انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ کی جگہ میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث»”اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور جنیوں (کے شر) سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“[سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 19]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 19
19۔ اردو حاشیہ: ➊ دخول سے مراد ارادۂ دخول ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 142] لہٰذا یہ دعا بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے پڑھنی چاہیے۔ بیت الخلا تو گندگی والی جگہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نام کی تقدیس و تنزیہ ضروری ہے، البتہ اگر کوئی بھول جائے اور داخل ہونے کے بعد یا ننگا ہونے کے بعد یاد آئے تو اس میں صحابہ و تابعین کا اختلاف ہے کہ دل میں پڑھ لے یا رہنے دے۔ یا اگر ابھی کپڑے نہیں اتارے تو باہر آکر دعا پڑھ کر داخل ہو جائے۔ ➋ «الخبث و الخبائث» خبائث خبیثۃ کی جمع ہے، مراد جننیاں ہیں۔ خبث ”با“ کے ضمہ کے ساتھ ہو تو خبیث کی جمع ہے، مراد جن ہیں۔ اگر ”با“ کے سکون کے ساتھ ہو تو اس سے مراد ہر ناپسندیدہ اور مکروہ چیز ہے۔ اس طرح اس کے تحت تمام شریر جن، جننیاں، گندے اخلاق و اعمال اور ہر قسم کے نازیبا کلمات و اقوال داخل ہیں، لہٰذا اگر اس ضبط کے ساتھ دعا پڑھی جائے تو انسان مذکورہ ہر قسم کے شر اور مکروہات سے محفوظ رہتا ہے جبکہ جن اور جننیوں سے بچاؤ کی خاطر اس حالت میں بطور خاص دعا کی تلقین اس لیے ہے کہ انہیں گندگی اور بدبو سے یک گو نہ مناسبت ہے اور اس موقع پر وہ نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [شرح الترمذي لأحمد شاکر: 10/1]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 19
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 78
´ گندے مقامات پر گندگی سے انس رکھنے والے جنات بسیرا کرتے ہیں` «. . .: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم إذا دخل الخلاء قال: اللهم إني اعوذ بك من الخبث والخبائث . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: اے اللہ! میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں، خبیث جنوں اور خبیث جنیوں سے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 78]
لغوی تشریح: «إذَا دَخَلَ» یعنی جب بیت الخلا میں داخل ہونے کا ارادہ کرے۔ «اَلْخُبُث»”خا“ اور ”با“ دونوں پر ضمہ ہے اور ”با“ پر سکون بھی پڑھا گیا ہے۔ یہ خبیث کی جمع ہے۔ «اَلْخَبَائِث» «خَبِيْثَةٌ» کی جمع ہے۔ «اوّل» کے معنی نر شیطان اور «ثاني» کے معنی مادہ شیطان کے ہیں۔ اور یہ بھی علم میں رہے کہ بیت الخلا میں مذکورہ دعا کے کلمات دخول سے پہلے پڑھنے چاہئیں، بعد میں نہیں۔ ہاں اگر کھلی فضا ہو، تعمیر شدہ مکان میں بیت الخلا نہ ہو تو رفع حاجت کے لیے نیچے بیٹھتے ہوئے کپڑا اٹھاتے وقت اس دعا کو پڑھنا چاہیے۔
فوائد و مسائل: ➊ گندے مقامات پر گندگی سے انس رکھنے والے جنات بسیرا کرتے ہیں، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا میں داخلے سے پہلے دعا سکھائی ہے۔ ➋ چونکہ انسان کی مقعد (پیٹھ) بھی قضائے حاجت کے وقت گندی ہوتی ہے، اس لیے جنات انسان کو اذیت دیتے اور تکلیف پہنچاتے ہیں، ان سے محفوظ رہنے کے لیے دعا کی تعلیم دی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 78
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 5
´پاخانہ میں جاتے وقت آدمی کیا کہے؟` «. . . قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ . . .» ”. . . اس میں «اللهم إني أعوذ بك» ہے، یعنی ”اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 5]
فوائد و مسائل ➊ محدثین کرام رضی اللہ عنہم کی حفاظت حدیث کے سلسلے میں کاوشوں کی داد دی جانی چاہئیے، دیکھیے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ نقل کرنے میں کس قدر امانت اور دیانت کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایک استاد نے «اللهم اني اعوذبك» بیان کیا ہے تو دوسرے نے جو سنا اور یاد رکھا وہی پیش کر دیا ہے، یعنی «اللهم اني» کی بجائے صرف «اعوذ بالله» اور محدث نے دونوں کے الفاظ الگ الگ بعینہ ویسے ہی یاد رکھے اور بیان کیے۔ ➋ اس حدیث میں تعلیم ہے کہ بیت الخلاء خواہ گھر میں ہو یا جنگل میں ہر موقع پر یہ کلمات پڑھنے چاہئیں۔ ➌ خیال رہے کہ یہ الفاظ بیت الخلاء سے باہر ہی پڑھے جائیں کیونکہ بیت الخلاء، اللہ کے ذکر کا مقام نہیں ہے۔ اگر جنگل میں ہو تو کپڑا اتارنے سے قبل یہ الفاظ کہے جائیں۔ ➍ محدثین بیان کرتے ہیں کہ دعا کے الفاظ میں «الخبث» کو اگر «با» کے ضمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ «خبث» مذکر کی جمع ہے۔ اور «خبائث، خبيثة» مونث کی۔ مراد ہے کہ جنوں میں مذکر و مونث افراد۔ اور اگر «خبث» کی «با» کو ساکن پڑھا جائے تو معنی ہو گا: ” اے اللہ! میں تمام مکروہات، محرمات، برائیوں اور گندگیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 142
