الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
176. بَابُ : غَسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا
176. باب: حائضہ کے اپنے شوہر کا سر دھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 276
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قالت: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُومِئُ إِلَيَّ رَأْسَهُ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ، فَأَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں میری طرف اپنا سر بڑھاتے، تو میں اسے دھوتی اور میں حائضہ ہوتی۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 276]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحیض 5 (301)، الاعتکاف 4 (2031)، صحیح مسلم/الحیض 3 (297)، (تحفة الأشراف: 15990)، مسند احمد 6/32، 55، 86، 170، 204، ویأتي عند المؤلف في الحیض 21، (برقم: 387) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريترجل رأس رسول الله وهي حائض ورسول الله حينئذ مجاور في المسجد يدني لها رأسه وهي في حجرتها
   صحيح البخاريأرجل رأس رسول الله وأنا حائض
   صحيح البخاريأرجل رأس رسول الله وأنا حائض
   صحيح البخاريترجل النبي وهي حائض وهو معتكف في المسجد وهي في حجرتها يناولها رأسه
   صحيح البخارييصغي إلي رأسه وهو مجاور في المسجد فأرجله وأنا حائض
   صحيح البخارييدخل علي رأسه وهو في المسجد فأرجله لا يدخل البيت إلا لحاجة إذا كان معتكفا
   صحيح مسلميدني إلي رأسه وأنا في حجرتي فأرجل رأسه وأنا حائض
   صحيح مسلمأغسل رأس رسول الله وأنا حائض
   صحيح مسلميدخل علي رأسه وهو في المسجد فأرجله لا يدخل البيت إلا لحاجة إذا كان معتكفا
   صحيح مسلمإذا اعتكف يدني إلي رأسه فأرجله لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان
   صحيح مسلميخرج إلي رأسه من المسجد وهو مجاور فأغسله وأنا حائض
   جامع الترمذيإذا اعتكف أدنى إلي رأسه فأرجله لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان
   سنن أبي داوديكون معتكفا في المسجد فيناولني رأسه من خلل الحجرة
   سنن أبي داودإذا اعتكف يدني إلي رأسه فأرجله لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان
   سنن النسائى الصغرىترجل رأس رسول الله وهي حائض وهو معتكف فيناولها رأسه وهي في حجرتها
   سنن النسائى الصغرىيدني إلي رأسه وهو معتكف فأغسله وأنا حائض
   سنن النسائى الصغرىيومئ إلي رأسه وهو معتكف فأغسله وأنا حائض
   سنن النسائى الصغرىأرجل رأس رسول الله وأنا حائض
   سنن النسائى الصغرىيخرج رأسه من المسجد وهو معتكف أغسله وأنا حائض
   سنن النسائى الصغرىيخرج إلي رأسه من المسجد وهو مجاور فأغسله وأنا حائض
   سنن ابن ماجهيدني رأسه إلي وأنا حائض وهو مجاور فأرجله
   سنن ابن ماجهيدني إلي رأسه وهو مجاور فأغسله وأرجله وأنا في حجرتي وأنا حائض وهو في المسجد
   موطأ مالك رواية يحيى الليثيأرجل رأس رسول الله وأنا حائض
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمإذا اعتكف يدني إلى راسه فارجله وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمارجل راس رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا حائض
   بلوغ المرام ليدخل علي راسه وهو في المسجد فارجله وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة إذا كان معتكفا
   المعجم الصغير للطبراني يدخل على رأسه وهو معتكف فأرجله وكان لا يدخل بيته إلا لحاجة الإنسان
   مسندالحميديكان رسول الله صلى الله عليه وسلم معتكفا في المسجد وأخرج إلي رأسه فغسلته وأنا حائض

