ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہو گیا، لیکن درود کیسے بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہو: «اللهم صل على محمد عبدك ورسولك كما صليت على إبراهيم وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم»”اے اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر رحمت نازل فرمائی ہے، اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے اہل و عیال پہ برکت اتار جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر اتاری ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 903]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث903
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾(الأحزاب: 56) ”بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریمﷺ پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے مومنو! تم بھی ان پر درود پڑھو اور سلام عرض کرو۔“ صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین نے اس آیت کی وضاحت دریافت فرمائی۔ تو رسول اللہ ﷺنے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا۔
(2) سلام کہنے کا طریقہ نماز کے باہر تو وہی ہے۔ جو عام مسلمانوں کا باہمی سلام ہے۔ صحابہ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ تو اس معروف طریقے سے سلام عرض کرتے تھے۔ نماز کے اندر سلام کا طریقہ پچھلے باب میں بیان ہوچکا۔ اس لئے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے کہا کہ سلام ہمیں معلوم ہے۔
(3) صلاۃ کا مطلب دعا رحمت اور درود ہے۔ نماز کو بھی صلاۃ اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ دعائوں پر مشتمل ہے مومنوں اور فرشتوں کی طرف سے نبی پردرود بھی ایک دعا ہے۔ جیسے کہ درود شریف کے الفاظ سے واضح ہے۔ اللہ کی طرف سے نبی کریمﷺ پر صلاۃ (درود) کا مطلب انسانوں اور فرشتوں کی دعا قبول کرکے اپنے نبی ﷺ پر رحمت نازل کرنا اور اس کے درجات بلند کرنا ہے۔
(4) درود کا حکم ہونے پر صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے اپنی طرف سے مناسب الفاظ جمع کرکے دعا نہیں بنائی۔ بلکہ رسول اللہﷺ سے اس کا طریقہ معلوم کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اذکار کے الفاظ وہی درست ہوتے ہیں۔ جو قرآن وحدیث سے ثابت ہوں۔ ان الفاظ میں کمی بیشی کرنا یا اپنے پا س سے ا ذکار بنا لینا درست نہیں۔ نہ ان خود ساختہ اذکار کا کوئی ثواب ہے۔
(5) آل سے عام طور پر اولاد مراد لی جاتی ہے لیکن شریعت کی اصطلاح میں آل سے مراد وہ سب لوگ ہوتے ہیں۔ جو کسی عظیم شخصیت سے محبت رکھنے والے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں۔ اسی طرح کسی دنیاوی سردار کے ساتھی اور متبعین کو بھی اس کی آل کہا جاسکتا ہے۔ جیسے کہ قران مجید میں آل فرعون کے الفاظ وارد ہیں۔ حالانکہ فرعون کی کوئی صلبی اولاد نہ تھی۔ اسی وجہ سے اس نے حضرت موسیٰ ؑ کو بیٹے کے طور پر پالنا منظور کرلیا تھا۔
(6) درود شریف کے مختلف الفاظ صحیح احادیث میں وارد ہیں۔ ان میں سے کسی بھی صحیح روایت کے مطابق درود شریف پڑھ لینا درست ہے۔ اس سلسلے میں بعض روایات اسی باب میں آ رہی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 903
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4798
4798. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ پر سلام پڑھنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے لیکن صلاۃ بھیجنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یوں کہا کرو: ”اے اللہ! تو اپنے بندے اور اپنے رسول حضرت محمد ﷺ پر رحمتیں نازل فرما، جس طرح تو نے حضرت ابراہیم کی آل پر رحمتیں نازل فرمائیں۔ اے اللہ! حضرت محمد ﷺ اور حضرت محمد ﷺ کی اولاد پر برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم ؑ کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں۔“ ابو صالح نے حضرت لیث سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں: ”محمد ﷺ پر اور محمد ﷺ کی آل پر جس طرح تو نے حضرت ابراہیم ؑ کی آل پر برکات نازل فرمائی ہیں۔“ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”جیسے تو نے حضرت ابراہیم ؑ پر رحمتیں نازل کی ہیں اور حضرت محمد ﷺ اور حضرت محمد ﷺ کی آل پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے حضرت ابراہیم ؑ پر اور حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد پر برکات نازل کی ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4798]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور آپ کی ذریت کے الفاظ بھی ہیں جیسا کہ حدیث 6360۔ میں ہے بہر حال درود کے مختلف الفاظ کتب حدیث میں آئے ہیں اس لیے درود ضرور پڑھنا چاہیے لیکن مسنون الفاظ کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے ہاں جو مسنون درود پڑھا جاتا ہے اس کے الفاظ صحیح بخاری (حدیث: 3370) میں ہیں۔ 2۔ مسنون درود پڑھنے کے بہت فضائل ہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہو تا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ “(صحیح مسلم الصلاۃ حدیث: 912۔ (408)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے اس کے دس گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور اس کے دس درجات بلند ہو جاتے ہیں۔ “(سنن النسائی السہوحدیث: 1298)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا شخص قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب ہو گا۔ “(جامع الترمذی الوتر حدیث: 484)
حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خوشخبری دی ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو میں اس پر رحمتیں نازل کرتا ہوں اور جو آپ پر سلام بھیجتا ہے تو میں اس پر سلامتی بھیجتا ہوں۔ (مسند احمد 1/191)
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو وہ انتہائی کنجوس اور بخیل ہے۔ “(جامع الترمذی الدعوات حدیث: 3546)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب تک تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجو تو تمھاری دعا آسمان و زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے وہ اوپر نہیں چڑھتی۔ (جامع الترمذی الوترحدیث: 486)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4798
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6358
6358. حضرت ابو سعید خدری ؓ سےروایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ پر سلام پیش کرنا تو ہم نے معلوم کر لیا ہے لیکن آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ آپ نے فرمایا: ”اس طرح کہو: اے اللہ! محمد(ﷺ) پر رحمت نازل فرما اور آپ کی آل پر بھی جس طرح تو نے آل ابراھیم پر رحمت نازل فرمائی۔ اے اللہ! محمد (ﷺ) پر برکت نازل فرما اور آپ کی آل پر بھی جس طرح تو نے ابراہیم اور ان کی آل پر برکت نازل کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6358]
حدیث حاشیہ: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے: ''اے ایمان والو! تم اپنے نبی پر درود بھیجو اور خوب خوب سلام بھیجو۔ '' (الأحزاب: 56) چنانچہ تمام مسلمان نماز میں دوران تشہد میں کہتے ہیں: (السلامُ عليكَ أيُّها النبيُّ ورحمةُ اللهِ وبركاتُهُ) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ سلام پڑھنے کا طریقہ تو ہم نے سیکھ لیا ہے جبکہ آپ پر درود پڑھنا بھی ضروری ہے وہ کس طرح پڑھیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا درود کے الفاظ تلقین فرمائے۔ ہم جو درود ابراہیمی پڑھتے ہیں اس کے الفاظ بھی حدیث میں منقول ہیں۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3370) بہرحال درود پڑھیے، ضرور پڑھیے مگر مسنون پڑھیے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6358