´بیت الخلاء جانے کے وقت کیا دعا پڑھنی چاہیے؟` «. . . قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ "، تَابَعَهُ ابْنُ عَرْعَرَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، وَقَالَ غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ: إِذَا أَتَى الْخَلَاءَ، وَقَالَ مُوسَى، عَنْ حَمَّادٍ، إِذَا دَخَلَ، وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ . . . .» ”. . . انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (قضائے حاجت کے لیے) بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ (دعا) پڑھتے «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث» اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَا يَقُولُ عِنْدَ الْخَلاَءِ:: 142]
� تشریح: اس حدیث میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعا پڑھنا مذکور ہے اور مسلم کی ایک روایت میں لفظ «امر» کے ساتھ ہے کہ جب تم بیت الخلاء میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھو۔ «بسم الله اعوذ بالله من الخبث والخبائث» ان لفظوں میں پڑھنا بھی جائز ہے۔ «خبث» اور «خبائث» سے ناپاک جن اور جنیاں مراد ہیں۔ حضرت امام نے فارغ ہونے کے بعد والی دعا کی حدیث کو اس لیے ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کی شرطوں کے موافق نہ تھی۔ جسے ابن خزیمہ اور ابن حبان نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ آپ فارغ ہونے کے بعد «غفرانك» پڑھتے۔ اور ابن ماجہ میں یہ دعا آئی ہے «الحمدلله الذى اذهب عني الاذي وعافاني»”(سب تعریف) اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھ کو عافیت دی اور اس گندگی کو مجھ سے دور کر دیا“ فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 142
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6322
6322. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب بیت الخلاء میں جاتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اے اللہ! میں نر اور مادہ خبیث جنات ست تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6322]
حدیث حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ پاخانہ کے اندر گھسنے سے پہلے یہ دعاپڑھی جائے پاخانہ کے اندر ذکر الٰہی جائز نہیں ہے۔ خبیث اور خبائث کے الفاظ ہر گندی حرکتوں اور گندے جنوں، بھوتوں، بھوتنیوں کو شامل ہیں۔ استاد الھند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ ”قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الحشوش مختضرۃ فاذا اتی احدکم الخلاء لیقل اعوذب اللہ من الخبث والخبائث واذا خرج من الخلاء قال غفرانک اقول یستحب ان یقول عند الدخول اللہم انی اعوذبک الخ لان الحشوش محتضرۃ یحضرھا الشیاطین لانہم یحبون النجاسۃ محتضرۃ کما ان یحضرھا الجن والشیٰطین یرصدون بنی آدم با لاٰذی والفساد“(حجۃ اللہ) خلاصہ یہ کہ بیت الخلاء میں جنات حاضر ہوتے ہیں جو انسانوں کو تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں اس لئے ان دعاؤں کا پڑھنا مستحب قرار دیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6322
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 5
´بیت الخلاء (پاخانہ) میں داخل ہونے کے وقت کی دعا۔` انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے پاخانہ میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبيث أو الخبث والخبائث»”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی سے اور ناپاک شخص سے، یا ناپاک جنوں سے اور ناپاک جنیوں سے“۱؎۔ شعبہ کہتے ہیں: عبدالعزیز نے دوسری بار «اللهم إني أعوذ بك» کے بجائے «أعوذ بالله» کہا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 5]
اردو حاشہ: 1؎: مذکورہ دعا پاخانہ میں داخل ہونے سے پہلے پڑھنی چاہئے، اور اگر کوئی کھلی فضا میں قضائے حاجت کرنے جا رہا ہو تو رفع حاجت کے لیے بیٹھتے ہوئے کپڑا اٹھانے سے پہلے یہ دعا پڑھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 5
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 6
´بیت الخلاء (پاخانہ) میں داخل ہونے کے وقت کی دعا۔` انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو پڑھتے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث»”اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 6]
اردو حاشہ: 1؎: گندی جگہوں میں گندگی سے اُنس رکھنے والے جن بسیرا کرتے ہیں، اسی لیے نبی کریم ﷺ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت نا پاک جنوں اور جنیوں سے پناہ مانگتے تھے، انسان کی مقعد بھی قضائے حاجت کے وقت گندی ہوتی ہے اس لیے ایسے مواقع پر خبیث جن انسان کو اذیت پہنچاتے ہیں، اس سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 6
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 831
