الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الجنائز
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
32. بَابُ : غَسْلِ الْمَيِّتِ وَتْرًا
32. باب: میت کو طاق بار غسل دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1886
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا حَفْصَةُ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , قَالَتْ: مَاتَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا، فَقَالَ:" اغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكِ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حَقْوَهُ وَقَالَ: أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ" وَمَشَطْنَاهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ وَأَلْقَيْنَاهَا مِنْ خَلْفِهَا.
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی انتقال کر گئیں، تو آپ نے ہمیں بلا بھیجا اور فرمایا: اسے پانی اور بیر کے پتوں سے غسل دینا، اور طاق بار یعنی تین بار، یا پانچ بار غسل دینا، اگر ضرورت سمجھو تو سات بار دینا، اور آخری بار تھوڑا کافور ملا لینا (اور) جب تم فارغ ہو چکو تو مجھے خبر کرنا، تو جب ہم (نہلا کر) فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا، اور فرمایا: اسے (ان کے جسم پہ) لپیٹ دو، (پھر) ہم نے ان کی تین چوٹیاں کیں، اور انہیں ان کے پیچھے ڈال دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1886]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجنائز 17 (1263)، صحیح مسلم/الجنائز 12 (939)، سنن الترمذی/الجنائز 15 (990)، (تحفة الأشراف: 18135)، مسند احمد 6/407، 408 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   سنن النسائى الصغرىاغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك
   سنن النسائى الصغرىاغسلنها بماء وسدر واغسلنها وترا ثلاثا أو خمسا أو سبعا إن رأيتن ذلك واجعلن في الآخرة شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه وقال أشعرنها إياه
   سنن النسائى الصغرىاغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك
   سنن النسائى الصغرىاغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن بماء
   سنن النسائى الصغرىاغسلنها ثلاثا أو خمسا أو سبعا أو أكثر من ذلك إن رأيتن قالت قلت وترا قال نعم واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فأعطانا حقوه وقال أشعرنها إياه
   سنن النسائى الصغرىاغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك
   سنن النسائى الصغرىاغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا ألقى إلينا حقوه وقال أشعرنها إياه
   سنن النسائى الصغرىاغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك
   صحيح البخارياغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فنزع من حقوه إزاره وقال أشعرنها إياه
   صحيح البخارياغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه فقال أشعرنها إياه
   صحيح البخارياغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن بماء
   صحيح البخارياغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فأعطانا حقوه فقال أشعرنها إياه تعني إزاره
   صحيح البخارياغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا فإذا فرغتن فآذنني قالت فلما فرغنا ألقى إلينا حقوه فقال أشعرنها إياه
   صحيح البخارياغسلنها بالسدر وترا ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه فضفرنا شعرها ثلاثة قرون وألقيناها خلفها
   صحيح مسلماغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك
   صحيح مسلماغسلنها وترا ثلاثا أو خمسا واجعلن في الخامسة كافورا أو شيئا من كافور فإذا غسلتنها فأعلمنني قالت فأعلمناه فأعطانا حقوه وقال أشعرنها إياه
   جامع الترمذياغسلنها وترا ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن واغسلنها بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه فقال أشعرنها به
   سنن أبي داوداغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك
   سنن ابن ماجهاغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسماغسلنها ثلاثا او اكثر من ذلك إن رايتن ذلك بماء وسدر، واجعلن فى الآخرة كافورا
   بلوغ المراماغسلنها ثلاثا او خمسا او اكثر من ذلك إن رايتن ذلك بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا او شيئا من كافور
   سنن ابن ماجهاغسلنها ثلاثا او خمسا او اكثر من ذلك، إن رايتن ذلك بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1886 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1886  
1886۔ اردو حاشیہ: پیچھے ڈال دیا مگر احناف سینے پر ڈالنے کے قائل ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1886   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1253  
´میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا اور وضو کرانا`
«وحنط ابن عمر رضي الله عنهما ابنا لسعيد بن زيد وحمله وصلى ولم يتوضا , وقال ابن عباس رضي الله عنهما المسلم لا ينجس حيا ولا ميتا , وقال سعيد لو كان نجسا ما مسسته وقال النبي صلى الله عليه وسلم المؤمن لا ينجس» .
‏‏‏‏ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے بچے (عبدالرحمٰن) کے خوشبو لگائی پھر اس کی نعش اٹھا کر لے گئے اور نماز پڑھی، پھر وضو نہیں کیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا، زندہ ہو یا مردہ، سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر (سعید بن زید رضی اللہ عنہ) کی نعش نجس ہوتی تو میں اسے چھوتا ہی نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: Q1253]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
صحیح بخاری کا باب:
«8. بَابُ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَوُضُوئِهِ بِالْمَاءِ وَالسِّدْرِ:»
8. باب: میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا اور وضو کرانا۔
باب میں غسل، وضو اور بیری کے پتوں کا ذکر ہے مگر حدیث میں صرف خوشبو اور نماز کا ذکر ہے۔ اس حدیث کے بقیہ الفاظ کو ابن ابی شیببہ نے روایت کیا ہے جس کا اشارہ یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ کو سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے مرنے کی خبر ملی۔ وہ گئے اور ان کو غسل اور کفن دیا۔ خوشبو لگائی اور گھر میں آ کر غسل کیا اور کہنے لگے میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے نہ کہ مردے کو غسل دینے کی وجہ سے۔
لہٰذا یہاں سے بخوبی طور پر مناسبت ظاہر ہو رہی ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے جب انہیں غسل دیا تو لازماً اس میں بیری کے پتے بھی ہوں گے اور وضو بھی کروایا ہو گا۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
مذکورہ بالا حدیث کے بعد والی حدیث جو ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں واضح طور پر بیری کے پتوں کا ذکر موجود ہے۔ ممکن ہے کہ پہلی روایت سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اس روایت کے ضعف کی طرف ہو جس میں یہ ذکر ہے کہ جو غسل دے میت کو وہ بھی غسل کرے اور دوسری حدیث سے بیری کے پتوں کا جواز ثابت فرما رہے ہوں۔ «والله اعلم»

