رافع بن اسحاق سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مصر میں ان کے قیام کے دوران کہتے سنا: اللہ کی قسم! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کھڈیوں کو کیا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جب تم میں سے کوئی پاخانے یا پیشاب کے لیے جائے تو قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرے۔“[سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 20]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 20
20۔ اردو حاشیہ: ➊ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں مصر کی بجائے شام کا ذکر ہے۔ [صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 394، و صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث: 364] ممکن ہے دونوں جگہ یہ صورت حال پیش آئی ہو ورنہ صحیحین کی روایت کو ترجیح ہو گی۔ ➋ ”منہ کرے، نہ پیٹھ“۔ ظاہر الفاظ تو ہر جگہ ممانعت پر دلالت کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی یہی ہے، احتیاط بھی اسی میں ہے، اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حکم کو صحرا کے ساتھ خاص قرار دیا ہے، یعنی عمارت (چار دیواری) کے اندر قبلہ رخ ہو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے تو بیت الخلا میں بھی قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا منع سمجھا ہے۔ مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 20
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 84
´قضائے حاجت اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہونا منع ہے` «. . . وعن سلمان رضى الله عنه قال: لقد نهانا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ان نستقبل القبلة بغائط او بول، او ان نستنجي باليمين، اوان نستنجي باقل من ثلاثة احجار، او ان نستنجي برجيع او عظم . . .» ”. . . سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا کہ ”ہم قضائے حاجت اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہوں یا دائیں ہاتھ سے استنجاء کریں یا تین ڈھیلوں سے کم سے استنجاء کریں یا گوبر، لید اور ہڈی سے استنجاء کریں . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 84]
� لغوی تشریح: «نَسْتَنْجِي» «اَلْاِسْتِنْجَاء» سے ماخوذ ہے، یعنی پتھر یا پانی سے گندگی کو دور کرنا۔ «اَلنَّجو» اس گندگی کو کہتے ہیں جو مقعد سے خارج ہوتی ہے۔ «اَلرَّجِیع» لید یا گوبر۔
راویٔ حدیث: (سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابوعبداللہ اور لقب سلمان الخیر ہے۔ اصل میں ان کا تعلق فارس سے تھا۔ دین (حق) کی تلاش میں گھر سے نکلے اور نصرانی (عیسائی) بن گئے۔ پھر مدینہ میں منتقل ہو گئے۔ مدینہ میں آتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسے بڑی اچھی طرح نبھایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مدائن کا والی مقرر کیا۔ محنت مزدوری کر کے جو کچھ کماتے اسے راہِ الٰہی میں خیرات کر دیتے۔ مدینے میں 32 یا 33 ہجری کو وفات پائی۔ ان کی عمر 250 یا 350 برس بیان کی جاتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 84
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 85
´قضائے حاجت اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رخ نہ بیٹھو` «. . . وللسبعة من حديث ابي ايوب الانصاري رضي الله عنه:فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها، ببول او غائط، ولكن شرقوا او غربوا . . .» ”. . .سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”قضائے حاجت اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رخ نہ بیٹھو اور نہ اس کی طرف پشت کرو، بلکہ مشرق یا مغرب کی جانب کرو . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 85]