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے حماد کے الفاظ ہیں: کَانَ رَسُوْلُ اللہ ﷺ إِذَا دَخَلَ الخَلَاءَ، رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے، اور ہشیم کے الفاظ ہیں: أَنَّ رَسُولَ اللہ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْکَنِیْفَ، بے شک جب رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو فرماتے: اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ اے اللہ! میں مذکر اور مؤنث جنات سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:831]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) كَنِيْف: ٹائلٹ، لیٹرین۔ خبث: خبيث کی جمع ہے، جن، شیطان یا گندی اور نجس حرکت، قول ہو یا فعل۔ (2) خَبَائِث: خبيثة کی جمع ہے، مؤنث شیطان، اس سے مراد معاصی اور افعال مذمومہ بھی ہوتے ہیں۔ فوائد ومسائل: پیشاب و پاخانہ کی جگہیں ناپاک اور نجس ہوتی ہیں، اس لیے مذکر و مؤنث شیاطین ان جگہوں میں آتےجاتے رہتے ہیں اس لیے قضائے حاجت سے پہلے یہ دعا پڑھ لیتی چاہیے تاکہ انسان اس تکلیف وہ مخلوق سے محفوظ رہے حدیث کا اصل مقصد یہی ہے اگرچہ لفظ کے عموم کے اعتبار سے نجاستوں اور معاصی سے پناہ مانگنا بھی ضمنی طور پر اس میں داخل ہو سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 831
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:142
142. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب بیت الخلا جاتے تو فرماتے: ”اے اللہ! میں ناپاک چیزوں اور ناپاکیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ ابن عرعرہ نے اس حدیث کی شعبہ سے بیان کرنے میں متابعت کی ہے۔ اور غندر نے شعبہ سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: جب آپ بیت الخلا کے لیے آتے۔ (دخل کے بجائے أتى کا لفظ استعمال کیا۔) اور موسیٰ نے حماد کے واسطے سے بیان کیا: جب داخل ہوتے۔ اور سعید بن زید نے کہا: ہمیں عبدالعزیز نے بیان کیا کہ جب آپ بیت الخلا جانے کا ارادہ فرماتے (تو مذکورہ دعا پڑھتے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:142]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس دعا کا دوسرا ترجمہ یہ ہے: ” اے اللہ میں خبیث جنوں اور جننیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “ واضح رہے کہ یہ ا لفاظ کہنے میں کچھ تفصیل ہے: اگر قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا جانا ہے تو جانے سے پہلے اس دعا کو پڑھنا چاہیے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے بعد متابعت میں اس کی صراحت کردی ہے نیز الادب المفرد میں بھی”جب بیت الخلا میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے“ کی صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ پھر اگر کھلے میدان میں اس کی نوبت آئے تو چونکہ وہاں گندگی نہیں ہوتی اور نہ وہاں شیاطین ہی کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے وہاں بیٹھتے وقت کپڑا اٹھانے سے پہلے پڑھنا چاہیے، البتہ جب انسان قضائے حاجت میں مصروف ہوجائے تو دعائیہ کلمات نہیں پڑھنے چاہییں۔ (فتح الباري: 321/1) 2۔ بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اگر دعا پڑھنا بھول جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ دل میں پڑھے؟ زبان سے پڑھ لے یا کچھ نہ پڑھے؟ اس بارے میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں: سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ قضائے حاجت کی جگہ ذکر کرنے کے جواز کے قائل ہیں، گویا ان کے نزدیک زبان سے بھی دعا پڑھنی جائز ہو گی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، عطاء اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک قضائے حاجت کے وقت اور جگہ پر اللہ کا ذکر کرنا ناپسندیدہ ہے۔ امام عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دل میں پڑھے زبان سے ادا نہ کرے۔ (عمدة القاري: 384/2، و مصنف ابن ابی شیبہ: 209/1) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو جمہور کی طرف منسوب کیا ہے۔ لیکن دلائل سے اس کی تائید نہیں ہوتی اور ہمیں تلاش بسیار کے بعد سلف میں سے اس قول کا قائل عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ معلوم نہیں ہوسکا۔ ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ اگر بھول کی تلافی ممکن ہو تو باہر نکل کر دعا پڑھ کر دوبارہ داخل ہو جائے، ورنہ اسے بھول کی بنا پر معذور سمجھا جائے گا۔ وجہ ترجیح یہ ہے کہ ایسی جگہ اور وقت میں اللہ کا ذکر بہرصورت ناپسندیدہ ضرور ہے۔ اور جہاں تک دل میں استحضار کا تعلق ہے تو ادعیہ ماثورہ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اذکار اور دعاؤں کا تعلق زبان سے ادا کرنے کا ہے اور کوئی بھی دعا ایسی نہیں جسے محض دل میں استحضار کا حکم ہو۔ ھذا ما عندنا واللہ أعلم بالصواب۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 142
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6322
6322. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب بیت الخلاء میں جاتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اے اللہ! میں نر اور مادہ خبیث جنات ست تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6322]
حدیث حاشیہ: بیت الخلاء میں جانے سے پہلے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ ایسے گندے مقامات پر خبیث جنوں کا بسیرا ہوتا ہے جو انسانوں کو کسی نہ کسی بہانے تکلیف پہنچاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ جب انسان یہ دعا پڑھ لیتا ہے تو خبیث جنات کی خباثتوں اور شرارتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6322