جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے لیے امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 850]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2675، ومصباح الزجاجة: 310)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/339) (ضعیف)» (سند میں جابر الجعفی ضعیف بلکہ متہم بالکذب راوی ہے، اس لئے علماء کی اکثریت نے اس حدیث کی تضعیف فرمائی ہے، شیخ البانی نے شواہد کی بناء پراس کی تحسین کی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 850، نیز ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة: و فتح الباری: 2/242 وسنن الترمذی بتحقیق احمد شاکر 2/121-126، و سنن الدار قطنی: 1/323- 333)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں: «له طرق أخرى كلها واهية» یعنی اس حدیث کے تمام کے تمام طرق واہی ہیں، علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: «طرق كلها معلولة» یعنی اس کے تمام طرق معلول ہیں، امام بخاری «جزء قراءت» میں فرماتے ہیں: «هذا خبر لم يثبت عند أهل العلم من أهل الحجاز وأهل العراق وغيرهم لإرساله و انقطاعه» یعنی یہ حدیث حجاز و عراق وغیرہ کے اہل علم کے نزدیک بسبب مرسل اور منقطع ہونے کے ثابت نہیں، اور اگر ثابت مان بھی لیا جائے، تو اس کا معنی یہ ہے کہ صرف سورۃ فاتحہ پڑھے کچھ اور پڑھنے کی ضرورت نہیں، فاتحہ کافی ہے تاکہ اس کا معنی دوسری احادیث کے مطابق ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف قال البو صيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف،جابر هو ابن يزيد الجعفي متھم ‘‘ جابر الجعفي ضعيف رافضي وأبو الزبير عنعن وللحديث شواهد كلھا ضعيفة۔ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 408
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث850
اردو حاشہ: فائدہ: اس حدیث سے استدلال کرکے کہا جاتا ہے۔ کہ مقتدی کو قراءت کی ضرورت نہیں امام کی قراءت ہی اس کےلئے کافی ہے۔ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لئے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 850