جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا، جب میں (واپس آیا تو) میں نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو میں نے (اسی حالت میں) آپ کو سلام کیا، تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، جب آپ نماز پڑھ چکے تو مجھے بلایا، اور فرمایا: ”تم نے ابھی مجھے سلام کیا تھا، اور میں نماز پڑھ رہا تھا“، اور اس وقت آپ پورب کی طرف رخ کیے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1190]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 7 (540)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 59 (1018)، مسند احمد 3/334، (تحفة الأشراف: 2913) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مقصود یہ ہے کہ اس وقت آپ کا چہرہ قبلہ کی طرف نہیں تھا اس لیے مجھے یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ آپ نماز میں ہیں، اس لیے آپ نے بعد میں بلا کر وضاحت کی، اور پورب کی طرف رخ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ آپ اس وقت اپنی سواری پر تھے، اور سواری قبلہ سے پورب کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1190
1190۔ اردو حاشیہ: ”مشرق کی طرف“ سے مراد یہ ہے کہ آپ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھ رہے تھے کیونکہ مدینے میں قبلہ تو جنوب کی طرف ہے لیکن سفر کے دوران میں نفل نماز کے لیے قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں۔ صرف آغاز میں سواری کا رخ قبلے کی طرف کرنا ضروری ہے، بعد میں چاہے سواری کا رخ جدھر بھی ہو جائے، نماز پڑھتے رہنا چاہیے۔ اس سے نمازی کو سلام کرنے اور نمازی کا اشارے سے جواب دینا بھی ثابت ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1190