سنن نسائی کی حدیث نمبر 276 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 276  
276۔ اردو حاشیہ: چونکہ حیض والی عورت کے ہاتھ ظاہراً پلید نہیں ہوتے، لہٰذا سر دھونے میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 276   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 296  
´حائضہ عورت کا اپنے شوہر کے سر کو دھونا اور اس میں کنگھا کرنا جائز ہے`
«. . . أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّهُ سُئِلَ أَتَخْدُمُنِي الْحَائِضُ أَوْ تَدْنُو مِنِّي الْمَرْأَةُ وَهِيَ جُنُبٌ؟ فَقَالَ عُرْوَةُ: كُلُّ ذَلِكَ عَلَيَّ هَيِّنٌ، وَكُلُّ ذَلِكَ تَخْدُمُنِي وَلَيْسَ عَلَى أَحَدٍ فِي ذَلِكَ بَأْسٌ، أَخْبَرَتْنِي عَائِشَة " أَنَّهَا كَانَتْ تُرَجِّلُ تَعْنِي رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ حَائِضٌ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَئِذٍ مُجَاوِرٌ فِي الْمَسْجِدِ يُدْنِي لَهَا رَأْسَهُ وَهِيَ فِي حُجْرَتِهَا، فَتُرَجِّلُهُ وَهِيَ حَائِضٌ " . . . .»
. . . ہشام بن عروہ نے عروہ کے واسطے سے بتایا کہ ان سے سوال کیا گیا، کیا حائضہ بیوی میری خدمت کر سکتی ہے، یا ناپاکی کی حالت میں عورت مجھ سے نزدیک ہو سکتی ہے؟ عروہ نے فرمایا میرے نزدیک تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح کی عورتیں میری بھی خدمت کرتی ہیں اور اس میں کسی کے لیے بھی کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حائضہ ہونے کی حالت میں کنگھا کیا کرتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں معتکف ہوتے۔ آپ اپنا سر مبارک قریب کر دیتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرہ ہی سے کنگھا کر دیتیں، حالانکہ وہ حائضہ ہوتیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ غَسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِيلِهِ:: 296]
تشریح:
باب کی حدیث سے مطابقت ظاہر ہے۔ ادیان سابقہ میں عورت کو ایام حیض میں بالکل علیحدہ قید کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے ان قیود کو ہٹا دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 296   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2029  
2029. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بحالت اعتکاف مسجد میں رہتے ہوئے اپنا سر مبارک میری طرف جھکا دیتے تو میں آپ کو کنگھی کردیتی تھی۔ اور جب آپ معتکف ہوتے تو گھرمیں بلاضرورت تشریف نہ لائے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2029]
حدیث حاشیہ:
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری مرحوم فرماتے ہیں:
فسرها الزهري بالبول و الغائط و قد اتفقوا علی استثناءهما (تحفة الأحوذي)
یعنی امام زہری نے حاجات کی تفسیر پیشاب اور پاخانہ سے کی ہے۔
اور اس پر لوگوں کا اتفاق ہے کہ ان حاجات کے لیے گھر جانا مستثنیٰ ہے اور معتکف ان حاجات کو رفع کرنے کے لیے جاسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2029   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2046  
2046. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے سر مبارک کو دھویا کرتی تھیں۔ حالانکہ وہ بحالت حیض ہوتیں اور آپ ﷺ مسجد میں معتکف ہوتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے حجرے میں ہوتیں، آپ ﷺ اپنا سر مبارک ان کی طرف جھکا دیتے تو وہ اسے دھو دیتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2046]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے بذیل مسائل تروایح، و لیلۃ القدر اور اعتکاف یہاں کل انتالیس حدیثوں کو نقل فرمایا۔
جن میں مرفوع، معلق، مکرر جملہ احادیث شامل ہیں۔
کچھ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی آپ نے ذکر فرمائے، چونکہ ایمان اور ارکان خمسہ کے بعد اولین چیز جو ہر مسلمان کے لیے بے حد ضروری ہے وہ طلب رزق حلال ہے۔
جس کا بہترین ذریعہ تجارت ہے، اس لیے اب امام بخاری ؒ نے کتاب البیوع کو شروع فرمایا، رزق کی تلاش کے لیے تجارت کو اولین ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
تجارت نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
قرآن مجید میں بھی لفظ تجارت مختلف مقاصد کے لیے بولا گیا ہے جو تاجر امانت و دیانت کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ان کے لیے بہت کچھ بشارتیں وارد ہوئی ہیں جن میں کچھ یہاں بھی ملاحظہ میں آئیں گی۔
إن شاءاللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2046   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 268  
´حالت اعتکاف میں جائز امور`
«. . . عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم انها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اعتكف يدني إلى راسه فارجله وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے (تو حالت اعتکاف میں) اپنا سر (مسجد سے نکال کر) میرے نزدیک کرتے پھر میں آپ کی کنگھی کرتی اور آپ صرف انسانی ضرورت کے لئے ہی گھر میں داخل ہوتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 268]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 297، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ حالت اعتکاف میں بغیر شرعی عذر کے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
➋ حالت اعتکاف میں آداب اعتکاف ملحوظ رکھنا ضروری ہے حتی الوسع دنیاوی امور سے اجتناب کرنا چاہئے۔
➌ حالت اعتکاف میں اپنی بیوی سے تعلق شہوت، مباشرت اور جماع بالاجماع حرام ہے۔
➍ معتکف کے لئے سر دھونا، کنگھی کرنا، سر کے بال کٹوانا اور منڈوانا، ناخن تراشنا اور نہانا جائز ہے۔
➎ جمہور علماء کے نزدیک معتکف کے لئے بیمار پرسی یا نماز جنازہ کے لئے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے: [شرح السنة للبغوي 398/6 ح 1836]
● عروہ بن الزبیر اور زہری نے کہا کہ حالت اعتکاف میں بیمار پرسی اور نماز جنازہ کے لئے نہیں جانا چاہئے اور نہ (مسجد سے باہر) دعوت قبول کرنی چاہئے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 89/3 ح 9646 وسنده صحيح، 9644 وسنده صحيح]
● جبکہ سعید بن جبیر، شعبی اور حسن بصری نے فرمایا کہ بیمار پرسی کے لئے جانا جائز ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 88/3 ح 9632 وسنده صحيح، 9639 وسنده صحيح]
● سعید بن جبیر اور حسن بصری نے کہا: نماز جنازہ کے لئے جانا جائز ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 9634 وسنده صحيح، 9639 وسنده صحيح]
◄ ان اقوال میں تطبیق یہ ہے کہ انتہائی ضروری بیمار پرسی اور انتہائی قریبی رشتہ دار یا دوست کے جنازے کے لئے مسجد اعتکاف سے قریب جانا جائز ہے۔ ایسے کاموں کے لئے سفر نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم
➏ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 87/3 ح 9626 وسنده صحيح]
● سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اعتکاف کرنے والے کو روزہ رکھنا چاہئے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 318/4 وسنده صحيح]
● اس روزے کو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 319/4 وسنده صحيح]
➐ ابوقلابہ (عبد الله بن زید) رحمہ الله اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ اپنے قبیلے کی مسجد میں اعتکاف کرتے تھے۔
[مصنف ابن ابي شيبه 90/3 ح 9660 وسنده صحيح، 9663 وسندہ صحیح]
● ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قبائل کی مسجدوں میں اعتکاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 91/3 ح 9665 وسنده صحيح]