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وقصد البخاري بما صدر به الباب من أن المؤمن لا ينجس ان غسله ليس لكونه نجسًا ولذالك غسل بالماء والسدر مبالغة فى التنظيف . . . ثم الذى عليه جمهور العلماء أن غسل الميت لا يجب الغسل وحمله لا يوجب الوضوء وحديث من غسل ميتًا فليغتسل ومن حمله فليتوضا قد علمت كلام الحاكم انه مختلف فيه»
امام بخاری رحمہ اللہ کا قصد باب سے یہ ہے کہ مومن نجس نہیں ہوتا، اس کا غسل دینا اس کی نجاست کی وجہ سے نہیں ہے اور اسی طرح بیری کے پتوں سے غسل دینا یہ نظافت میں زیادتی کے لیے ہے۔۔۔ جمہور علماء اسی طرف گئے ہیں کہ جو میت کو غسل دے اس پر غسل نہیں ہے اور جو جنازے کو اٹھائے اس پر وضو واجب نہیں ہے اور جس حدیث میں ہے کہ مردے کو غسل دینے والا غسل کرے اور اٹھانے والا وضو کرے، یقیناًً اس میں امام حاکم رحمہ اللہ کا کلام مختلف فیہ ہے۔

◈ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا الترجمة مشتملة على امور الاول: فى غسل الميت، هل هو فرض أو واجب أو سنة؟ . . .» [عمدة القاري: 63 ص 49]
یہ ترجمۃ الباب مشتمل ہے امور پر، پہلا میت کے غسل کے بارے میں کہ کیا وہ فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ہے؟ ہمارے اصحاب نے کہا کہ وہ واجب ہے، احیاء پر سنت اور اجماع کے مطابق شرح وجیز میں ہے کہ (میت کو) غسل دینا اور اس کی تکفین اور اس پر نماز پڑھنا فرض کفایہ ہے اجماع کے مطابق اور اسی طرح سے امام نووی (شارح مسلم) نے اجماع نقل کیا ہے کہ غسل فرض کفایہ ہے اور بعض نے امام نووی کے اس قول کا انکار کیا ہے اور اسے شدید ذہول قرار دیا ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب قائم فرمانا کئی امور پر مشتمل ہے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ غسل میت کو دینا اور ساتھ ہی ساتھ میت کو غسل دینے والے کے لیے کیا حکم ہے؟

◈ محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«كأنه أشار إلى رد ما ورد فى الغسل من غسل الميت ووضوء من حمله، وقد اختلف العلماء فى الغسل والوضوء كما ذكره الحافظان ابن حجر والعيني فى اثر ابن عمر الاتي» [الابواب والتراجم، ج3، ص167۔ 168]
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں گویا کہ اشارہ فرمایا ہے اور رد فرمایا ہے ان حضرات کا جو میت کے غسل دینے پر غسل اور میت کو اٹھانے پر وضو کو ضروری گردانتے ہیں۔ یقیناًً علماء کا میت کو غسل اور وضو دینے پر اختلاف ہے جس کا ذکر دونوں حافظوں نے فرمایا، ابن حجر اور علامہ عینی رحمہما اللہ نے اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جو آرہا ہے۔

