مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4398
4398. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو حجۃ الوداع کے سال حکم دیا کہ وہ احرام کھول دیں، حضرت حفصہ ؓ نے پوچھا: آپ کو احرام کھولنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کو گوند لگا رکھی ہے اور قربانی کے جانوروں کو ہار پہنائے ہیں، لہذا میں تو احرام کی پابندیوں سے اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گا جب تک اپنی قربانی ذبح نہ کر لوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4398]
حدیث حاشیہ:
گوند لگا کر آپ ا نے سرمبارک کے بکھرے ہوئے بالوں کو جمالیا تھا، اس کو لفظ تلبید سے تعبیر کیا گیا ہے۔
آپ ﷺ کا احرام حج قران کا تھا۔
اسی لیے آپ نے احرام نہیں کھولا مگر صحابہ ؓ کو آپ نے حج تمتع ہی کے احرام کی تاکید فرمائی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4398
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5916
5916. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا بات ہے کہ لوگوں نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا لیکن آپ نے نہیں کھولا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اپنے بالوں کو جمایا ہے اور اپنی قربانی کے گلے میں قلا دہ ڈالا ہے، اس لیے جب تک میں قربانی ذبح نہ کرلوں میں احرام نہیں کھولوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5916]
حدیث حاشیہ:
روایت میں بال جمانے کا ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5916
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1566
1566. حضرت حفصہ ؓ جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں، ان سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!کیا وجہ کے لوگوں نے تو عمرہ کرکے احرام کھول دیا ہے لیکن آپ نے عمرہ مکمل کرنے کے باوجود احرام نہیں کھولا ہے؟آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے بال جمالیے تھے اور قربانی کے گلے میں قلادہ پہنا دیا تھا، اس لیے میں جب تک قربانی نہ کروں احرام نہیں کھول سکتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1566]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حج قران کی نیت سے احرام باندھے ہوئے تھے لیکن مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میں قربانی ساتھ نہ لایا ہوتا تو اس احرام کو عمرے سے بدل لیتا اور حج تمتع کرتا۔
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق حج قران اور حج تمتع کا ثبوت واضح ہے۔
(2)
تلبید کے معنی یہ ہیں کہ محرم آدمی اپنے سر پر لوشن وغیرہ لگا لے تاکہ بال بکھرنے نہ پائیں اور ان میں جوئیں نہ پڑیں۔
اور اس کا ضرورت مند وہ شخص ہوتا ہے جس کی احرام کی مدت لمبی ہو اور وہ اعمال مناسک ادا کرنے کے لیے زیادہ عرصہ ٹھہرنا چاہتا ہو۔
(3)
تقلید کے معنی یہ ہیں کہ قربانی کے جانور کے گلے میں کوئی جوتا وغیرہ لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔
تقلید سے یہ باور کرانا مقصود ہوتا ہے کہ احرام اس وقت تک رہے گا جب قربانی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ جائے۔
بہرحال جو شخص حج قران کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ قربانی کا جانور ہونا ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1566
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1725
1725. حضرت حفصہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اللہ رسول اللہ ﷺ!لوگوں کو کیا ہوا، انھوں نے عمرے کا احرام کھول دیا لیکن آپ نے ابھی تک احرام نہیں کھولاہے؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کے بال جمائے ہیں اور قربانی کے گلے میں قلادہ ڈالا ہے۔ میں احرام نہیں کھولوں گا یہاں تک کہ قربانی کرلوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1725]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے عنوان میں بال جمانے اور حلق کرنے، دونوں کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں صرف بال جمانے کا ذکر ہے۔
دراصل حدیث کا عنوان کے تمام اجزاء کے مطابق ہونا ضروری نہیں۔
چونکہ سر منڈوانا ایک واضح امر تھا، اس لیے مذکورہ حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہوا، البتہ آئندہ حدیث ابن عمر میں حلق کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے۔
دیکھیے:
(حدیث: 1726) (2)
دراصل امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک اختلافی مسئلے کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس نے احرام باندھتے وقت اپنے بالوں کو جما لیا ہو اس کے لیے حلق ضروری ہے یا اس کے لیے قصر بھی جائز ہے؟ ابن بطال نے جمہور کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ ایسے شخص پر حلق ضروری ہے لیکن اہل رائے کا کہنا ہے کہ ایسے شخص پر حلق ضروری نہیں بلکہ حلق یا قصر اس کی صوابدید پر موقوف ہے۔
جمہور کے موقف کے لیے کوئی واضح دلیل نہیں ہے، البتہ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ جس نے اپنے سر کی مینڈھیاں بنائی ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ احرام کھولتے وقت قربانی کر دے اور اپنے بالوں کو منڈوا دے۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے بالوں کو جمانے کے بعد انہیں منڈوایا ہے، اس لیے سنت یہی ہے کہ بالوں کو منڈوا دیا جائے، البتہ قصر کی گنجائش ہے۔
(فتح الباري: 708/3)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1725
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4398
4398. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو حجۃ الوداع کے سال حکم دیا کہ وہ احرام کھول دیں، حضرت حفصہ ؓ نے پوچھا: آپ کو احرام کھولنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کو گوند لگا رکھی ہے اور قربانی کے جانوروں کو ہار پہنائے ہیں، لہذا میں تو احرام کی پابندیوں سے اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گا جب تک اپنی قربانی ذبح نہ کر لوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4398]
حدیث حاشیہ:
1۔
تلبید کے معنی گوند کے ساتھ بالوں کو جمانا ہیں تاکہ گردوغبار داخل نہ ہو اور سواری کی حرکت کی وجہ سے بال نہ بکھریں۔
2۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تادیرمحرم رہنے کا ارادہ کرچکے تھے، اگر عمرہ کرکے حلال ہوجاتے تو اس قدر اہتمام کرنے کی کیا ضرورت نہ تھی، نیز آپ اپنے ساتھ قربانی کےجانور لائے تھے، اس لیے آپ احرام نہیں کھول سکتے تھے، جب تک انھیں دس تاریخ کو ذبح نہ کرلیتے۔
بہرھال اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4398
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5916
5916. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا بات ہے کہ لوگوں نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا لیکن آپ نے نہیں کھولا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اپنے بالوں کو جمایا ہے اور اپنی قربانی کے گلے میں قلا دہ ڈالا ہے، اس لیے جب تک میں قربانی ذبح نہ کرلوں میں احرام نہیں کھولوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5916]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی کو گوند وغیرہ سے اپنے بالوں کو جمانا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے بال گوند وغیرہ سے جما لیے تھے تاکہ گردوغبار سے پراگندہ نہ ہوں اور ان میں جوئیں وغیرہ نہ پڑیں۔
(2)
بہرحال بالوں کو جمانا مشروع ہے اور جو لوگ اس عمل کو جائز یا بہتر خیال نہیں کرتے ان کا موقف محل نظر ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عمل میں نہ لاتے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5916