ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو کر پلٹتے تو تین بار «استغفر اللہ» کہتے، پھر کہتے: «اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام»”اے اللہ! تو سلام ہے، اور تجھ سے ہی تمام کی سلامتی ہے، تیری ذات بڑی بابرکت ہے، اے بزرگی اور عزت والے“۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1338]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1338
1338۔ اردو حاشیہ: ➊ سلام پھیرنے کے بعد استغفار کرنا مستحب ہے۔ ➋ اس حدیث مبارکہ سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے رب کے سامنے کمال عاجزی اور اظہار بندگی کا اثبات ہوتا ہے باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام لغزشیں معاف کر دی تھیں۔ ➌ بندے کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں اطاعت میں کامل ہوں بلکہ اسے یہی سمجھنا چاہیے کہ میرے اطاعت کرنے میں نقص ہے، میں نے عبادت کا حق ادا نہیں کیا، اسے استغفار کے ساتھ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ➍ ”بابرکت ہے“ یعنی تیرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، کثرت ہی کثرت ہے۔ یا جہاں تیرا ذکر ہو، وہاں برکت ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1338
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1334
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ بخشش طلب کرتے اور اس کے بعد کہتے: ”اے اللہ! تو ہی سالم اور تیری ہی طرف سلامتی ملتی ہے تو برکت و عظمت والا ہے، اے بزرگی اور برتری والے۔“ ولید کہتے ہیں میں نے اوزاعی سے پوچھا، اِستِغْفَار کیسے ہے؟ اس نے کہا، یوں کہو: (اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ، اَسْتَغْفِرُالّٰلہ)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1334]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپﷺ سلام پھیرنے کے بعد مُتَّصِلاً (اَللہُ اَکْبَر کہنے کے بعد) تین دفعہ اَسْتَغْفِرُا للہَ کہتے تھے۔ کیونکہ یہ عبدیت اور بندگی کی انتہا ہے کہ نماز جیسی عبادت کے بعد بھی اپنے آپ کو قصور وار اور حق عبادت کی ادائیگی سے کوتاہ اور عاجز سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی اور بخشش مانگی جائے اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کا اعتراف کیا جائے۔ 2۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس مختصر دعا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے آج کل عام طور پر کچھ کلمات: (وَإِلَيْكَ يَرْجِعُ السَّلاَمْ فَحَيِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ وَأَدْخِلْنَا دَارَكَ دَارَ السَّلامِ) کا اپنے طور پر اضافہ کر لیا جاتا ہے۔ علامہ سعیدی لکھتے ہیں: ”حدیث شریف میں دعا اور ذکر کے جو الفاظ وارد ہوں، ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی یا تغیر وتبدل کرنا صحیح نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دعا سکھائی، جس میں یہ الفاظ تھے۔ (وَنَبِيِّكَ الَّذي أرْسَلتَ) حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ کلمات دہرا کر آپﷺ کو سنائے تو یوں پڑھا: (وَبِرَسُوْلِكَ الَّذِيْ أَرْسَلْتَ) آپﷺ نےفرمایا: لا، نہیں۔ (وَنَبِيِّكَ الَّذِيْ أرْسَلتَ) وہی الفاظ پڑھو جو میں نے سکھائے ہیں۔ (ج: 2 ص: 192) آگے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت نقل کی ہے جس کا معنی یہ ہے: ”الفاظِ ذکر“ لفظ کے تعین اور ثواب کی مقدار میں توفیقی ہوتے ہیں، (ان میں منقول کی پابندی کی جاتی ہے) کیونکہ بسا اوقات ایک لفظ میں ایسا راز ہوتا ہے جو اس کے ہم معنی دوسرے لفظ میں نہیں ہوتا۔