فائدہ:
مردے کو غسل دینے پر غسل کرنے کے بارے میں بعض علماء کا یہ مؤقف بھی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے، ابوحفص بن شاھین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث نے منسوخ کر دیا کہ آپ پر غسل نہیں ہے جب آپ مردے کو نہلائیں۔ آپ کے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دھو لیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
[البدر المنير لابن الملقن، ج2، ص 524 تا 543]
[العلل المتناهية، ج1، ص 377]
[العلل للدارقطني، ج 2، ص146]
[المجموع للنووي، ج2، ص 332]
[الناسخ والمنسوخ لابن شاهين، رقم 28، 39]
[الخلافيات للبيهقي، ج3، ص223]
[البدر المنير لابن الملقن، ج4، ص 657 تا 660]
[نيل الأوطار للشوكاني، ج1، ص 238]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 262   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 220  
´غسل میں بیری کے پتوں کا استعمال افضل ہے`
«. . . عن ام عطية الانصارية انها قالت: دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين توفيت ابنته فقال: اغسلنها ثلاثا او اكثر من ذلك إن رايتن ذلك بماء وسدر . . .»
. . . سیدہ ام عطیہ الانصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا) فوت ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اسے تین فعہ یا اگر مناسب سمجھو تو زیادہ دفعہ پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دینا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 220]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1253، ومسلم 38/939، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اگر میت کو غسل دینے کے بعد اس کے سبیلین سے کوئی چیز خارج ہو جائے تو علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اسے دوبارہ غسل دینا چاہئے اور بعض کہتے ہیں کہ اسے استنجا اور وضو کرانا کافی ہے۔ اس میں پہلا قول بہتر اور راجح ہے۔ واللہ اعلم
➋ میت کو پہلے استنجاء پھر نماز والا وضو اور پھر غسل کرانا چاہئے۔ وضو اور غسل میں دائیں طرف سے ابتدا کرنی چاہئے۔
➌ استنجا کراتے وقت ہاتھ پر کپڑا ہونا چاہئے۔ دیکھئے: [التمهيد 1/376]
➍ بیری کے پتوں کا استعمال افضل ہے اور اس پر قیاس کرتے ہوئے جدید دور کی ایجاد صابن وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔ واللہ اعلم
➎ عورتوں کو عورتیں اور مردوں کو مرد غسل دیں گے اور خاوند کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے خاوند کو غسل دینا جائز ہے جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 1/380] اور [مسند أحمد 6/267 وسنده حسن،]
➏ غسل میت میں طاق تعداد (تین، پانچ، سات) مستحب ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 129   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 436  
´خاتون میت کے سر کے بال تین حصوں میں تقسیم کر کے مینڈھیاں بناکر پیچھے ڈالنا`
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے تین یا پانچ مرتبہ، یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 436]
لغوی تشریح:
«وَنَحْنُ نُغَسّلُ ابْنَتَهُ» مشہور روایت کے مطابق یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی، حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ تھیں۔ ان کی وفات 8 ہجری کے آغاز میں ہوئی۔ ایک قول کے مطابق یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا ان دونوں کی وفات کے موقع پر حاضر تھیں۔ یہ صاحبہ فوت ہونے والی خواتین کو غسل دیا کرتی تھیں۔ امام ابن عبدالبر نے یہ بات بڑی پختگی اور وثوق نے نقل کی ہے۔
«إنْ رَاَيْتُنَّ ذٰلِك» اگر تم یہ سمجھو کہ صفائی کے لیے تین یا پانچ مرتبہ غسل دینے سے زائد کی ضرورت ہے تو زیادہ مرتبہ غسل دے سکتی ہو۔
«بِمَاءِ وَسِدْرِ» پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ، یہ «اِغْسِلْنَهَا» کے متعلق ہے، یعنی پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو۔
«فِي الْاَخِيرَةِ كَأفُورًا» راوی کو تردد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «كافور» کہا: یا «شَيْاً مَّنْ كَافُورِ» فرمایا۔ جمہور کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ آخری دفعہ پانی میں کافور یا کچھ کافور ملا لیا جائے۔ امام اوزاعی اور بعض علمائے احناف کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم ہے غسل کے بعد جسم پر کافور ڈال دینا۔ نسائی کی حدیث کے الفاظ «واجٰعَلَنَ فِي آخِر ذٰلِك كَافُورا» بظاہر اسی کے موید ہیں۔ [سنن نسائي، الجنائز، حديث: 1895]
«آزناهُ» «إيذان» سے صیغہ جمع متکلم ہے، یعنی ہم نے آپ کو خبر دی۔
«حقٰوهُ» حا مہملہ پر فتحہ اور کسرہ بھی جائز ہے اور قاف ساکن ہے۔ اس سے مراد تہند اور ازار ہے۔ اصل میں تو یہ تہبند باندھنے کی جگہ کو کہتے ہیں مگر مجازی طور پر ازار کے لیے بولا جاتا ہے۔
«أَشْعِرْنَهَا إيَّاهُ» اشعار سے امر کا صیغہ ہے، یعنی میرے اس تہبند کو کفن کے کپڑوں کے نیچے بطور شعار استعمال کرو۔ «شِعَار» اس کپڑے کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ آپ کے اس ارشاد کا مقصد ی یہ تھا آپ کی صاحبزادی کو اس سے برکت حاصل ہو۔
«اِبٌدَأنَ» آغاز کریں، ابتدا کریں۔
«بميامنها» میمنۃ کی جمع ہے، یعنی اس کی دائیں جانب سے۔
«فَضَفَّرْنَا شُعْرَهَا» «الضَّفٰر» سے مراد مینڈھی ہے، یعنی بالوں کو اس طرح بٹ دے کر ایک دوسرے میں داخل کرنا کہ وہ رسی کی مانند ہو جائیں۔
«ثَلَاثَهُ قُرُونِ» قرن کی جمع ہے۔ مینڈھیوں کو کہتے ہیں۔ یہ مینڈھیاں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت بنائی گئیں۔ [سبلاالسلام]
فوائد و مسائل:
➊ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ میت کو کم از کم تین مرتبہ غسل ضرور دینا چاہیے، البتہ بوقت ضرورت اگر زیادہ مرتبہ غسل دینے کی ضرورت محسوس ہو تو پھر پانچ یا سات مرتبہ، یعنی طاق عدد کا لحاظ رکھ کر غسل دینا چاہیے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غسل کا آغاز دائیں جانب کے اعضائے وضو سے کرنا چاہیے۔
➌ خاتون میت کے سر کے بال تین حصوں میں تقسیم کر کے مینڈھیاں بناکر پیچھے ڈال دیے جائیں۔ انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی صحیح ثبوت نہیں۔
➍ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا چاہیے۔ اور آخر میں کافور پانی میں ملا کر جسم پر ڈال دینا چاہیے یا جسم پر کافور مل دینا چاہیے۔
➎ کافور کے علاوہ خوشبو کا استعمال بھی جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 436   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1882  
´میت کو پانی اور بیر کی پتیوں سے غسل دینے کا بیان۔`
ام عطیہ انصاریہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ۱؎ کی وفات ہوئی، آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اسے پانی اور بیر (کے پتوں) سے دو تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار اگر مناسب سمجھو غسل دو، اور آخری بار میں کچھ کافور یا کافور کی کچھ مقدار ملا لو (اور) جب تم (غسل سے) فارغ ہو تو مجھے خبر کرو۔‏‏‏‏ تو جب ہم فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر دی تو آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا: اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1882]
1882۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ آپ کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں۔ اگرچہ بعض نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی کہا ہے۔
➋ بیری کے پتے صفائی اور نرمی وغیرہ کے لیے ڈالے جاتے تھے۔ یہی مقصد اگر کسی صابن سے پورا ہو جائے تو بیری کے پتے کوئی ضروری نہیں۔ اس وقت صابن وغیرہ نہ تھے۔ یہ چیزیں مقصود نہیں، ذرائع ہیں اور ذرائع بدلتے رہتے ہیں، تاہم بیری کے پتے استعمال کرلینے بہتر ہیں۔
