ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نمازی کے آگے کجاوہ کی لکڑی کے مثل کوئی چیز نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے اور کتے کے گزرنے سے ٹوٹ جاتی ہے“۱؎۔ عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کالے کتے کی تخصیص کی کیا وجہ ہے؟ اگر لال کتا ہو تو؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”کالا کتا شیطان ہے“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 952]
وضاحت: ۱؎: جمہور نے ان روایتوں کی تاویل کی ہے کہ نماز ٹوٹنے سے مراد توجہ بٹ جانے کی وجہ سے نماز میں نقص اور خلل کا پیدا ہونا ہے نہ کہ نماز کا فی الواقع ٹوٹ جانا ہے، اوپر کے حواشی میں اہل علم کی آرا ء کا ذکر آ گیا ہے، جن علماء نے ان تینوں کے گزرنے سے نماز کے باطل ہونے کی بات کہی ہے، ان میں شیخ الإسلام ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن قدامہ اور ظاہر یہ ہیں، ان کے یہاں وہ روایات جن میں نماز کے نہ دہرانے کی بات ہے، وہ عام احادیث ہیں، جن میں سے مذکورہ تین چیزوں کو استثناء حاصل ہے، تو اب سابقہ حدیث عام مخصوص ہو گی اور ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل ہو گا۔ ۲؎: یعنی شیطان کتے کی صورت اختیار کر کے نماز توڑنے کے لئے آتا ہے، یا خود کالا کتا شیطان ہوتا ہے، یعنی شریر اور منحوس ہوتا ہے، غرض نماز کا اس سے ٹوٹ جانا حکم شرعی ہے اس میں قیاس کو دخل نہیں، اور تعجب ہے کہ حنفیہ ایک ضعیف حدیث سے قہقہہ کو ناقص وضو جانتے ہیں، اور قیاس کو ترک کرتے ہیں اور یہاں صحیح حدیث کو قیاس کے خلاف نہیں مانتے، بعض لوگوں نے اسے حقیقت پر محمول کیاہے اور کہا ہے کہ شیطان کالے کتے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کالا کتا دوسرے کتوں کے مقابل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے اس لیے اسے شیطان کہا گیا ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث952
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کالے کتے کو نمازی کے سامنے لاتا ہے۔ یا خود شیطان کتے کی صورت بن کر آ جاتا ہے۔ تاکہ نمازی کی توجہ اس کی طرف ہوجائے۔ ویسے بھی بعض جانوروں میں شیطان سے مناسبت پائی جاتی ہے۔ اور ان میں شرارت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔
(2) ان کے گزرنے سے واقعی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کی بابت اختلاف ہے۔ علماء کا ایک گروہ نماز ٹوٹ جانے کا قائل ہے جیسا کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے دوسرے علماء کہتے ہیں کہ نماز ٹوٹنے سے مراد خشوع خضوع میں کمی ہے۔ ایک تیسری رائے یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور اس کی ناسخ یہ حدیث ہے۔ (لَايَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْئٌُ) (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب من قال لا یقطع...، حدیث: 719) ”نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی“ لیکن پہلا موقف راجح ہے کیونکہ اس کی تائید ایک اور صحیح حدیث سے ہوتی ہے جس میں ہے: (تعاد الصلاة من ممر الحمار والمرأة والكلب الأسود) (الصحيحة: 959/7، حديث: 3323) ”گدھے، عورت اور سیاہ کتے کے گزرنے پر نماز لوٹائی جائے“ اور جنھوں نے (لَايَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْئٌُ) سے استدلال کیا ہے۔ ان کے نزدیک تو اس عموم سے وہ تین چیزیں خارج ہوں گی۔ جن کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اور وہ ہیں۔ عورت گدھا اور کالا کتا۔ اس حدیث کے عموم سے مذکورہ تینوں چیزیں مستثنیٰ ہوں گی۔ یعنی ان کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ اوراس کا اعادہ ضروری ہوگا البتہ ان کےعلاوہ کسی چیز کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹے گی۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 952