� لغوی تشریح: «لَا تَسْتَدْبِرُوْھَا» اس کی طرف پشت نہ کرو۔ «وَلٰکِنْ شَرِّقُوْا أَوْ غَرِّبُوْا» تشریق وتغریب سے امر کے صیغے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قضائے حاجت کے وقت اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کرو۔ یہ خطاب اہل مدینہ سے ہے۔ ان کا قبلہ بجانب جنوب پڑتا ہے۔ اہل مدینہ یا اسی طرح کے دوسرے لوگ جن کا قبلہ جنوب یا شمال میں پڑے گا، وہ اپنے رخ مشرق یا مغرب کی طرف کریں گے، اس طرح وہ لوگ استقبال اور استدبار دونوں سے بچ جائیں گے۔ اور جن کا قبلہ مشرق یا مغرب ہو گا تو وہ اپنا رخ شمال یا جنوب کی طرف کریں گے۔ چونکہ استقبال و استدبار قبلہ سے بچنے کے لیے ہی اہل مدینہ کو مشرق اور مغرب کا رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے حکم کا دار ومدار اسی علت وسبب پر ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث میں «لَا تَسْتَقْبِلُوْا الْقِبْلَةَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوھَا» کا حکم نہی ایسی جگہ کے لیے ہے جہاں کوئی اوٹ وغیرہ نہ ہو اور کھلا میدان ہو۔ ➋ گھروں میں جہاں آدمی کے سامنے دیوار وغیرہ حائل ہو وہاں کے لیے یہ حکم نہیں ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے واضح ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں اپنی ہمشیرہ سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے حجرے کی چھت پر کسی ذاتی ضرورت کے لیے چڑھا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر رہے تھے اور اس وقت آپ کا رخ شام کی طرف تھا اور پشت بیت اللہ کی جانب۔ [صحيح مسلم، الطهارة، باب الاستطابة، حديث: 265] ➌ مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قضائے حاجت کے وقت اپنا رخ قبلے کی طرف کرے نہ پشت۔ یہ حکم اہل مدینہ کے لیے مخصوص ہے، اس لیے کہ ان کے لیے قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے۔ راوی حدیث: (سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ) ابوایوب ان کی کنیت ہے۔ ان کا نام خالد بن زید بن کلیب ہے۔ مدینہ میں تشریف آوری کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ان کے دولت کدہ پر فروکش ہوئی تھی۔ آپ کا شمار جلیل القدر اور اکابر صحابہ میں ہوتا ہے۔ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ ارض روم میں جہاد کرتے ہوئے 50 ہجری میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی قبر دیوار قسطنطینیہ کے زیر سایہ ہے۔ یہ جگہ یزار کے نام سے مشہور ومعروف ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 85
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 9
´قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ ہے` «. . . قَالَ: إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلا بَوْلٍ وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ تو پاخانہ اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف رخ کر لیا کرو۔“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 9]
فوائد و مسائل ➊ مدینہ منورہ میں قبلہ چونکہ جنوب کی طرف ہے اس لیے انہیں مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا، لہٰذا جن علاقوں میں قبلہ مغرب یا مشرق کی طرف بنتا ہے انہیں شمال یا جنوب کی طرف رخ کرنا ہو گا۔ ➋ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ اس نہی کو عام سمجھتے تھے اور شہر یا جنگل میں تفریق کے قائل نہ تھے اور بہت سے اہل علم کا یہی مذہب ہے اور یہی راجح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 9
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 144
´پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن جب کسی عمارت یا دیوار وغیرہ کی آڑ ہو تو کچھ حرج نہیں` «. . . عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ فَلَا يَسْتَقْبِل الْقِبْلَةَ وَلَا يُوَلِّهَا ظَهْرَهُ، شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا . . .» ”. . . وہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کر لو یا مغرب کی طرف . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ لاَ تُسْتَقْبَلُ الْقِبْلَةُ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ إِلاَّ عِنْدَ الْبِنَاءِ جِدَارٍ أَوْ نَحْوِهِ: 144]