➌ آپ کا اپنا ازار (تہ بند) پہنانے کے لیے دینا بطور تبرک تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے متعلق اشیاء سے تبرک تو متفقہ مسئلہ ہے، البتہ دوسرے صالحین سے تبرک کے ثبوت کی کوئی دلیل نہیں۔ صحابہ نے ایسا نہیں کیا۔
➍ میت کو طاق عدد میں غسل دینا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1882   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1894  
´میت کے بدن پر کپڑا لپیٹنے کا بیان۔`
محمد بن سیرین کہتے ہیں ام عطیہ رضی اللہ عنہا ایک انصاری عورت تھیں، وہ (بصرہ) آئیں، اپنے بیٹے سے جلد ملنا چاہ رہی تھیں لیکن وہ اسے نہیں پا سکیں، انہوں نے ہم سے حدیث بیان کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم آپ کی بیٹی کو غسل دے رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں پانی اور بیر (کی پتیوں) سے تین بار، یا پانچ بار غسل دو، یا اس سے زیادہ بار اگر ضرورت سمجھو، اور آخر میں کافور یا کافور کی کچھ مقدار ملا لینا (اور) جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے بتاؤ، تو جب ہم فارغ ہوئے تو آپ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا اور فرمایا: اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو، اور اس سے زیادہ نہیں فرمایا۔ (ایوب نے) کہا: میں نہیں جانتا کہ یہ آپ کی کون سی بیٹی تھی ں، راوی کہتے ہیں: میں نے پوچھا اشعار سے کیا مراد ہے؟ کیا ازار (تہبند) پہنانا مقصود ہے؟ ایوب نے کہا: میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسے ان کے جسم پر لپیٹ دو۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1894]
1894۔ اردو حاشیہ: عورت کے کفن کے لیے بھی تین کپڑے ہی کافی ہیں۔ اس میں مرد اور عورت کی ترفیق کی کوئی صحیح حدیث نہیں۔ مزید دیکھیے: (کتاب الجنائز، للألباني، ص: 85)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1894   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1895  
´میت کے بدن پر کپڑا لپیٹنے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کی موت ہو گئی تو آپ نے فرمایا: انہیں تین یا پانچ بار غسل دو، یا اس سے زیادہ اگر ضرورت سمجھو، اور انہیں بیر (کے پتوں) اور پانی سے غسل دو، اور کچھ کافور ملا لو، اور جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر کرو، وہ کہتی ہیں: میں نے آپ کو خبر کیا، تو آپ نے ہماری طرف اپنی لنگی پھینکی اور فرمایا: اسے (ان کے جسم سے) لپیٹ دو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1895]
1895۔ اردو حاشیہ: پھینکا گویا پکڑایا نہیں کیونکہ آپ کا ہاتھ ساری زندگی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔ یہ انتہا درجے کی احتیاط ہے جو آپ نے اپنی امت کو سمجھانے کے لیے فرمائی۔ (اس حدیث کے باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: 1882)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1895   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن أبوداود 3142  
«وعن الثاني ما أخرجه عن اسم الماء المطلق من المغيرات الطاهرة»
اور (پانی کے) دوسرے وصف (پاک کرنے والا) سے اسے ایسی پاک اشیاء بھی خارج کر دیتی ہیں جو اسے سادہ (یعنی مطلق) پانی نہ رہنے دیں۔
◈ کیونکہ جس پانی کو بطور طہارت استعمال کرنے کا شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے وہ محض وہی ہے جس پر مطلق طور پر لفظ «مآء» (پانی) بولا جا سکتا ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: «مَاءً طَهُورًا» [الفرقان: 48] اور حدیث میں ہے: «إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ» [صحيح: أبوداود 67]
(جمہور، مالک، شافعی) اسی کے قائل ہیں۔ [المجموع 95/1، هداية المجتهد 54/1]
(ابن قدامہ حنبلی) جمہور کے موقف کو ترجیح حاصل ہے۔ [المغني لابن قدامة 25/1]
(ابن حزم) جب تک پانی پر لفظ «مآء» (پانی) بولا جا سکتا ہے اس وقت تک وہ طاہر و مطہر ہے۔ [المحلى بالآثار 193/1]
(شوکانی) کسی پاک چیز کے ملنے کی وجہ سے جس پانی پر مائے مطلق کا نام نہ بولا جا سکے بلکہ اس پر کوئی خاص نام بولا جاتا ہو مثلاً گلاب کا پانی وغیرہ تو وہ صرف فی نفسہ طاہر ہو گا دوسروں کے لیے مطہر نہیں ہو گا۔ [السيل الجرار 56/1]
(احناف) پاک چیز ملنے کی وجہ سے متغیر پانی مطہر بھی ہو گا جب تک کہ یہ تغیر پکانے کی وجہ سے نہ ہوا ہو۔ [هداية المجتهد 54/1]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔ [المغني 20/1، السيل الجرار 56/1]
↰ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسا پانی جس میں زعفران، صابن یا آٹے وغیرہ کی مثل کوئی ایسی چیز مل جائے جو اغلباً جدا ہو سکتی ہو اور اس پانی پر مائے مطلق کا لفظ بھی بولا جا سکے تو وہ پانی پاک ہونے کے ساتھ ساتھ پاک کرنے والا بھی ہے لیکن اگر وہ چیز پانی کو مائے مطلق (سادہ پانی) کے نام سے خارج کر دے تو پانی فی نفسہ پاک ہو گا لیکن دوسری اشیاء کے لیے پاک کرنے والا نہیں ہو گا جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل اس پر شاھد ہیں:
«فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً» [4-النساء:43]
قرآن نے طہارت کے لیے مائے مطلق کا ہی ذکر کیا ہے۔
➋ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے تین یا پانچ مرتبہ یا اسے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو اگر تم ضرورت محسوس کرو «وَاغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا» پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخر میں کافور ڈالو۔ [صحيح مسلم 2173] ۱؎
➌ حضرت ام ہانی بنت أبی طالب رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گنبد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹب میں غسل کیا جس میں آٹے کے آثارنمایاں تھے۔ [نسائي 214]
➍ ایک روایت میں ہے کہ «اغْتَسَلَ وَمَيْمُونَةُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ فِي قَصْعَةٍ فِيهَا أَثَرُ الْعَجِينِ» آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک ایسے ٹب میں غسل کیا جس میں آٹے کے نشانات موجود تھے۔ [ابن ماجه 378] ۲؎
◈ ان احادیث میں پانی اور کافور کے درمیان، اور پانی اور آٹے کے درمیان آمیزش و ملاوٹ اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل کروانا اور خود کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسی پاک اشیاء کی ملاوٹ کے بعد بھی اگر مائے مطلق کا نام باقی رہے تو اس پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [فقه السنه 14/1، السيل الجرار 56/1]
------------------
۱؎ [مسلم 2173 كتاب الجنائز: باب فى غسل الميت، بخاري مع الفتح 125/3، مؤطا 222/1، مسند شافعي 203/1، احمد 4: 407/6، أبوداود 3142، ترمذي 990، نسائي 28/4، ابن ماجة 1458]
۲؎ [صحيح: صحيح ابن ماجة 303، كتاب الطهارة وسننها: باب الرجل والمرأة يغتسلان من إناء واحد، ابن ماجة 378، نسائي 131/1، احمد 342/6، إرواء الغليل 64/1، المشكاة 485]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 129   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3142  
´میت کو کیسے غسل دیا جائے؟`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) کا انتقال ہوا آپ ہمارے پاس آئے اور فرمایا: تم انہیں تین بار، یا پانچ بار پانی اور بیر کی پتی سے غسل دینا، یا اس سے زیادہ بار اگر ضرورت سمجھنا اور آخری بار کافور ملا لینا، اور جب غسل دے کر فارغ ہونا، مجھے اطلاع دینا، تو جب ہم غسل دے کر فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر دی، آپ نے ہمیں اپنا تہہ بند دیا اور فرمایا: اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو۔‏‏‏‏ قعنبی کی روایت میں خالک سے مروی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازار کو۔ مسدد کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3142]
فوائد ومسائل:

میت کو کم از کم تین بار غسل دینا مستحب ہے۔
اوراگر ضرورت ہو تو پانچ بنار یا س سے بھی زیادہ دیا جا سکتا ہے۔


غسل کے پانی میں بیری کے پتے ابال لئے جایئں تو بہتر ہے۔
اور ایسے ہی آخری بار میں کچھ کافور ملالینا بھی مستحب ہے۔


کسی مسلمان کے مستعمل کپڑے کو بطور کفن استعمال کرنا جائز ہے۔
مگر رسول اللہ ﷺ کی چادر بالخصوص متبر ک تھی۔
تاہم اس نیت سے کسی اور کا کپڑا استعمال نہ کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3142   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1458  
´میت کو غسل دینے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم آپ کی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دے رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں تین بار، یا پانچ بار، یا اس سے زیادہ اگر تم مناسب سمجھو تو پانی اور بیری کے پتے سے غسل دو ۱؎، اور اخیر بار کے غسل میں کافور یا کہا: تھوڑا سا کافور ملا لو، جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر کرو، لہٰذا جب ہم غسل سے فارغ ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا اور فرمایا: اسے جسم سے متصل کفن میں سب سے نیچے رکھو ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1458]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورت کو عورتیں غسل دیں اور مرد فوت ہوجائے تو اسے مرد ہی غسل دیں۔
البتہ خاوند کا بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو غسل دینا جائز بلکہ بہترہے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1465، 1464)

(2)
بیری کے پتوں کو پانی میں جوش دیا جائے۔
اور اسی پانی سے میت کو غسل دیا جائے۔
اس طرح صفائی بہتر ہوتی ہے۔
یا آج کل صابن سے بھی یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔

(3)
میت کے جسم پر ایک بار سے زیادہ پانی بہایا جائے۔
لیکن تعداد طاق ہو۔

(4)
کافور کی خوشبو کیڑے مکوڑوں کو دوررکھتی ہے۔
میت کے جسم پر آخری بار جو پانی بہایا جائے۔
اس میں کافور ڈال لینا چاہیے۔

(5)
رسول اللہ ﷺ کے لباس سے اوردوسری ایسی اشیاء سے جو نبی اکرمﷺ کے جسم اطہر سے مس ہوئی ہوں۔
برکت لینا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ ان کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے یقینی ہو صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین نے کسی اورشخصیت سے تعلق رکھنے والی اشیاء کو تبرک کے طور پرمحفوظ نہیں کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1458   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1459  
´میت کو غسل دینے کا بیان۔`
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے محمد بن سیرین کی سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ ہے کہ: ان کو طاق بار غسل دو، اور اس میں یہ بھی ہے کہ: انہیں تین بار یا پانچ بار غسل دو، اور دائیں طرف کے اعضاء وضو سے غسل شروع کرو۔‏‏‏‏ اور اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کر کے تین چوٹیاں کر دیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1459]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
میت کے غسل دیتے وقت پہلے جسم کے دایئں حصے کوغسل دیا جائے۔
پھر بایئں حصے کو اور اس سے پہلے اعضائے وضو کو دھویا جائے۔
اس میں دایئں ہاتھ دایئں بازو اور دایئں پائوں کو بایئں جانب والے مذکورہ اعضاء پر اولیت دی جائے۔ 2۔
عورت کے بالوں کو کنگھی کرنا اور بالوں کے تین حصے کرکے پیچھے ڈالنا چاہیے۔
ایک روایت میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ ارشاد بھی ہے۔ (فَضَفَرْنَا شَعْرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُوْنٍ وَأَلْقَيْنَاهَا خَلْفَهَا) (صحیح البخاري، الجنائز، باب یلقی شعر المرأۃ خلفھا، حدیث: 1263)
ہم نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)
کی تین مینڈھیاں بنایئں۔
اور وہ ان کے پیچھے ڈال دیں۔
 ممکن ہے بالوں کو گوندھ کر مینڈھیوں یا چوٹیوں کی شکل دی گئی ہو اور ممکن ہے کہ بالوں کی لٹوں کو تشبیہ کے طور پر مینڈھیاں کہہ دیا ہو۔
لیکن ضَفَرْنَا کے لفظ سے بظاہر پہلے مفہوم کی تایئد ہوتی ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1459   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 990  
´میت کو غسل دینے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا: اسے طاق بار غسل دو، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملا لینا، یا فرمایا: تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا، چنانچہ جب ہم (نہلا کر) فارغ ہو گئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا: اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔‏‏‏‏ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 990]
اردو حاشہ:
1؎:
جمہور کے قول کے مطابق یہ ابو العاص بن ربیع کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا تھیں،
ایک قول یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں،
صحیح پہلا قول ہی ہے۔

2؎:
یعنی خالد،
منصور اور ہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔

3؎:
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دیناچاہئے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 990   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2168  
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ، رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں تو آپ نے فرمایا: اس کو تین دفعہ پانچ دفعہ یا اگر تم اس سے زائد بار مناسب سمجھو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری بار میں کافور ڈال دینا یا کافورمیں سے کچھ ڈال دینا اور جب تم فارغ ہو جا ؤ تو مجھے اطلا ع کرنا۔ اور جب ہم فارغ ہو گئیں تو ہم نے آپﷺ کو اطلا ع دی تو آپﷺ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2168]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

جمہور کے نزدیک میت کو غسل دینا فرض ہے،
کوفیوں،
اہل ظاہر اور امام مزنی کے نزدیک تین دفعہ غسل دینا واجب ہے۔
اور اس سے زائد پانچ یا سات دفعہ ضرورت کے تحت ہے۔
اکثر ائمہ کے نزدیک غسل ایک تعبدی حکم ہے جس کی فلاسفی اورحکمت معلوم نہیں ہے۔
یا نظافت اورصفائی ستھرائی کے لیے ہے۔
میت نجس (پلید)
نہیں ہوتی۔
وگرنہ پانی اور بیری کے پتوں سے پاکیزگی اور طہارت حاصل نہ ہوتی لیکن احناف کے نزدیک موت سے انسان پلید ہو گیا۔
جس طرح وہ تمام حیوانات جن میں خون ہے۔
مرنے سے پلید ہو جاتے ہیں۔
لیکن یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے کیونکہ آپﷺ کا فرمان ہے:
(إِنَّ الْمُؤْمِنَ لاَ يَنْجَسُ) (بخاری)