تنبیہ:
جس حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین مسجدوں (بیت اللہ مسجد نبوی اور بیت المقدس) کے علاوہ اعتکاف نہیں ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 316/4] اس کی سند سفیان بن عیینہ کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➑ زہری، حکم بن عتیبہ، حماد بن ابی سلیمان، ابوجعفر محمد بن علی الباقر اور عروة بن الز بیر نے کہا کہ صرف اسی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہئے جس میں نماز باجماعت ہوتی ہے (یا نماز جمعہ پڑھی جاتی ہے) دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 91/3 ح 9673 وسنده صحيح، 9674 وسنده صحيح، 9675 وسنده صحيح، 9676 وسنده صحيح]
● سعید بن جبیر اور شعبی نے کہا کہ نماز جمعہ کے لئے (اعتكاف والی مسجد سے) نکلنا جائز ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه مفهوماً 88/3 ح 9632 وسنده صحيح، 9636 وسنده صحيح]
◄ معلوم ہوا کہ بہتر یہی ہے کہ اس مسجد میں اعتکاف کیا جائے جہاں نماز با جماعت اور جمعہ ہوتا ہو۔ واللہ اعلم
➒ حکم بن عتیبہ نے کہا: اگر اعتکاف کرنے والا حالت اعتکاف میں مر جائے تو اس کی طرف سے اس اعتکاف کی قضا ادا نہیں کی جائے گی۔ [مصنف ابن ابي شيبه 94/3 ح 9693 وسنده صحيح]
➓ جس عورت کو استحاضہ (مسلسل حیض) کی بیماری لاحق ہو تو حالت استحاضہ میں اس کے لئے اعتکاف کرنا جائز ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 94/3 ح 9700 بلفظ: أن بعض أزواج النبى صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ كانت مستحاضة وهى عاكفة وسنده صحيح،: صحيح بخاري: 310، 309، 311، 2037] نیز عورت بھی مسجد میں اعتکاف کرے گی۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 2045]
● کسی صحیح حدیث میں عورتوں کا گھر میں اعتکاف کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
● ابراہیم نخعی نے کہا کہ اگر (حالت اعتکاف میں) عورت کو حیض شروع ہو جائے تو وہ اپنے گھر میں ایک جگہ پردہ کر کے رہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 94/3 ح 9698 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 46   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 51  
´حالت حیض میں عورت چند ممنوعہ امور کے علاوہ تمام کا م کر سکتی ہے`
«. . . 462- وعن هشام بن عروة عن أبيه وعن ابن شهاب عن عروة عن عائشة أنها قالت: كنت أرجل رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا حائض. قال أبو الحسن: هكذا نص إسناد هذا الحديث فى كتاب الصلاة من رواية الدباغ، ومثله فى النسخة. وفي كتاب عيسى: هشام عن أبيه وعن ابن شهاب، عن عائشة .. .. الحديث. . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حیض کی حالت میں (بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں کنگھی کرتی تھی۔ ابوالحسن (القابسی) نے کہا: دباغ کی روایت سے کتاب الصلاۃ میں اس حدیث کی سند اسی طرح ہے اور اسی طرح ایک نسخے میں ہے اور عیسیٰ (بن مسکین) کی کتاب میں «عن هشام عن ابيه» اور «عن ابن شهاب عن عائشه» ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 51]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 295، من حديث مالك، ومسلم 297، من حديث هشام بن عروه به، سقط من الأصل والسياق يقتضيه]

