عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، کچھ لوگ واپس چلے گئے، اور کچھ لوگ پیچھے مسجد میں رہ گئے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ آئے، آپ کا سانس پھول رہا تھا، اور آپ کے دونوں گھٹنے کھلے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ! یہ تمہارا رب ہے، اس نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا، اور تمہارا ذکر فرشتوں سے فخریہ فرما رہا ہے اور کہہ رہا ہے: فرشتو! میرے بندوں کو دیکھو، ان لوگوں نے ایک فریضے کی ادائیگی کر لی ہے، اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 801]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8947، ومصباح الزجاجة: 301)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 197، 208) (صحیح) (ملا حظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 661)»
وضاحت: ۱؎: تیز تیز آنے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس پھول گیا اور گھٹنے کھل گئے، اس سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ گھٹنے ستر میں داخل نہیں، اس حدیث میں اللہ تعالی کا کلام کرنا، نزول فرمانا، خوش ہونا جیسی صفات کا ذکر ہے، ان کو اسی طرح بلا تاویل و تحریف ماننا ضروری ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث801
اردو حاشہ: (1) نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا بہت عظیم عمل ہے۔
(2) گھٹنا ستر میں شامل نہیں۔
(3) اللہ تعالی مومن بندوں کے نیک اعمال سے خوش ہوتا ہے۔
(4) اللہ تعالی فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ کلام اللہ کی صفت ہے وہ جب چاہتا ہے جس سے چاہتا ہےکلام فرماتا ہے قیامت کے دن ہر انسان سے براہ راست کلام فرمائے گا اور حساب لے گا اہل جنت سے اپنی خوشنودی کے اظہار کے لیے کلام فرمائے گا۔
(5) اللہ تعالی فرشتوں سے ہم کلام اس لیے ہوتا ہے کہ انھوں نے ہی اللہ تعالی کے سامنے ایک روز کہا تھا کہ آدم کی اولاد تیری نافرمانی کرے گی خون بہائے گی اور فساد برپا کرے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 801