میت کو آخری غسل دیتے وقت پانی میں کافور ڈالا جائے گا۔
یا غسل سے فراغت کے وقت اس پر کافور چھڑک دیا جائے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل سے فراغت کے بعد اپنے جسم اطہر سے تہبند اتار کر دی تاکہ اس کو میت کے جسم پر لپیٹ دیا جائے۔
اس سے آثار صالحین سے تبرک حاصل کرنے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے آپﷺ کے سوا کسی کی آثار سے تبرک حاصل نہیں کیا وگرنہ آپﷺ کے بعد کم از کم خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے آثار سے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تبرک حاصل کرتے،
اس لیے یہ آپﷺ ہی کا خاصہ اور امتیاز ہے اس لیے آپﷺ کے ساتھ خاص ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2168   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1254  
1254. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا:اسے تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری مرتبہ کافور شامل کرلو۔ جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ ہم نے فارغ ہوکر آپ کو اطلاع دی تو آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا: اسے اس میں لپیٹ دو۔ ایوب راوی کہتے ہیں کہ مجھے حفصہ بن سیرین نے محمد بن سیرین کی طرح حدیث بیان کی۔حفصہ کی حدیث میں ہے: اسے طاق عدد میں غسل دو۔ اور اس میں یہ بھی ہے: اسے تین، پانچ یاسات مرتبہ غسل دو۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے دائیں اعضاء اور وضو کی جگہوں سے غسل دیناشروع کرو۔ اس حدیث میں یہ تھا کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا:ہم نے اس کے بالوں میں کنگھی کرکے ان کی تین چوٹیاں بنا دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1254]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عورت کے سر میں کنگھی کر کے اس کے بالوں کی تین لٹیں گوندھ کر پیچھے ڈال دیں۔
امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کا یہی قول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1254   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1257  
1257. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی لخت جگر فوت ہوگئیں تو آپ نے ہم سے فرمایا: اسے تین یا پانچ یا اگر ضرورت ہو تو زیادہ بار غسل دو اور جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبردو۔ چنانچہ جب ہم فارغ ہوگئیں تو ہم نے آپ کو اطلاع دی۔ آپ نے اپنی کمر سے تہبند کھولا اور فرمایا:اسے اس میں لپیٹ دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1257]
حدیث حاشیہ:
ابن بطال ؒ نے کہا کہ اس کے جواز پر اتفاق ہے اور جس نے یہ کہا کہ آنحضرت ﷺ کی بات اور تھی دوسروں کو ایسا نہ کرنا چاہیے اس کا قول بے دلیل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1257   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1263  
1263. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: (پانی میں) بیری کے پتے ڈال کر اسے تین بار یا پانچ بار اوراگرضرورت محسوس کروتواس سے بھی زیادہ بار غسل دو اور آخری بار (پانی میں) میں کچھ کافور کی آمیزش کردو۔ اور جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دو۔ چنانچہ جب ہم فارغ ہوگئیں تو آپ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا، ہم نے ان کے بال گوندھ کر تین چوٹیاں بنائیں اور انھیں پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1263]
حدیث حاشیہ:
صحیح ابن حبان میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا حکم دیا تھا کہ بالوں کی تین چوٹیاں کردو۔
اس حدیث سے میت کے بالوں کا گوندھنا بھی ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1263   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1253  
1253. حضرت ام عطیہ انصاریہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب آپ کی صاحبزادی فوت ہوئیں تو آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔ اگر مناسب خیال کرو تو اس سے زیادہ بار بھی دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کچھ کافور بھی استعمال کرو، پھر جب غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ جب ہم اسے غسل دے کر فارغ ہوئیں تو آپ کو اطلاع دی۔ آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا:اس میں پورا بدن لپیٹ دو۔ حدیث میں حقو سے مراد تہبند ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1253]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مطلب باب یہ ہے کہ مومن مرنے سے ناپاک نہیں ہو جاتا اور غسل محض بدن کو پاک صاف کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔
اس لیے غسل کے پانی میں بیر کے پتوں کا ڈالنا مسنون ہوا۔
ابن عمر ؓ کے اثر کو امام مالک نے مؤطا میں وصل کیا۔
اگر مردہ نجس ہوتا تو عبد اللہ بن عمر ؓ اس کونہ چھوتے نہ اٹھاتے اگر چھوتے تو اپنے اعضاء کو دھوتے۔
امام بخاری ؒ نے اس سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا کہ جو میت کو نہلائے وہ غسل کرے اور جو اٹھا ئے وہ وضو کرے۔
عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کو سعید بن منصور نے سند صحیح کے ساتھ وصل کیا اور یہ کہ مومن نجس نہیں ہوتا اس روایت کو مرفوعاً خود امام بخاری ؒ نے کتاب الغسل میں روایت کیا ہے اور سعد بن ابی وقاص ؓ کے قول کو ابن ابی شیبہ نے نکالا کہ سعد ؓ کو سعید بن زید ؓ کے مرنے کی خبر ملی۔
وہ گئے اور ان کو غسل اور کفن دیا، خوشبو لگائی اور گھر میں آکر غسل کیا اور کہنے لگے کہ میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے نہ کہ مردے کو غسل دینے کی وجہ سے۔
اگر وہ نجس ہوتا تو میں اسے ہاتھ ہی کیوں لگاتا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کو اپنا ازار تبرک کے طور پر عنایت فرمایا۔
اس لیے ارشاد ہوا کہ اسے قمیص بنا دو کہ یہ ان کے بدن مبارک سے ملا رہے۔
جمہور کے نزدیک میت کو غسل دلانا فرض ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1253  
1253. حضرت ام عطیہ انصاریہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب آپ کی صاحبزادی فوت ہوئیں تو آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔ اگر مناسب خیال کرو تو اس سے زیادہ بار بھی دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میں بیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کچھ کافور بھی استعمال کرو، پھر جب غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ جب ہم اسے غسل دے کر فارغ ہوئیں تو آپ کو اطلاع دی۔ آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا:اس میں پورا بدن لپیٹ دو۔ حدیث میں حقو سے مراد تہبند ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1253]