تفقه:
➊ حیض کی حالت میں عورت نجس (پلید) نہیں ہوتی بلکہ نماز، روزے اور دیگر ممنوعہ امور کے علاوہ دنیا کے تمام کام کر سکتی ہے مثلاً کھانا پکانا وغیرہ۔
➋ بیوی پر اپنے شوہر کی خدمت کرنا واجب ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔
➍ آیت «فَاعْتَزِلُوْا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيْضِ» حیض والی عورتوں سے علیحدہ ہوجاؤ۔ [البقرة: 222] کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حائضہ عورتوں سے مکمل بائیکاٹ کرلو بلکہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ اُن سے جماع نہ کرو۔ معلوم ہوا کہ قرآن مجید کو حدیث، اجماع اور آثار سلف صالحین کے ساتھ ہی سمجھنا پڑے گا ورنہ پھر گمراہی کے راستے کھلتے ہیں۔
➎ بالوں کی کنگھی کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس پر بہت زیادہ وقت صرف نہ کیا جائے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [السنن النسائي 1/130 ح239، 8/131 ح5057 وسنده صحيح، سنن ابي داود: 81]
● یہ روایت استحباب وادب پر محمول ہے، حرمت پر محمول نہیں کیونکہ سلف صالحین نے اس سے یہی مفہوم سمجھا ہے۔ نافع کو بتایا گیا کہ حسن (بصری) روزانہ کنگھی کرنے کو ناپسند کرتے ہیں تو وہ ناراض ہوئے اور فرمایا: ابن عمر (رضی اللہ عنہ) روزانہ دو دفعہ تیل لگاتے تھے۔ [طبقات ابن سعد 4/157، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 462   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 572  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میرے آگے کر دیتے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اعتکاف کی حالت میں) مسجد میں ہوتے۔ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کنگھی کرتی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے ضروری حاجات کے گھر میں داخل نہ ہوتے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 572]
572 لغوی تشریح:
«اِنْ كَانَ» «اِنْ» حرف تاکید ہے اور یہ «اِنَّ ثقيله» سے خفیفہ ہوا ہے جسے «اَلْمُخَفَّفَه» مِنَ «الْمُثَقَّلَه» کہتے ہیں۔ اصل کلام «اِنَّهُ كَانَ» تھا۔
«لَيُدْخِلُ» «اِدْخَال» سے ہے، یعنی داخل کرتے۔
«عَلَيَّ» یا مشددہ ہے، یعنی میری جانب۔
«فَاُرَجِّلُهُ» آپ کے بالوں کو کنگھی سے درست کرتی، تیل لگاتی۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف کرنے والا اپنے جسم کا بعض حصہ مسجد سے باہر کر سکتا ہے، اس سے کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا۔ اور آدمی اعتکاف میں اپنی بیوی سے خدمت لے سکتا ہے۔
«اِلَّا لِحَاجَةٍ» مگر ضروری حاجت کے لیے۔ اس سے بول و بزار، غسل جنابت اور خون نکلوانا وغیرہ مراد ہے جو مسجد میں نہیں کیے جا سکتے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 572   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 389  
´حائضہ کے شوہر کا سر دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں کنگھی کرتی، اور میں حائضہ ہوتی۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 389]
389۔ اردو حاشیہ:
➊ باب سر دھونے کا ہے، مگر اس حدیث میں کنگھی کا ذکر ہے اور بس، مگر اس میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ عموماً سر دھونے کے بعد ہی کنگھی کی جاتی ہے۔
➋ باب کا مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورت کے ہاتھ، بلکہ سارا جسم (سوائے نجاست کی جگہ کے) ظاہراً پاک ہوتا ہے۔ گیلا ہو یا خشک۔ پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پانی پلید ہوتا ہے نہ ہاتھ۔ وہ گیلا ہاتھ یا جسم کسی سے الگ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 389   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2467  
´معتکف اپنی ضرورت کے لیے گھر میں داخل ہو سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو (مسجد ہی سے) اپنا سر میرے قریب کر دیتے اور میں اس میں کنگھی کر دیتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کسی انسانی ضرورت ہی کے پیش نظر داخل ہوتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2467]
فوائد ومسائل:
(1) اثنائے اعتکاف میں بیوی اپنے شوہر کی خڈمت کر سکتی ہے خواہ حائضہ بھی ہو۔
(صحيح البخاري‘ الاعتكاف‘ حديث:2031) مگر عمر کے لحاظ سے احتیاط لازم ہے۔