� تشریح: یہ حکم مدینہ والوں کے لیے خاص ہے۔ کیونکہ مدینہ مکہ سے شمال کی طرف واقع ہے۔ اس لیے آپ نے قضاء حاجت کے وقت پچھم یا پورب کی طرف منہ کرنے کا حکم فرمایا۔ یہ بیت اللہ کا ادب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے عنوان سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ اگر کوئی آڑ سامنے ہو تو قبلہ کی طرف منہ یا پشت کر سکتا ہے۔ آپ نے جو حدیث اس باب میں ذکر کی ہے وہ ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہوتی کیونکہ حدیث سے مطلق ممانعت نکلتی ہے اور ترجمہ باب میں عمارت کو مستثنیٰ کیا ہے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ آپ نے یہ حدیث محض ممانعت ثابت کرنے کے لیے ذکر کی ہے اور عمارت کا استثناء آگے والی حدیث سے نکالا ہے جو ابن عمر سے مروی ہے۔ بعضوں نے لفظ «غائط» سے صرف میدان مراد لیا ہے اور اس ممانعت سے سمجھا گیا کہ عمارت میں ایسا کرنا درست ہے۔
حضرت مولانا شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارک پوری نے اس بارے میں دلائل طرفین پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے اپنا آخری فیصلہ یہ دیا ہے: «وعندي الاحتراز عن الاستقبال والاستدبار فى البيوت احوط وجوبا لاندبا» یعنی میرے نزدیک بھی وجوباً احتیاط کا تقاضا ہے کہ گھروں میں بھی بیت اللہ کی طرف پیٹھ یا منہ کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ [مرعاة،جلد اول، ص: 241] علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ صاحب تحفۃ الاحوذی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 144
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 394
394. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو اور نہ اس کی طرف اپنی پشت ہی کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لو۔“ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم ملک شام گئے تو ہم نے وہاں بیت الخلا قبلہ رخ پائے، چنانچہ ہم وہاں ترچھے ہو کر بیٹھتے اور حق تعالیٰ سے اس پر معافی مانگتے۔ امام زہری ؓ حضرت عطاء سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ایوب ؓ سے سنا، انھوں نے نبی ﷺ سے اس (روایت) کے مثل بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:394]
حدیث حاشیہ: اصل میں یہ حدیث ایک ہے جو دوسندوں سے روایت ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ سفیان نے علی بن عبداللہ مدینی سے یہ حدیث دوبار بیان کی، ایک بار میں توعن عطاءعن أبي أیوب کہا، اور دوسری بار میں سمعت أباأیوب کہا تو دوسری بار میں عطاء کے سماع کی ابوایوب سے وضاحت ہوگئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 394
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 144
´ پاخانہ کے وقت قبلہ رخ ہونے سے بچنا ضروری ہے` «. . . عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ فَلَا يَسْتَقْبِل الْقِبْلَةَ وَلَا يُوَلِّهَا ظَهْرَهُ، شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا . . .» ”. . . ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کر لو یا مغرب کی طرف . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ لاَ تُسْتَقْبَلُ الْقِبْلَةُ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ إِلاَّ عِنْدَ الْبِنَاءِ جِدَارٍ أَوْ نَحْوِهِ: 144]
تخريج الحديث: [149۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 29 باب قبلة أهل المدينة وأهل الشام والمشرق 144، مسلم 264] لغوی توضیح: «الْغَائِط» پاخانہ۔ «شَرِّقُوْا» مشرق کی جانب رخ کر لو۔ «غَرِّبُوْا» مغرب کی جانب رخ کر لو۔ «مَرَاحِيْضَ» جمع ہے «مِرْحَاض» کی، معنی ہے بیت الخلاء۔ «نَنْحَرِفُ» ہم مڑتے، ٹیڑھے ہوتے۔ فھم الحدیث: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرق یا مغرب کی جانب رخ یا پشت کر کے قضائے حاجت نہیں کرنی چاہیے جبکہ آئندہ دونوں احادیث بظاہر اس کے خلاف ہیں۔ ان میں تطبیق کا پہلو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یوں نکالا ہے کہ (اگر صحراء یا کھلی زمین ہو تو قبلہ رخ ہونے سے بچنا ضروری ہے، لیکن) اگر تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی اوٹ ہو (یعنی عمارت یا تعمیر شدہ بیت الخلاء) تو پھر اس (قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت کرنے) میں کوئی حرج نہیں۔ [حسن: صحيح أبوداود 8، كتاب الطهارة: باب الرخصة فى ذلك، أبوداود 11]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 149
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 21
´قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے کی ممانعت۔` ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاخانہ و پیشاب کے لیے قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرو، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف کرو۔“[سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 21]
21۔ اردو حاشیہ: ➊ ”مشرق یا مغرب کی طرف کرو“ ان الفاظ کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کا قبلہ مشرق یا مغرب کی طرف نہیں جیسے کہ اہل مدینہ ہیں، ان کا قبلہ جنوب کی جانب ہے۔ پاک و ہند کے لوگ شمال یا جنوب کو منہ کریں گے۔ ➋ کھلے میدان میں قضائے حاجت کے وقت قبلے کی طرف منہ کرنا بھی منع ہے اور پیٹھ کرنا بھی کیونکہ ایسا کرنا احترام قبلہ کے منافی ہے جبکہ چاردیواری کے اندر قبلہ رخ منہ یا پیٹھ ہو سکتی ہے جیسا کہ بعض احادیث میں آتا ہے، لیکن افضل اور احوط یہی ہے کہ وہاں بھی منہ یا پیٹھ کرنے سے بچا جائے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 21
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث318
´پیشاب اور پاخانے میں قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے۔` ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا، اور فرمایا: ”مشرق (پورب) کی طرف منہ کرو، یا پچھم کی طرف“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 318]
اردو حاشہ: (1) مدینہ منورہ سے بیت اللہ شریف جنوب کی طرف ہے اس لیے جو شخص جنوب کی طرف منہ کرے اس کا منہ قبلہ کی طرف ہوگا اور جو شخص شمال کی طرف منہ کرے اس کی پشت قبلہ کی طرف ہوگی جب کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے سے قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہیں ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے لحاظ سے مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا۔ جو مقامات کعبہ شریف سے مشرق یا مغرب میں واقع ہیں ان کے لیے شمال یا جنوب کی طرف منہ کرنا درست ہوگا۔ اورمشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنا ممنوع ہوگا کیونکہ اصل وجہ کعبہ کی طرف منہ یا پشت ہونا ہے نہ کہ کسی خاص سمت کو اہمیت دینا۔
(2) اگلے باب کی احادیث سے واضح ہے کہ یہ پابندی کھلے مقام کے لیے ہے بیت الخلاء اگر اس رخ بنے ہوئے ہوں تو ان میں بیٹھنا جائز ہے تاہم بیت الخلاء بناتے وقت اگر یہ خیال رکھا جائے کہ وہ قبلہ رخ نہ ہوں تو بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 318
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 8
´پیشاب یا پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت۔` ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرو اور نہ پیٹھ، بلکہ منہ کو پورب یا پچھم کی طرف کرو“۱؎۔ ابوایوب انصاری کہتے ہیں: ہم شام آئے تو ہم نے دیکھا کہ پاخانے قبلہ رخ بنائے گئے ہیں تو قبلہ کی سمت سے ترچھے مڑ جاتے اور ہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 8]
اردو حاشہ: 1؎: یہ خطاب اہل مدینہ سے اور ان لوگوں سے ہے جن کا قبلہ مدینہ کی سمت میں مکہ مکرمہ اور بیت اللہ الحرام سے شمال والی جانب واقع ہے، اور اسی طرح مکہ مکرمہ سے جنوب والی جانب جن کا قبلہ مشرق (پورب) یا مغرب (پچھم) کی طرف ہے وہ قضائے حاجت کے وقت شمال یا جنوب کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 8
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:382
382- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ نہ کرو، بلکہ (مدینہ منورہ کے حساب سے) مشرق یا مغرب کی جانب رخ کرو۔“ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ شام آئے، تو وہاں ہم نے ایسے بیت الخلاء دیکھے، جو قبلہ کی سمت میں بنائے گئے تھے، تو ہم ذرا ٹیڑھے ہوکر بیٹھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کیا کرتے تھے۔ سفیان سے کہا گیا، نافع بن عمر نامی راوی اس کی سند بیان نہیں کرتے ہیں، تو سفیان نے کہا: مجھے تو یہ روایت یاد ہے اور میں اس کی سند وہی بیان کرتا ہوں جو میں نے تمہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:382]