حدیث حاشیہ:
(1)
فوت ہونے والی رسول اللہ ﷺ کی صاجزادی حضرت سیدہ زینب ؓ تھیں جو حضرت ابو العاص ؓ کی بیوی اور سیدہ امامہ بنت عاص ؓ کی والدہ ماجدہ تھیں۔
ان کا انتقال آٹھ ہجری میں ہوا تھا۔
سیدہ زینب ؓ کو غسل دینے والی خواتین میں حضرت ام عطیہ کے علاوہ حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب، حضرت یعلی بنت قانف اور حضرت ام سلیم ؓ بھی شامل تھیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو غسل دینے کے لیے شوہر کی نسبت عورتیں زیادہ مناسب ہیں، اگرچہ بیوی خاوند کا ایک دوسرے کو غسل دینا شرعا جائز ہے۔
(2)
میت کو غسل دینا ضروری ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے متعلق حکم دیا تھا جو حالتِ احرام میں اپنی سواری سے گر کر جاں بحق ہو گیا تھا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو۔
(صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1849)
اسی طرح مذکورہ حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام عطیہ ؓ کو حکم دیا تھا کہ صاجزادی کو تین یا پانچ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو۔
ان احادیث سے غسل میت کے وجوب کا پتہ چلتا ہے۔
غسل دینے کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو قریبی رشتے دار، غسل کے طریقے کو جاننے والا، امانت دار اور تقویٰ شعار ہو۔
بیری کے پتے استعمال کرنے کا حکم محض نظافت و صفائی کے لیے ہے، اگر اس کے قائم مقام کوئی چیز، مثلا:
صابن وغیرہ دستیاب ہو تو وہ بھی درست ہے۔
آخری مرتبہ غسل دیتے وقت پانی میں کافور وغیرہ ملا لیا جائے۔
اس میں یہ حکمت ہے کہ میت خوشبودار ہو جائے، کیونکہ اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز کافور کی خصوصیت ہے کہ اس کے استعمال کرنے سے میت کا جسم جلد خراب نہیں ہوتا۔
اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اسے لگانے کے بعد کوئی بھی موذی جانور میت کے قریب نہیں آتا۔
والله أعلم۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سب سے آخر میں اپنی ازار سیدہ زینب ؓ کے لیے مرحمت فرمائی کہ آپ کے جسم مبارک سے اتصال کا زمانہ قریب سے قریب تر ہو اور نبوی جسم مبارک سے الگ ہو کر صاجزادی مرحومہ کے جسم سے اتصال تک کچھ بھی فاصلہ نہ ہو، نیز یہ آثار صالحین سے تبرک کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔
(فتح الباري: 166/3)
ہمارے نزدیک آثار صالحین سے تبرک کا مسئلہ محل نظر ہے، کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ کے آثار سے تو ہو سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا جسم اطہر بابرکت اور اس سے لگنے والا کپڑا بھی متبرک ہوتا ہے۔
اس پر قیاس کرتے ہوئے دوسرے صالحین کے آثار سے برکت حاصل کرنا دو وجہ سے ناجائز ہے:
٭ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے بزرگ سے اس قسم کا تبرک نہیں لیا۔
٭ دوسروں سے تبرکات کا سلسلہ شرک و بدعت کا بہت بڑا ذریعہ ہے، لہٰذا تبرک وغیرہ کا سلسلہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اور آپ سے متعلقہ اشیاء تک محدود رہنا چاہیے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1254  
1254. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا:اسے تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری مرتبہ کافور شامل کرلو۔ جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ ہم نے فارغ ہوکر آپ کو اطلاع دی تو آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا: اسے اس میں لپیٹ دو۔ ایوب راوی کہتے ہیں کہ مجھے حفصہ بن سیرین نے محمد بن سیرین کی طرح حدیث بیان کی۔حفصہ کی حدیث میں ہے: اسے طاق عدد میں غسل دو۔ اور اس میں یہ بھی ہے: اسے تین، پانچ یاسات مرتبہ غسل دو۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے دائیں اعضاء اور وضو کی جگہوں سے غسل دیناشروع کرو۔ اس حدیث میں یہ تھا کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا:ہم نے اس کے بالوں میں کنگھی کرکے ان کی تین چوٹیاں بنا دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1254]
حدیث حاشیہ:
ابوداود کی روایت میں ہے:
۔
۔
یا سات مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو اگر تم اس کی ضرورت محسوس کرو۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3146)
ان مختلف روایات سے معلوم ہوا کہ میت کو کم از کم تین مرتبہ ضرور غسل دینا چاہیے اور بوقت ضرورت پانچ، سات یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ طاق عدد کا لحاظ رکھتے ہوئے غسل دیا جا سکتا ہے۔
الغرض غسل دیتے وقت غسل دینے والے کی صوابدید پر موقوف ہے کہ کتنی مرتبہ اس میت کو غسل دینے کی ضرورت ہے۔
بہرصورت طاق عدد کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1254   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1257  
1257. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی لخت جگر فوت ہوگئیں تو آپ نے ہم سے فرمایا: اسے تین یا پانچ یا اگر ضرورت ہو تو زیادہ بار غسل دو اور جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبردو۔ چنانچہ جب ہم فارغ ہوگئیں تو ہم نے آپ کو اطلاع دی۔ آپ نے اپنی کمر سے تہبند کھولا اور فرمایا:اسے اس میں لپیٹ دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1257]
حدیث حاشیہ:
(1)
عورت کو مرد کے تہبند میں کفن دینے کے متعلق امام بخاری ؒ نے کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا، کیونکہ اس میں کئی ایک احتمالات ہیں۔
ہمارے نزدیک اگر کسی مرد کے تہبند کو بطور تبرک استعمال کرنا ہے تو ایسا کرنا مرد اور عورت دونوں کے لیے ناجائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے کی کوئی چیز متبرک نہیں ہو سکتی جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
(2)
تبرک کے بغیر ضرورت کے طور پر استعمال کرنے کی دو شرطیں ہیں:
٭ جس مرد کے تہبند کو بطور کفن استعمال کرنا ہے وہ اپنی نظافت و طہارت کا خیال رکھنے والا اور انتہائی نفیس الطبع ہو۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اس کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
٭ عورت کا خاوند یا کوئی دوسرا محرم اسے اپنی غیرت کا مسئلہ نہ بنائے اور اسے کسی قسم کی نفرت نہ ہو۔
یہ دونوں باتیں ملحوظ رکھتے ہوئے کسی دوسرے کے تہبند کو عورت کے لیے کفن کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے بصورت دیگر اس سے اجتناب کیا جائے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1257   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1259  
