ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا، حسن رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، تو کبھی ان کی طرف، اور آپ فرما رہے تھے: ”میرا یہ بچہ سردار ہے، اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1411]
وضاحت: ۱؎: الحمدللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور امت مسلمہ کے دو گروہ باہم متفق ہو گئے ہوا یہ کہ حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری فرمائی اور ساری امت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت پر متفق ہو گئے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1411
1411۔ اردو حاشیہ: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ والحمد للہ علی ذالك۔ حضرت حسن، حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد خلیفہ (سردار) بنائے گئے۔ آپ نصف اسلامی مملکت کے سربراہ تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں فوج آپ کے ساتھ تھی۔ چالیس ہزار افراد آپ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرچکے تھے۔ دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خون ریزی کو اچھا نہ سمجھا اور صلح کا عندیہ دیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی سفید کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ طے فرمائیں، لکھ دیں۔ میرے دستخط پہلے ہی ہوچکے ہیں۔ اس طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حکو مت کی قربانی دے کر امت کے ان دو عظیم گروہوں کو لڑائی سے بچا لیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ ورنہ کشتوں کے پشتے لگ جاتے اور معاملہ پھر بھی حل نہ ہوتا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا امت پر یہ عظیم احسان ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی انہیں دے گا کہ وہ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ صحابہ کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کے بارے میں اہل علم نے خاموشی اختیار فرمائی ہے کہ ہمیں بزرگوں کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ کسی میں غلطی اور نقص نکال کر اپنی زبانوں کو گستاخی اور گناہ سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ مغفورلھم لوگ تھے۔ انہیں جنت کی خوش خبری سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مل چکی ہے۔ ہم کون ہیں اور ان کی عیب جوئی کرنے والے۔ پھر اس دور کی صحیح تاریخ کا ملنا بھی یقینی نہیں، لہٰذا یہ معاملات اللہ خبیر و بصیر پر چھوڑ دیے جائیں۔ یہی بات برحق ہے۔ ➋ خوارج کا رد ہے جو کہ دونوں گروہوں کو کافر کہتے ہیں۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کے مسلمان ہونے کی گواہی دی ہے۔ ➌ لوگوں کے درمیان اصلاح بہت فضیلت والا کام ہے، خصوصاً جب خون خرابہ ہونے کا خطرہ ہو۔ ➍ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ رعایا پر بہت شفیق اور مہربان تھے، نیز امور مملکت میں بڑی کڑی نظر رکھتے تھے۔ آپ کا صلح کا غیر مشروط مطالبہ اس بات کی بین دلیل ہے۔ ➎ کم مرتبے والا شخص، زیادہ فضیلت والے کی موجودگی میں حکمران بن سکتا ہے۔ حضرت حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہما حکمران بنے جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما بدری صحابہ موجود تھے۔ ➏ خلیفہ بذات خود دستبردار ہو سکتا ہے خصوصاً جبکہ یہ استغفیٰ وسیع تر قومی و ملی مفاد میں ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1411
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4662
´فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔“ حماد کی روایت میں ہے: ”شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4662]
فوائد ومسائل: 1: حضرت علی رضی اللہ کے دور میں سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی بنا پر ہر مسلمان دو گرہوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف علی رضی اللہ تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ اور دونوں ہی اپنی اپنی ترجیحات میں بر حق تھے، تاہم سیدنا علی رضی اللہ کا موقف اقرب الی الحق تھا۔
2: سیدنا حسن رضی اللہ نے اپنی خلافت سے دست بردارہو کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور اس کی وجہ سے ان کے شرف سیادت میں اور اضافہ ہو گیا۔ مگر کچھ لوگوں کو اب تک ان کا یہ عمل ناپسند ہے۔
3: رسول ؐ نے دونوں اطراف کے لوگوں کو اپنی امت کے مسلمان قراردیا ہے اورکسی کو بھی گمراہ یا باطل نہیں فرمایا۔
4: صحابہ کرام یا پھر فقہا ءوائمہ کی اجتہادی غلطیوں کی اشاعت کرنا بہت بڑا اور برا فتنہ ہے، صرف خاص محدود علمی حلقہ میں ان کے مسائل کی علمی تفہیم جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4662
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3773
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان` ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3773]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا، چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کار نامہ ہے (جَزَاہُ اللہُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ الْجَزَاءِ)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3773
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:811
811- سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ لوگوں صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوتے اور یہ ارشاد فرما رہے تھے: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:811]
فائدہ: اس حدیث میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ دو جماعتوں سے مراد سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم کی جماعتیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی سو فیصد پوری ہوئی۔ جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہم کی بیعت کی گئی اور انہوں نے چھ ماہ خلافت بھی سنبھالی پھر خیر خواہی کی خاطر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 813