(2) روزے اور اعتکاف میں جسم و لباس کی نظافت کا اہتمام رکھنا چاہیے۔

(3) قضائے حاجت کے لیے انسان اپنے معتکف اور مسجد سے باہر یا اپنے گھر بھی جا سکتا ہے۔
ایسے ہی اگر کوئی خادم میسر نہ ہو تو کھانا کھانے کے لیے جانا بھی مباح ہو گا۔

(4) اس حدیث کی سند میں عن عروہ کے بعد عن عمرة بنت عبدالرحمن المزيد في متصل الاسانيد کی قسم سے ہے۔
(بذل المجهود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2467   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث633  
´حائضہ عورت مسجد سے ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز اٹھا لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حیض کی حالت میں ہوتی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے، تو آپ اپنا سر مبارک میری طرف بڑھا دیتے، میں آپ کا سر دھو کر کنگھا کر دیتی۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 633]
اردو حاشہ:
(1)
معتکف آدمی کسی معقول عذر کے بغیر مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا۔

(2)
مسجد سے سر باہر نکالنا مسجد سے نکلنے کے حکم میں نہیں۔ (3)
جب عورت ایام حیض میں ہو تو اس سے مباشرت کے سوا دوسری کوئی بھی خدمت لینا جائز ہے۔

(4)
اعتکاف کی حالت میں سر دھونا اور نہانا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 633   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1778  
´معتکف اپنا سر دھو سکتا ہے اور کنگھی کر سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں مسجد سے اپنا سر میری طرف بڑھا دیتے تو میں اسے دھو دیتی اور کنگھی کر دیتی، اس وقت میں اپنے حجرے ہی میں ہوتی، اور حائضہ ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہوتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1778]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اعتکا ف کے دوران میں نہانا اور سر دھونا جا ئز ہے۔

(2)
اعتکاف کی حالت میں اگر جسم کا کوئی حصہ مثلاً سر مسجد سے نکالا جا ئے تو اعتکا ف میں فرق نہیں آتا۔

(3)
جب عورت کے حیض کے ایام ہوں تو وہ مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی البتہ ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز اٹھا سکتی ہے۔

(4)
اعتکاف کی حالت میں متعکف کی بیوی اس کی خدمت کر سکتی ہے۔

(5)
ام المومنین کو اس انداز سے اس لئے خدمت انجا م دینے کی ضرورت پیش آئی کہ نبی ﷺ اعتکاف کی وجہ سے گھر نہیں آ سکتے تھے اور ام المومنین خاص ایام میں ہو نے کی وجہ سے مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی تھیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1778   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 804  
´معتکف اپنی ضرورت کے لیے نکل سکتا ہے یا نہیں؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میرے قریب کر دیتے میں اس میں کنگھی کر دیتی ۱؎ اور آپ گھر میں کسی انسانی ضرورت کے علاوہ ۲؎ داخل نہیں ہوتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 804]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ معتکف اپنے جسم کا کوئی حصہ اگر مسجد سے نکالے تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہو گا۔

2؎:
انسانی ضرورت کی تفسیر زہری نے پاخانہ اور پیشاب سے کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 804   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:184  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ معتکف غسل کر سکتا ہے، کپڑے تبدیل کر سکتا ہے بعض لوگوں نے اعتکاف میں بھی بدعات شروع کر رکھی ہیں، مثلاً: اعتکاف کی حالت میں غسل نہیں کرنا، سرمہ نہیں ڈالنا، اپنے چہرے کو چھپا کر رکھنا، یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حائضہ کے ہاتھ پاک ہوتے ہیں، وہ آٹا گوندھے گی، روٹی پکائے گی، اور اپنے خاوند کا سر بھی دھو سکتی ہے۔ خواتین پر اپنے خاوند کی خدمت فرض ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 184   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:295  
295. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں بحالت حیض رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک میں کنگھی کیا کرتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:295]
حدیث حاشیہ:

یہود کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ وہ بحالت حیض عورت کے ساتھ کھانے پینے اور ایک مکان میں ساتھ رہنے کو ممنوع خیال کرتے تھے۔
امام بخاری ؒ ان کے غیر معقول رویے پر تنبیہ کرنا، نیز قرآنی ہدایت کہ ان دنوں میں عورتوں کے قریب نہ جاؤ اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے صرف مباشرت و جماع کی ممانعت ہے، حائضہ عورت کا قرب و مس ممنوع نہیں۔
امام بخاری نے اس عنوان سے ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ حائضہ عورت اپنے خاوند کے تمام امور خدمت سرانجام دے سکتی ہے۔
سر دھوسکتی ہے، اس میں کنگھی کر سکتی ہے، خاوند کا سر گود میں رکھ کر اسے آرام پہنچا سکتی ہے اور کھانا وغیرہ پکا سکتی ہے۔
حدیث سے بالوں میں کنگھی کرنا اور انھیں سنوارنا تو ثابت ہے، لیکن انھیں دھونے کا ذکر اس روایت میں نہیں ہے، دراصل امام بخاری ؒ نے اس روایت کے بیان کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے، کیونکہ اس روایت کے دوسرے طرق سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ بحالت حیض سر مبارک دھوتی تھیں۔
(صحیح بخاري، الحیض، حدیث: 301)
حضرت عائشہ ؓ حیض کے عذر کی وجہ سے مسجد میں نہ آسکتی تھیں۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ کھڑکی سے اپنا سر مبارک باہر نکالتے، حضرت عائشہ ؓ اسے دھو دیتیں اور اس میں کنگھی کر دیتی تھیں۔
لفظ "ترجیل" بالوں کو درست کرنے سے کنایہ ہے، خواہ بالوں کو سنوارنا دھونے کی صورت میں ہو یا کنگھی کرنے کی شکل میں۔

دوسری حدیث میں حضرت عروہ ؓ سے سوال کیا گیا کہ آیا بیوی حیض یا جنابت کی حالت میں اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہےاور اس کے قریب آسکتی ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
انھوں نے بطور دلیل حضرت عائشہ ؓ کی روایت پیش کردی کہ وہ بھی بحالت حیض رسول اللہ ﷺ کے بال سنوار دیا کرتی تھیں، اس میں حائضہ سے خدمت لینے کی وضاحت ہے، لیکن بحالت جنابت خدمت لینے کا مسئلہ اس روایت میں بیان نہیں ہوا۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں حضرت عروہ ؒ نے حیض پر قیاس کرتے ہوئے جنابت کو اس کے ساتھ ملا دیا، کیونکہ حیض قذر اور گندگی ہے۔
جب اس گندگی کی حالت میں خد مت لینے کی اجازت ہے تو جنابت تو ایک معنوی نجاست ہے۔
اس حالت میں تو بدرجہ اولیٰ خدمت لینے کی اجازت ہونی چاہیے اور انھوں نے بال سنوار نے پر دیگر خدمات کو قیاس کر کے اس میں عموم پیدا کیا ہے، اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل بھی معلوم ہوئے۔
حائضہ کا بدن اور پسینہ پاک ہے۔
حائضہ عورت مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی۔
معتکف کے لیے جماع اور اس کے مقدمات ممنوع ہیں۔
(فتح الباری: 521/1)

حائضہ عورت کے اپنے خاوند كا سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں۔
البتہ حضرت ابن عباس ؓ کے متعلق ابن ابی شیبہ ؒ نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا کہ بیٹے تمھارے بال اتنے پراکندہ کیوں ہیں؟عرض کیا کہ بیوی اُم عمار ہی میرے بال سنوارتی ہےاوروہ ان دنوں حیض میں مبتلا ہے، حضرت میمونہ ؓ نے فرمایا:
حیض اس کے ہاتھ میں سرایت نہیں کر گیا کہ اس سے کوئی خدمت نہ لی جائے۔
رسول اللہ ﷺ آرام کرنے کے لیے ہماری گود میں سر رکھ دیتے تھے، جبکہ ہم حیض میں مبتلا ہوتی تھیں۔
(المصنف لا بن أبي شیبة: 366/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 295   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:296  
296. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، ان سے سوال کیا گیا: آیا حائضہ عورت میری خدمت کر سکتی ہے یا بحالت جنابت میرے قریب آ سکتی ہے؟ حضرت عروہ نے فرمایا: میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح کی عورتیں میری بھی خدمت بجا لاتی ہیں۔ کسی شخص پر اس سلسلے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مجھے حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے بتایا کہ وہ بحالت حیض رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک میں کنگھی کیا کرتی تھیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسجد میں اعتکاف فرما ہوتے۔ آپ اپنا سر مبارک قریب کر دیتے اور حضرت عائشہ‬ ؓ ح‬ائضہ ہونے کے باوجود اپنے حجرے ہی سے کنگھی کر دیا کرتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:296]
حدیث حاشیہ:

یہود کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ وہ بحالت حیض عورت کے ساتھ کھانے پینے اور ایک مکان میں ساتھ رہنے کو ممنوع خیال کرتے تھے۔
امام بخاری ؒ ان کے غیر معقول رویے پر تنبیہ کرنا، نیز قرآنی ہدایت کہ ان دنوں میں عورتوں کے قریب نہ جاؤ اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے صرف مباشرت و جماع کی ممانعت ہے، حائضہ عورت کا قرب و مس ممنوع نہیں۔
امام بخاری نے اس عنوان سے ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ حائضہ عورت اپنے خاوند کے تمام امور خدمت سرانجام دے سکتی ہے۔
سر دھوسکتی ہے، اس میں کنگھی کر سکتی ہے، خاوند کا سر گود میں رکھ کر اسے آرام پہنچا سکتی ہے اور کھانا وغیرہ پکا سکتی ہے۔
حدیث سے بالوں میں کنگھی کرنا اور انھیں سنوارنا تو ثابت ہے، لیکن انھیں دھونے کا ذکر اس روایت میں نہیں ہے، دراصل امام بخاری ؒ نے اس روایت کے بیان کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے، کیونکہ اس روایت کے دوسرے طرق سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ بحالت حیض سر مبارک دھوتی تھیں۔
(صحیح بخاري، الحیض، حدیث: 301)
حضرت عائشہ ؓ حیض کے عذر کی وجہ سے مسجد میں نہ آسکتی تھیں۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ کھڑکی سے اپنا سر مبارک باہر نکالتے، حضرت عائشہ ؓ اسے دھو دیتیں اور اس میں کنگھی کر دیتی تھیں۔
لفظ "ترجیل" بالوں کو درست کرنے سے کنایہ ہے، خواہ بالوں کو سنوارنا دھونے کی صورت میں ہو یا کنگھی کرنے کی شکل میں۔

دوسری حدیث میں حضرت عروہ ؓ سے سوال کیا گیا کہ آیا بیوی حیض یا جنابت کی حالت میں اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہےاور اس کے قریب آسکتی ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
انھوں نے بطور دلیل حضرت عائشہ ؓ کی روایت پیش کردی کہ وہ بھی بحالت حیض رسول اللہ ﷺ کے بال سنوار دیا کرتی تھیں، اس میں حائضہ سے خدمت لینے کی وضاحت ہے، لیکن بحالت جنابت خدمت لینے کا مسئلہ اس روایت میں بیان نہیں ہوا۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں حضرت عروہ ؒ نے حیض پر قیاس کرتے ہوئے جنابت کو اس کے ساتھ ملا دیا، کیونکہ حیض قذر اور گندگی ہے۔
جب اس گندگی کی حالت میں خد مت لینے کی اجازت ہے تو جنابت تو ایک معنوی نجاست ہے۔
اس حالت میں تو بدرجہ اولیٰ خدمت لینے کی اجازت ہونی چاہیے اور انھوں نے بال سنوار نے پر دیگر خدمات کو قیاس کر کے اس میں عموم پیدا کیا ہے، اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل بھی معلوم ہوئے۔
حائضہ کا بدن اور پسینہ پاک ہے۔
حائضہ عورت مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی۔
معتکف کے لیے جماع اور اس کے مقدمات ممنوع ہیں۔
(فتح الباری: 521/1)