1259. حضرت ام عطیہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: اسے تین بار یا پانچ بار یا سات بار اور اگر مناسب خیال کرو تو اس سے بھی زیادہ بار غسل دو۔ حفصہ نے کہا کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا:ہم نے اس کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1259]
حدیث حاشیہ:
میت کو غسل دیتے وقت جب میت پر آخری مرتبہ پانی بہانا ہو تو اس میں کچھ کافور ملا لیا جائے تاکہ اس کے بدن کو ٹھنڈک پہنچے اور وہ خوشبودار ہو جائے۔
اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ کافور استعمال کرنے سے جسم خراب نہیں ہوتا اور اسے حشرات الارض نقصان نہیں پہنچا سکتے، یعنی وہ موذی چیزوں سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ کافور کے علاوہ کوئی بھی خوشبودار کیمیکل استعمال کیا جا سکتا ہے، عطر وغیرہ بھی اس پر چھڑکا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1259   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1261  
1261. محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ام عطیہ ؓ وہ انصار کی ان عورتوں میں سے ہیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت بھی کی تھی۔ اپنے بیٹے سے ملاقت کے لیے بصرہ آئیں، لیکن اسے وہاں نہ پایا۔ انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم آپ کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے تین بار یا پانچ بار یا اگر ضرورت ہوتو اس سے زیادہ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری باراس میں کافور ملاؤ۔ اور جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کرو۔ حضرت ام عطیہ ؓ نے کہا: جب ہم فارغ ہو گئیں تو آپ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا اور فرمایا: اسے اس میں لپیٹ دو۔ اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہا۔ ابن سیرین ؒ کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں وہ آپ کی کون سی صاحبزادی تھیں۔ راوی نے کہا: اشعار یہ ہے کہ اسے چادر میں لپیٹ دو۔ اسی طرح ابن سیرین ؒ عورت کے متعلق حکم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1261]
حدیث حاشیہ:
(1)
راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں وہ آپ کی کون سی صاجزادی تھیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ حضرت زینب ؓ تھیں۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2173 (939)
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ وہ حضرت ام کلثوم ؓ تھیں۔
(سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1458)
ممکن ہے کہ حضرت ام عطیہ ؓ نے دونوں صاجزادیوں کو غسل دیا ہو، کیونکہ مدینہ منورہ میں یہی خاتون عورتوں کو غسل دینے پر مامور تھیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
ان کے شاگرد حضرت ابن سیرین اور ان کی بہن حضرت حفصہ ہیں۔
تابعین میں یہ دونوں میت کے غسل کے متعلق زیادہ معلومات رکھتے تھے۔
حضرت حسن بصری ؒ کا موقف ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے، جیسا کہ امام بخاری ؒ کے پیش کردہ اثر سے معلوم ہوتا ہے، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے جوزقی کے حوالے سے روایت بیان کی ہے کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا:
ہم نے اس صاجزادی کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جن میں اوڑھنی بھی تھی۔
امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے، حضرت لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ ؓ نے فرمایا:
میں ان خواتین میں شامل تھی جنہوں نے حضرت ام کلثوم ؓ کی وفات کے وقت انہیں غسل دیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہمیں تہبند دیا، پھر کرتا، اس کے بعد اوڑھنی، پھر ایک بڑی چادر اور اس کے بعد ایک دوسری چادر جس میں انہیں لپیٹ دیا گیا۔
حضرت لیلیٰ ؓ نے کہا:
رسول اللہ ﷺ اپنی لخت جگر کا کفن لے کر دروازے کے پاس بیٹھے تھے اور ہمیں ایک ایک کپڑا مرحمت فرماتے تھے۔
(مسند أحمد: 380/6)
اس روایت کو امام ابوداود نے بھی كفن المرأة کے عنوان سے اپنی سنن میں بیان کیا ہے (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3157)
لیکن یہ روایت انتہائی ضعیف ہے، کیونکہ اس میں نوح بن حکیم ثقفی نامی راوی مجہول ہے جس کی ثقاہت و عدالت ثابت نہیں ہو سکی۔
اس کے علاوہ علامہ زیلعی نے ایک مزید سبب ضعف بھی بیان کیا ہے کہ اس کی سند میں ایک داود نامی راوی ہے۔
اس کے متعلق پتہ نہیں چل سکا کہ کون ہے؟ علامہ زیلعی نے اس سبب ضعف کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(نصب الرایة: 258/2) (2)
علامہ البانی ؒ نے بھی لکھا ہے کہ کفن کے متعلق مرد اور عورت کا فرق صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
(أحکام الجنائز، ص: 65)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1261   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1263  
1263. حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: (پانی میں) بیری کے پتے ڈال کر اسے تین بار یا پانچ بار اوراگرضرورت محسوس کروتواس سے بھی زیادہ بار غسل دو اور آخری بار (پانی میں) میں کچھ کافور کی آمیزش کردو۔ اور جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دو۔ چنانچہ جب ہم فارغ ہوگئیں تو آپ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا، ہم نے ان کے بال گوندھ کر تین چوٹیاں بنائیں اور انھیں پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1263]
حدیث حاشیہ:
(1)
سنن نسائی میں ہے کہ ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کی۔
(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1886)
پیچھے ایک روایت گزر چکی ہے جس میں ذکر ہے کہ ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کی اور پھر تین چوٹیاں بنائیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1254)
بخاری کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ تین چوٹیاں اس طرح بنائی گئیں کہ ایک پیشانی کی طرف بالوں کی چوٹی دائیں، بائیں طرف کے بالوں کی دو چوٹیاں بنائی گئیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1262)
مذکورہ روایت میں صراحت ہے کہ بالوں کی تین لٹوں کو پیچھے ڈال دیا گیا۔
اس قدر صراحت کے باوجود یہ کہنا کہ بالوں کو کنگھی کر کے پیچھے ڈال دینے میں زینت ہے اور میت اس سے مستثنیٰ ہے۔
اسے سخن سازی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ کا یہی موقف ہے کہ فوت شدہ عورت کے بالوں میں کنگھی کر کے اس کی تین چوٹیاں بنا دی جائیں، پھر انہیں پیچھے ڈال دیا جائے۔
(فتح الباري: 172/3) (2)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت ام عطیہ ؓ کی اس حدیث پر دس عنوان قائم کیے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1263