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3629
3629. حضرت ابو بکرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دن نبی ﷺ حضرت حسن ؓ کو ساتھ لے کر باہر تشریف لائے۔ انھیں لے کر آپ منبر پر تشریف فر ہوئے اور فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سید (سردار)ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3629]
حدیث حاشیہ: آپ ﷺ کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ حضرت حسن ؓ نے وہ کام کیا کہ ہزاروں مسلمانوں کی جان بچ گئی۔ حضرت امیر معاویہ ؓ سے لڑنا پسند نہ کیا۔ خلافت ان ہی کودے دی، حالانکہ ستر ہزار ّدآمیوں نے آپ کے ساتھ جان دینے پر بیعت کی تھی۔ اس طرح سے آنحضرتﷺ کی یہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی اور یہاں پر یہی مقصد باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3629
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7109
7109. سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تو سیدنا عمرو بن عاص ؓ نے سیدنا امیر معاویہ ؓ سے کہا: میں اس ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو واپس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اپنے مقابل کو بھگا نہ دے۔ اس پر سیدنا معاویہ ؓ نےکہا: ایسے حالات میں مسلمانوں کے اہل وعیال کی کون کفالت کرے گا؟ انہوں نے کہا: ان کی کفالت میں کروں گا۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ نےکہا: ہم سیدناحسن بن علی ؓ سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں صلح پر آمادہ کرتے ہیں، سیدنا حسن بصری نے کہا: میں نے ابو بکرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بے شک یہ میرا بیٹا سید ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کے دو لشکروں کے درمیان صلح کرا دے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7109]
حدیث حاشیہ: حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے مسلمانوں میں ایک بڑی جنگ ٹل گئی جبکہ حالات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے سازگار تھے مگر آپ نے اس خانہ جنگی کو حسن تدبر سے ختم کر دیا۔ اللہ پاک آپ کی روح پاک پر ہزارہا ہزار رحمت نازل فرمائے۔ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچی ہو گئی جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ اللهم صل علی محمد و علیٰ آله و أصحابه أجمعین۔ پھر یہ دونوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور صلح کی تجویز ٹھہر گئی۔ اور انہوں نے صلح کر لی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مقدمہ لشکر کے سردار قیس بن سعد تھے۔ یہ دونوں لشکر کوفہ کے قریب ایک دوسرے سے ملے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان لشکروں کی تعداد پر نظر ڈال کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو پکارا۔ فرمایا میں نے اپنے پروردگار پاس جو ملنے والا ہے اس کو اختیار کیا اگر خلافت اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے تو مجھ کو ملنے والی نہیں اور اگر میرے لیے لکھی ہے تو میں نے تم کو دے ڈالی۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر والوں نے تکبیر کہی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی إن ابني هذا سید ....أخیر تک پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ سنایا اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی، اس شرط پر کہ وہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ پر عمل کرتے رہیں۔ لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کہنے لگے یا عارالمسلمین یعنی مسلمانوں کے ننگ۔ آپ نے جواب دیا العار خیر من النار۔ جو صلح نامہ قرار پایا تھا اس میں یہ بھی شرط تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد پھر خلافت حضرت حسن کو ملے گی۔ محمد بن قدامہ نے بہ سند صحیح اور ابن ابی خیثمہ نے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اسی شرط پر بیعت کی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7109
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3746
3746. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا۔ جبکہ حضرت حسن ؓ آپ کے پہلو میں تھے۔ آپ ایک بار لوگوں کو دیکھتے دوسری مرتبہ حضرت حسن ؓ کی طرف نظر کرکے فرماتے: ”میرا یہ بیٹا(سردار)ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے باعث مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3746]
حدیث حاشیہ: حضرت حسن ؓ کے متعلق پیش گوئی حضرت امیر معاویہ ؓ کے زمانہ میں پوری ہوئی جب کہ حضرت حسن ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی صلح سے جنگ کا ایک بڑا خطرہ ٹل گیا، اللہ والوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود نقصان برداشت کرلیتے ہیں مگر فتنہ فساد نہیں چاہتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3746
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3629
3629. حضرت ابو بکرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دن نبی ﷺ حضرت حسن ؓ کو ساتھ لے کر باہر تشریف لائے۔ انھیں لے کر آپ منبر پر تشریف فر ہوئے اور فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سید (سردار)ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3629]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی، حضرت حسن ؓ نے وہ کام کیا کہ ہزاروں مسلمانوں کی جانیں بچ گئیں حضرت امیر معاویہ ؓ سے لڑنا پسندنہ کیا بلکہ صلح کر کے خلافت ان کے حوالے کردی حالانکہ ستر ہزار مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر جان دینے کی بیعت کر لی تھی۔ 2۔ یہ نبوت کی دلیل ہے کہ آپ کے اشارے کے مطابق ویسا ہی ہوا۔ امام بخاری ؒ اس حدیث کو نبوت کی دلیل کے طور پر لائے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3629
