الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب التطبيق
کتاب: تطبیق کے احکام و مسائل
79. بَابُ : فَضْلِ السُّجُودِ
79. باب: سجدہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1139
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ هِقْلِ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، قال: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيُّ، قال: كُنْتُ آتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوئِهِ وَبِحَاجَتِهِ فَقَالَ: سَلْنِي، قُلْتُ: مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ: أَوَ غَيْرَ ذَلِكَ قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ قَالَ:" فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ".
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے وضو اور آپ کی حاجت کا پانی لے کر آتا تھا، تو ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مانگنا ہو مجھ سے مانگو، میں نے کہا: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ اور بھی کچھ؟ میں نے عرض کیا: بس یہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے اوپر کثرت سجدہ کو لازم کر کے میری مدد کرو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1139]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصلاة 43 (489)، سنن ابی داود/فیہ 312 (1320)، سنن الترمذی/الدعوات 27 (3416)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 16 (3879)، (تحفة الأشراف: 3603)، مسند احمد 4/57، 58، 59 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی کثرت سے سجدے کیا کرو اس لیے کہ نماز کی عبادت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، شاید تمہاری کثرت سجود سے مجھے تمہارے لیے اپنی رفاقت کی سفارش کا موقع مل جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   سنن النسائى الصغرىأعني على نفسك بكثرة السجود
   صحيح مسلمأعني على نفسك بكثرة السجود
   سنن أبي داودأعني على نفسك بكثرة السجود

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1139 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1139  
1139۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا صرف سفارش اور دوسروں کی دعا پر اعتماد کافی نہیں بلکہ خود بھی کچھ مشکلات برداشت کرنی چاہئیں تاکہ سفارش اور دعا کا صحیح محل بن سکے۔ سفارش اور دعا کی وجہ جوازی بھی تو ہونی چاہیے۔
➋ خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ اصلاح نفس کا بہترین نسخہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا۔
➌ جنت میں جانے کے لیے اصلاح نفس ازحد ضروری ہے۔
➍ مراتب عالیہ کا حصول نفس امارہ کی مخالفت ہی سے ممکن ہے۔
➎ اس حدیث مبارکہ سے نفلی نماز کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔
➏ جنت میں کچھ عام لوگ بھی انبیاء کے ساتھ ہوں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1139   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1320  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد پڑھنے کے وقت کا بیان۔`
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزارتا تھا، آپ کو وضو اور حاجت کا پانی لا کر دیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: مانگو مجھ سے، میں نے عرض کیا: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ اور کچھ؟، میں نے کہا: بس یہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو اپنے واسطے کثرت سے سجدے کر کے (یعنی نماز پڑھ کر) میری مدد کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1320]
1320. اردو حاشیہ: فائدہ: یعنی میں تیری سفارش کروں گا کہ تو میرے ساتھ جنت میں رہے مگر کثرت عبادت ضروری ہے۔ سجدے بہت کیا کرو۔ حضرت ربیعہ کی منتہائے نظر پر زبان بے ساختہ عش عش کر اٹھتی ہے۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1320   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1094  
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات گزارتا تھا، (جب آپﷺ تہجد کے لیے اٹھے) تو میں نے وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپﷺ نے مجھے فرمایا: مانگو میں نے عرض کیا: میری مانگ یہ ہے کہ جنت میں آپﷺ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: یہی یا اس کے سوا کچھ اور بھی؟ میں نے عرض کیا بس میں تو یہی مانگتا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا: تم اپنے اس معاملے میں سجدوں کی کثرت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1094]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اصحاب صفہ میں سے تھے اور سفر و حضر میں آپﷺ کے خادم کی حیثیت سے آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے تو کسی رات یہ واقعہ پیش آیا نیز ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں کثرت سجود مراد نفل نمازوں کی کثرت ہے۔
(2)
مقربین بارگاہ خداوندی پر کبھی کبھی ایسے حالات آتے ہیں کہ وہ محسوس کرتے ہیں۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کی عنایات وافضال متوجہ ہیں جس کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اللہ سے جو کچھ مانگا جائے گا ان شاء اللہ مل جائے گا کسی رات جب حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی خدمت میں پانی اور دوسری ضرورت کی چیزیں لے کر حاضر ہوئے تو آپﷺ نے ان کی خدمت سے متاثر ہو کر مسرت و انبساط کے عالم میں فرمایا ربیعہ تمھارے دل میں اگر کسی خاص چیز کی چاہت اور آرزو ہو تو اس وقت مانگ لو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا اور امید ہے وہ تمھارے مراد پوری فرمائے گا انھوں نے اس کے جواب میں جنت میں آپﷺ کی رفاقت کی خواہش کی اور مکرر دریافت کرنے پر بھی یہی کہا مجھے تو بس یہی چاہیے تو آپﷺ نے فرمایا:
تم جنت میں میری رفاقت چاہتے ہو یہ بہت بلند و بالا مقام ہے اور اس عظیم مرتبہ کے لیے میں تمھارے حق میں دعا کروں گا لیکن تم بھی اس کا استحقاق پیدا کرنے کے لیے عملی کوشش کرو اور وہ خاص عمل جو اس منزل تک پہنچانے میں مددگار ہو سکتا ہے وہ اللہ کے حضور سجدوں کی کثرت ہے لہٰذا تم اس کا خاص اہتمام کر کے اپنے اس معاملہ میں میری مدد کرو۔
ہماری اس وضاحت سے اس غلط استدلال کا جواب مل جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا:
مانگ کیا مانگتا ہے؟ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کی تمام نعمتیں آپﷺ کے ملک اور اختیار میں دے دی تھیں کہ جس کو چاہیں اور جتنا چاہیں (بشرط موافقت تقدیر)
عطا کر دیں اگر سب نعمتیں آپﷺ کے اختیار اور ملک میں دے دی تھیں تو پھر آپﷺ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ (اور اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا:
)

﴿إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ (اور)
﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا﴾ (میں تو اپنے نفع اور نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں)
(اور آپﷺ نے اپنی پھوپھی اور بیٹی کو کیوں فرمایا:
(إني لا أملك لكم من الله شيئأ)
اور مزید برآں اللہ کی اجازت سے دینے کو تو اختیار اور ملکیت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کہ ہر چہ خواہد ہر کر خواہد باذن پرورددگار خود ہد کہ جو کچھ چاہتے اور جس کو چاہتے اپنے پروردگار کے اذن سے عطا فرماتے جب اذن کی ضرورت ہے تو پھر ہرچہ اور ہرکرا کہنا کہاں تک درست ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1094