فائدہ: اس حدیث میں قضائے حاجت کے وقت بیت اللہ کی طرف منہ اور پشت کرنے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر درمیان میں دیوار حائل ہو، تب اس کی رخصت ہے، اس کو محدثین (امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ) نے ترجیح دی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 382
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 609
حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب تم قضائے حاجت کرنے لگو، تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو! اور نہ اس کی طرف پشت کرو، پیشاب کرنا ہو یا پاخانہ، لیکن مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا کرو۔“ ابو ایوب ؓ نے کہا: ہم شام گئے، تو ہم نے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے پائے، تو ہم ان سے انحراف کرتے (پہلو بدلتے) اور اللہ سے معافی طلب کرتے تھے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:609]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا: کہ مشرق کی طرف رخ کرو، یا مغرب کی طرف، اس کے مخاطب اہل مدینہ ہیں، کیونکہ ان کا قبلہ مشرق یا مغرب کی سمت میں نہیں پڑتا۔ جن کا قبلہ مشرق یا مغرب ہے، وہ اس کے مخاطب نہیں ہیں۔ (2) مَرَاحِيضَ: مرحاض کی جمع ہے۔ بَيْتُ الْخَلَاء: لیٹرین۔ نَنْحَرِفُ عَنْهَا: کے مختلف معانی کیے گئے ہیں: ہم ان کو استعمال نہ کرتے، جہتِ قبلہ سے انحراف کر لیتے، جہاں تک ممکن ہوتا، پہلو بدل لیتے۔ (3) نَسْتَغْفِرُ اللهَ: انحراف کے باوجود کچھ نہ کچھ قبلہ رخ رہ جانے سے معافی طلب کرتے، مادی گندگی سے گناہ یاد آ جاتے، اس لیے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ شام کے لوگ جنہوں نے یہ مراحیض بنائی تھیں وہ کافر تھے، اس لیے ان کے لیے معافی طلب کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ (قبلہ کی طرف رخ یا پشت کرنے کے بارے میں علماء کی آراء آگے آ رہی ہیں)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 609
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:144
144. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو قبلے کی طرف نہ منہ کرے اور نہ پشت، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:144]
حدیث حاشیہ: 1۔ عنوان بندی کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت ہے کہ وہ ان کے ذریعے سے بظاہر دومتعارض احادیث کے درمیان تطبیق کی صورت بیان کرتے ہیں۔ یہی صورت حال اس جگہ ہے۔ مذکورہ روایت تحریم پر دلالت کرتی ہے کہ کسی صورت میں کعبے کی طرف قضائے حاجت کے وقت نہ منہ کرنا جائز ہے اور نہ اس کی طرف پشت ہی کرنا جائز ہے۔ اور اگلی روایت، جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اس میں تفریق ہے کہ اگر صحرا میں قضائے حاجت کی ضرورت ہو تو کعبے کی طرف منہ اور پشت کرنا منع ہے لیکن عمارات یا چاردیواری کے اندر جائز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں تعارض بایں طور ختم کیا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو فضا کے ساتھ خاص کردیا ہے۔ کہ جنگلات یا میدان میں کعبے کی طرف منہ اور پشت کرنا دونوں ہی منع ہیں، البتہ اگر دیوار کی آڑ ہو یا بیت الخلاء کسی عمارت میں ہو تو کوئی حرج نہیں۔ 2۔ قبلے کی طرف منہ یا پشت کرکے قضائے حاجت کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ یہ مسئلہ سلف صالحین سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے اور اس کی وجہ جواز اور عدم جواز کے دلائل کا بظاہر متعارض ہونا ہے۔ جہاں تک کھلی فضا میں قضائے حاجت کا تعلق ہے تو اس صورت میں بالاتفاق منہ اور پشت کرنا دونوں ممنوع ہیں، تاہم اگر قضائے حاجت کرنے والا کسی عمارت وغیرہ میں ہو تو اس صورت میں اختلاف ہے۔ علماء کی اس بارے میں درج ذیل چار رائے ہیں: (الف) ۔ منہ اور پشت دونوں ممنوع ہیں، خواہ صحرا ہو یا عمارت۔ ان کی دلیل ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درج بالا روایت ہے اور وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت پر محمول کرتے ہیں۔ (ب) ۔ کھلی فضا اور عمارات میں قبلے کی طرف منہ اور پشت کرنا دونوں امر جائز ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ناسخ اور ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث منسوخ ہے۔ اور بعض نے اس کے برعکس بھی کہا ہے۔ (ج) ۔ قبلہ رخ منہ کرنا صحرا اورعمارت دونوں میں منع ہے البتہ عمارت میں پشت کی جا سکتی ہے اس موقف کی دلیل بھی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما ہے۔ ان حضرات کےنزدیک کیونکہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں کعبے کی طرف صرف پشت کرنے کا ذکر ہے۔ اس لیے پشت کرنا عمارت میں جائز ہے۔ (د) ۔ کھلی فضا میں قبلے کی طرف منہ اور پشت کرنا، دونوں ممنوع ہیں اور عمارات وغیرہ میں دونوں کا جواز ہے۔ البتہ بچنا افضل ہے۔ ان کی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی آئندہ حدیث اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنن ابی داؤد وغیرہ(حدیث: 13) کی احادیث ہیں جن میں عمارات میں استقبال اور استدبار دونوں کا جواز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ باب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہی چوتھا موقف راجح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ دیگرمحدثین کے قائم کردہ ابواب سے ان کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس موقف کی وجہ ترجیح یہ ہے کہ پہلا موقف اس لیے درست نہیں کہ کسی بھی فعل میں اصل عدم تخصیص ہے، خصوصیت قراردینے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے جویہاں نہیں ہے۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سےعموم ہی سمجھا ہے، اسے آپ کی خصوصیت قرار نہیں دیا۔ دوسرا موقف اس لیے مرجوح ہے کہ بظاہر تاہم متعارض احادیث میں سب سے پہلے تطبیق دی جاتی ہے نہ کہ ناسخ ومنسوخ دیکھا جاتا ہے۔ جب تطبیق ممکن ہوتو پھر ناسخ ومنسوخ نہیں دیکھا جاتا اور یہاں تطبیق ممکن ہے۔ تیسرا موقف، جس میں منہ اور پشت کا فرق ملحوظ رکھا گیا ہے، بھی مرجوح ہے کیونکہ استقبال اور استدبار ایک ہی چیز ہے، پھر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے ایک سال پہلے دیکھا کہ آپ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت کر رہے تھے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 13) اس لیے استقبال اور استدبار کا فرق بھی درست نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں وارد ممانعت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی احادیث میں مذکور آپ کا فعل بیان جواز کے لیے ہو گا کہ بہتر اور افضل یہی ہے کہ میدانی علاقہ ہو یا عمارت ہر دو صورتوں میں قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت سے اجتناب کیا جائے، تاہم اگر عمارت میں کوئی ایسا کرلے تو وہ گناہگار نہ ہو گا۔ اس کی تائید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من لم يستقبل القبلة ولم يستدبرها في الغائط كُتِب له حسنة ومُحي عنه سيئة»”جو شخص قضائے حاجت کرتے وقت قبلے کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرے اس کے لیے (ہربار) ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اور اس کی ایک بُرائی مٹا دی جاتی ہے۔ “(المعجم الأوسط للطبراني: 362/1، حدیث: 1321، و الصحیحة للألباني: 88/3) 3۔ قضائے حاجت کے وقت مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے کا خطاب اہل مدینہ سے ہے کیونکہ مدینہ منورہ کے اعتبار سے قبلہ جنوب کی طرف ہے۔ برصغیر میں رہنے والوں کے لیے قبلہ مغرب کی طرف ہے، لہذا ہمارے لیے جنوب اور شمال کی طرف منہ کرنے کی ہدایت ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الصلاۃ، باب: 29 میں وضاحت کی ہے کہ مشرق ومغرب میں کوئی قبلہ نہیں ہے، شاید اس سے ان لوگوں کا قبلہ مراد ہے جو مکے سے جنوب یا شمال میں رہتے ہیں۔ (فتح الباري: 324/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 144
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:394
394. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو اور نہ اس کی طرف اپنی پشت ہی کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لو۔“ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم ملک شام گئے تو ہم نے وہاں بیت الخلا قبلہ رخ پائے، چنانچہ ہم وہاں ترچھے ہو کر بیٹھتے اور حق تعالیٰ سے اس پر معافی مانگتے۔ امام زہری ؓ حضرت عطاء سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ایوب ؓ سے سنا، انھوں نے نبی ﷺ سے اس (روایت) کے مثل بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:394]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ نے مدینے کے مشرقی جانب والے شہروں کا قبلہ بتایا ہے جب کہ مغربی جانب والوں کا بھی قبلہ یہی ہے۔ اس کے متعلق ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ یہاں مشرق کا ذکر اکتفا کی قبیل سے ہے۔ کیونکہ مراد مشرق ومغرب دونوں ہیں، یعنی أحد المتقابلین کے ذکر پر اکتفا کرلیا یا اس لیے صرف مشرق کاذکر ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی زیادہ تر اسی جانب تھی، مغرب میں اتنے مسلمان نہیں تھے۔ (شرح ابن بطال: 55/2) 2۔ امام بخاری ؒ نے جس حدیث کو مدار استدلال بنایا ہے اس میں یہ ہے کہ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت نہ کرو اور نہ پشت ہی اس طرف کرو بلکہ قضائے حاجت کرتے وقت مشرق یامغرب کی طرف منہ کرو۔ اس سے معلوم ہوا مدینہ منورہ اور اس کے مشرق ومغرب میں واقع شہروں کا قبلہ جنوب ہے۔ اس لیے ان کے لیے جنوب کی جہت بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے نہ پشت۔ ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ اور اس کے مشرقی شہروں کےعلاوہ جو شہر مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع ہیں ان کا قبلہ بھی جنوب یا شمال ہے مشرق ومغرب نہیں، لہذا ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے، سوائے ان لوگوں کے جو کعبے کی”سیدھ“ میں مشرق سے مغرب تک واقع ہیں، ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف منہ یا پشت کرنا جائز نہیں۔ (شرح ابن بطال: 54/2) اب اگرامام بخاریؒ کی مراد صرف اہل مدینہ، اہل شام اور مدینے سے مشرق کی طرف والے بلادعرب ہوں تو بات صاف ہے اور اگرابن بطال والی توجیہ مراد ہوتو بھی کوئی حرج نہیں کہ مشرق ومغرب سے مراد مشرق ومغرب کی تمام سمتیں ہوسکتی ہیں۔ ٹھیک درمیانی خط مشرق اور خط مغرب کو چھوڑ کر جنوب وشمال کی طرف تھوڑا سا انحراف بھی بول وغائط کے وقت کافی ہے اور یہی تشریق وتغریب ہے جس میں خانہ کعبہ کی تعظیم کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ چونکہ ٹھیک درمیانی خط والے بہ نسبت دوسروں کے بہت کم لوگ ہیں ان کی طرف گویا اس عام حکم میں کچھ تعرض نہیں کیا گیا۔ اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ توجہ الی الکعبہ کے لحاظ سے ساری دنیا کے لوگوں کی مثال مرکز کے گرد دائرے کی ہے۔ اب جو شخص کعبے سے مغربی جانب ہے اس کا قبلہ مشرق ہوگا اور جو مشرق کی جانب ہے اس کا قبلہ مغرب ہوگا۔ اگرروئے زمین کو دائرہ خیال کیاجائے توظاہر ہے کہ محیط کی طرف وسعت اورپھیلاؤ اور مرکز کی جانب تنگی اور سمٹاؤ ہوگا۔ انحراف کی صورت میں جہت قبلہ سے وہ انحراف مانا جائے گا جو ربع دائرہ کے بقدر ہو، کیونکہ کسی بھی دائرے کا مرکز سے زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ربع تک ہی ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں خواہ مرکز سے جوانب دائرہ تک فاصلہ ایک میل ہو یا ہزاروں میل کا۔ اس بنا پر کعبے سے اوجھل نماز پڑھنے والے کا شرعی حکم ایک ہی رہے گا، خواہ وہ کعبے سے کتنے ہی فاصلے پر ہو کہ دائرہ کے چوتھائی (نوے درجے) سے کم انحراف ہوتواس کی نماز درست ہواور نوے درجے یا زیادہ کا انحراف ہوتو نماز صحیح نہیں ہوگی۔ یعنی کعبے سے 45 درجے تک دائیں طرف اور اتنا ہی بائیں طرف انحراف کا جواز ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 394
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 57
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف مُنہ کرو نہ اس کی طرف پُشت کرو، لیکن مشرق یا مغرب کی طرف کرلو... [صحيح ابن خزيمه: 56]
فوائد:
یہ حدیث دلیل ہے کہ فضا اور کھلی جگہ میں پیشاب اور پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا حرام ہے اور یہ قضائے حاجت کے آداب میں سے اہم ادب ہے۔ مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنا یا پشت کرنا یا اہل عرب کے لیے ہے کیونکہ ہمارے ہاں مغرب کی طرف قبلہ ہے، لٰہذا ہمیں مشرق و مغرب نہیں بلکہ شمال اور جنوب کی طرف منہ یا پشت کرنی چاہیے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 57