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3746
3746. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا۔ جبکہ حضرت حسن ؓ آپ کے پہلو میں تھے۔ آپ ایک بار لوگوں کو دیکھتے دوسری مرتبہ حضرت حسن ؓ کی طرف نظر کرکے فرماتے: ”میرا یہ بیٹا(سردار)ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے باعث مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3746]
حدیث حاشیہ: حضرت حسن ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حضرت معاویہ ؓ کے زمانے میں پوری ہوئی۔ حضرت حسن ؓ کے ہمراہ تقریباً چالیس ہزار فدائی تھے۔ اسی طرح حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہمراہ بھی بہت بڑا لشکر تھا۔ حضرت حسن ؓ نے قلت یا ذلت کی وجہ سے نہیں بلکہ محض امت پر شفقت کرتے ہوئے ملک اور دنیا کو چھوڑدیا اور حکومت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کردی۔ اس صلح عظیم سے ایک جنگ عظیم کا خطرہ ٹل گیا۔ اللہ والوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود نقصان برداشت کر لیتے ہیں مگر فتنہ و فساد برپا نہیں کرتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3746
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7109
7109. سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تو سیدنا عمرو بن عاص ؓ نے سیدنا امیر معاویہ ؓ سے کہا: میں اس ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو واپس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اپنے مقابل کو بھگا نہ دے۔ اس پر سیدنا معاویہ ؓ نےکہا: ایسے حالات میں مسلمانوں کے اہل وعیال کی کون کفالت کرے گا؟ انہوں نے کہا: ان کی کفالت میں کروں گا۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ نےکہا: ہم سیدناحسن بن علی ؓ سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں صلح پر آمادہ کرتے ہیں، سیدنا حسن بصری نے کہا: میں نے ابو بکرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”بے شک یہ میرا بیٹا سید ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کے دو لشکروں کے درمیان صلح کرا دے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7109]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد لوگوں نےحضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو وہ ایک بھاری لشکر لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔ دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی فوجوں کے ہمراہ کوفے کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ دونوں کوفے کے پاس ایک مقام پر اکھٹے ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب لشکروں کی تعداد دیکھی توحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آواز دے کر کہا: "میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں جو مجھے میرے پروردگار کے ہاں ملنے والی ہے۔ اگراللہ تعالیٰ نے یہ حکومت تمہارے لیے لکھ دی ہے تو یہ مجھے ملنے والی نہیں اور اگرمیرے لیے لکھی ہے تو میں تمہارے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔ "2۔ اس حدیث سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے حسن تدبیر سے خانہ جنگی کو ختم کردیا۔ انھوں نے کسی کمزوری یا ذلت وقلت کے پیش نظر حکومت نہیں چھوڑی بلکہ مسلمانوں کی جانیں بچانے کے لیے صلح کی تھی۔ انھوں نے اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں انعامات میں رغبت کی اور فتنہ وفساد کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔ دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بڑی فراخدلی کا ثبوت دیا۔ انھوں نے سفید کاغذ پر مہر لگا کر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کر دیا کہ آپ جو بھی شرائط لکھ کر دیں، میں انھیں تسلیم کر کے صلح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ 3۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ملک کی تدبیر میں ان کی نظر بہت دور اندیش تھی اور وہ انجام پر کڑی نظر رکھتے تھے، اس کے علاوہ انھیں اپنی رعایا کے ساتھ بھی بہت ہمدردی تھی، چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کے نفاذ کی شرط پر امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرلی، پھر آپ کوفے آئے تو تمام لوگوں نے آپ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے آپ سے بیعت کی۔ لوگوں کے جمع ہونے اور خانہ جنگی ختم ہونے کی بنا پر اس سال کا نام "عام الجماعۃ" رکھا گیا۔ جو حضرات فتنے کے دور میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، مثلاً: ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، محمد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی۔ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بطور انعام تین لاکھ درہم، ایک ہزار لباس، سو اونٹ اور تیس غلام دیے۔ صلح کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ روانہ ہو گئے۔ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کا اور حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرے کا حاکم بنا کر خود دمشق روانہ ہوگئے، اس طرح صلح کےمعاملات اختتام پذیر ہوئے۔ (فتح الباري: 80/13) 4۔ واضح رہے کہ باہمی فتنہ فساد کی وجہ سے لوگوں کے ذہن اس حد تک خراب ہوچکے تھے کہ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرلی تو لوگوں نے آپ کے خلاف آوازے کسے ”اے مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعار!“ لیکن حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں مستقل مزاجی کے ساتھ یہ جواب دیا کہ مجھے فتنوں کی آگ کے مقابلے میں عار زیادہ محبوب ہے۔ (فتح الباري: 82/13)(رضي الله عنه وعنا في الدنيا والآخرة)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7109