اکڑ کر چلو تاکہ مشرکین کو اپنی طاقت دکھائیں۔“ اور مشرکین جبل قعیقعان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4257]
حدیث حاشیہ: 1۔ گزشتہ حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران طواف میں رمل کیا تاکہ کفار کو اپنی طاقت دکھائیں اس حدیث سے پتہ چلا کہ آپ نے صفاو مروہ کی سعی کرتے وقت بھی یہی خیال کیا تھا کہ کفار کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں اگرچہ صفاو مروہ کی سعی کے اسباب بھی احادیث میں ذکر ہوئے ہیں ایک چیز کے کئی اسباب ممکن ہیں ان اسباب کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
کفار کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا مقصود تھا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں حضرت ابن عباس ؓ نے اس سبب کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے اس مقام پر وسوسہ اندزای کرنے کے لیے آپ کے سامنے شیطان آیا تو آپ اس مقام پر دوڑے تھے اس لیے اسے ابراہیم کہا گیا ہے۔ (مسند أحمد: 297/1) حضرت ہاجرہ ؓ کی سنت قدیم ہے وہ اس مقام پر ماں کی مامتا کے ہاتھوں مجبور کر بے قراری سے دوڑی تھیں جیسا کہ کئی احادیث سے ثابت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4257