حائضہ عورت کے اپنے خاوند كا سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں۔
البتہ حضرت ابن عباس ؓ کے متعلق ابن ابی شیبہ ؒ نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا کہ بیٹے تمھارے بال اتنے پراکندہ کیوں ہیں؟ عرض کیا کہ بیوی اُم عمار ہی میرے بال سنوارتی ہےاوروہ ان دنوں حیض میں مبتلا ہے، حضرت میمونہ ؓ نے فرمایا:
حیض اس کے ہاتھ میں سرایت نہیں کر گیا کہ اس سے کوئی خدمت نہ لی جائے۔
رسول اللہ ﷺ آرام کرنے کے لیے ہماری گود میں سر رکھ دیتے تھے، جبکہ ہم حیض میں مبتلا ہوتی تھیں۔
(المصنف لا بن أبي شیبة: 366/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 296   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2028  
2028. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ مسجد میں معتکف ہوتے، آپ میری طرف اپنا سر مبارک جھکا دیتے تو میں آپ کو کنگھی کرتی۔ حالانکہ میں بحالت حیض ہوتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2028]
حدیث حاشیہ:
(1)
سنن نسائی کی روایت میں ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف بیٹھتے تو میرے حجرے کے دروازے پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے تو میں آپ کا سر دھوتی جبکہ آپ کا باقی جسم مسجد ہی میں ہوتا تھا۔
(سنن النسائي، الطھارة، حدیث: 277) (2)
اس سے معلوم ہوا کہ معتکف آدمی، غسل نظافت کر سکتا ہے، اسی طرح خوشبو اور دیگر سامان زینت استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
آپ کا سر مبارک باہر نکالنا اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا بنیادی شرط ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو سر باہر نکالنے کا تکلف نہ کیا جاتا۔
(فتح الباري: 346/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2028   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2029  
2029. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بحالت اعتکاف مسجد میں رہتے ہوئے اپنا سر مبارک میری طرف جھکا دیتے تو میں آپ کو کنگھی کردیتی تھی۔ اور جب آپ معتکف ہوتے تو گھرمیں بلاضرورت تشریف نہ لائے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2029]
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب معتکف ہوتے تو انسانی حاجات کا تقاضا پورا کرنے کے لیے گھر میں آتے تھے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 684 (297)
حافظ ابن حجر ؒ نے امام زہری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے:
اس سے مراد بول و براز ہے۔
اس پر علمائے امت کا اتفاق ہے کہ اگر مسجد میں لیٹرین وغیرہ کا انتظام نہ ہو تو اس قسم کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسان بحالت اعتکاف اپنے گھر آ سکتا ہے، البتہ دیگر حاجات، مثلاً:
کھانے پینے کے متعلق اختلاف ہے کہ اگر گھر سے کھانا لانے والا کوئی نہ ہو تو اس کا گھر میں آنا جائز ہے یا نہیں؟ ہمارے نزدیک ایسے حالات میں گھر آنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ضرورت سے زیادہ گھر میں قیام نہ کرے۔
الغرض ایسی ضروریات کے پیش نظر گھر میں آ سکتا ہے جن کے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو۔
(فتح الباري: 347/4)
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ معتکف کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ کسی ضروری حالت کے علاوہ مسجد سے باہر نہ نکلے۔
مریض کی تیمارداری اور جنازے وغیرہ میں شرکت نہ کرے۔
(سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2473)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2029   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2046  
2046. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے سر مبارک کو دھویا کرتی تھیں۔ حالانکہ وہ بحالت حیض ہوتیں اور آپ ﷺ مسجد میں معتکف ہوتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے حجرے میں ہوتیں، آپ ﷺ اپنا سر مبارک ان کی طرف جھکا دیتے تو وہ اسے دھو دیتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2046]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کا دروازہ مسجد کی طرف کھلتا تھا۔
وہ اپنے حجرے میں تشریف فرما ہوتیں اور آپ کا حجرہ رسول اللہ ﷺ کے نصب کردہ خیمے کے پیچھے تھا۔
آپ حجرے سے باہر مسجد میں تشریف رکھتے صرف دروازے کی چوکھٹ سے اپنا سر مبارک حضرت عائشہ ؓ کی طرف جھکا دیتے تو وہ اسے دھو دیتی تھی۔
یہ بوٹی صفائی کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
(2)
امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ دوران اعتکاف میں سادگی اور ترک زینت مقصود ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ معتکف میلا کچیلا اور گندہ رہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنی نظافت اور صفائی کا خیال رکھے۔
اگر پسینہ وغیرہ آنے سے ماحول کی فضا اور ہوا خراب ہو رہی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ غسل نظافت کرے تاکہ ماحول خوشگوار ہو جائے۔
غسل کی اجازت سے یہ مطلب بھی نہ لیا جائے کہ معتکف سارا دن نہانے دھونے ہی میں لگا رہے۔
خواتین اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اعتکاف عبادت کے لیے ہے، جائے اعتکاف کنگھی پٹی اور فیشن کی نمائش کے لیے تجربہ گاہ نہیں ہے۔
نوٹ:
صلاۃ تراویح، شب قدر اور اعتکاف میں کل انتالیس احادیث بیان ہوئی ہیں۔
ان میں سے صرف دو معلق اور باقی موصول ہیں۔
خالص احادیث کی تعداد نو جبکہ تیس مکرر ہیں۔
دو احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم ؒ نے بھی بیان کیا ہے۔
مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام ؓ اور تابعین عظام ؒ کے آثار بھی مروی ہیں جن کی تعداد چار ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2046   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5925  
5925. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں حالت حیض کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک میں کنگھی کرتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5925]
حدیث حاشیہ:
(1)
بحالت حیض بیوی اپنے شوہر کے سر میں کنگھی کر سکتی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہوتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اپنا سر مبارک قریب کر دیتے جبکہ وہ اپنے حجرے میں ہوتیں تو وہ آپ کے سر میں کنگھی کر دیتیں۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 296)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے اپنا سر مبارک باہر نکال دیتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسے دھو دیتی تھیں۔
(صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث: 2031) (2)
بہرحال ان روایات سے مقصود یہ ہے کہ اگر کسی نے بال رکھے ہوں تو ان کی اصلاح کا ضرور اہتمام کرے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5925