الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
أبواب التيمم
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
107. . بَابٌ في الْمَرْأَةِ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ
107. باب: مرد کی طرح عورت کو خواب میں احتلام ہو تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 600
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّهَا أَمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَسَأَلَتْهُ عَنِ الْمَرْأَةِ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ؟ قَالَ:" نَعَمْ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ"، فَقُلْتُ: فَضَحْتِ النِّسَاءَ، وَهَلْ تَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَرِبَتْ يَمِينُكِ، فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا إِذًا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے پوچھا کہ اگر عورت خواب میں ویسا ہی دیکھے جیسا مرد دیکھتا ہے تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جب پانی (منی) دیکھے تو غسل کرے، میں نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: تم نے تو عورتوں کو رسوا کیا یعنی ان کی جگ ہنسائی کا سامان مہیا کرا دیا، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھلا ہو، اگر ایسا نہیں ہوتا تو کس وجہ سے بچہ اس کے مشابہ ہوتا ہے؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 600]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العلم 50 (130)، الغسل 22 (282)، الأنبیاء 1 (3328)، الأدب 68 (6091)، 79 (6121)، صحیح مسلم/الحیض 7 (313)، سنن الترمذی/الطہارة 90 (122)، سنن النسائی/الطہارة 131 (197)، (تحفة الأشراف: 18264)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 21 (85)، مسند احمد (6/ 292، 302، 306) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: تو معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش میں مرد اور عورت دونوں کا نطفہ شریک ہوتا ہے، اور جب عورت کی منی بھی ثابت ہوئی تو خواب میں اس کی منی کا نکلنا کیا بعید ہے، جیسے مرد کی منی نکلتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخارينعم إذا رأت الماء فضحكت أم سلمة فقالت تحتلم المرأة فقال رسول الله فبم يشبه الولد
   صحيح البخاريهل على المرأة غسل إذا احتلمت فقال نعم إذا رأت الماء
   صحيح البخاريهل على المرأة من غسل إذا هي احتلمت فقال رسول الله نعم إذا رأت الماء
   صحيح البخاريإذا رأت الماء فغطت أم سلمة تعني وجهها وقالت يا رسول الله أوتحتلم المرأة قال نعم تربت يمينك فبم يشبهها ولدها
   جامع الترمذينعم إذا هي رأت الماء فلتغتسل
   سنن النسائى الصغرىهل على المرأة غسل إذا هي احتلمت قال نعم إذا رأت الماء فضحكت أم سلمة فقالت أتحتلم المرأة فقال رسول الله ففيم يشبهها الولد
   سنن ابن ماجهالمرأة ترى في منامها ما يرى الرجل قال نعم إذا رأت الماء فلتغتسل فقلت فضحت النساء وهل تحتلم المرأة قال النبي تربت يمينك فبم يشبهها ولدها إذا
   موطأ مالك رواية يحيى الليثيالله لا يستحيي من الحق هل على المرأة من غسل إذا هي احتلمت فقال نعم إذا رأت الماء
   بلوغ المرامإن الله لا يستحيي من الحق،‏‏‏‏ فهل على المراة الغسل إذا احتلمت؟ قال: ‏‏‏‏نعم إذا رات الماء
   بلوغ المرام‏‏‏‏نعم،‏‏‏‏ فمن اين يكون الشبه؟
   المعجم الصغير للطبراني أتحتلم المرأة ؟ ، فقال صلى الله عليه وآله وسلم : لولا ذلك لما كان يشبه أمه
   مسندالحميديإذا رأت إحداكن الماء فلتغسل

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 600 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث600  
اردو حاشہ:
(1)
عورت عالم دین مرد سے ہر قسم کا مسئلہ پوچھ سکتی ہے لیکن انداز اور الفاظ  کا انتخاب مناسب اور حیا کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔

(2)
ام المومنین رضی اللہ عنہ کو اس سوال پر تعجب ہوا کیونکہ انھیں کبھی ایسی صورت حال پیش نہیں آئی تھی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں میں یہ صورت حال شاذونادر پیش آتی ہے جبکہ مردوں میں یہ ایک معمول کا مسئلہ ہے
(3)
صرف خواب میں مباشرت کا عمل یا ایسی کوئی چیز نظر آنے سے غسل فرض نہیں ہوتا بلکہ انزال سے غسل فرض ہوتا ہے، اس لیے اگر جسم پر یا لباس پرمادہ منویہ لگا ہوا نظر آئے توغسل کرنا فرض ہوجاتا ہے، خواہ خواب یاد ہو یا نہ ہو۔

(4)
 (تَرِبَتْ يَمِينُكِ)
 کے لفظی معنی ہیںتیرے داہنے ہاتھ کو مٹی لگے  لیکن اہل عرب اس قسم کے محاورات تعجب یا ڈانٹ کے موقع پر بولتے ہیں، لفظی مطلب مقصود نہیں ہوتا۔

(5)
چونکہ بچے کی تخلیق میں مرد اور عورت دونوں کے پانی کا دخل ہوتا ہے، اس لیے بچہ کبھی باپ یا ددھیالی رشتہ داروں سے مشابہت رکھتا ہے، اور کبھی ماں اور ننھیالی رشتہ داروں سے۔
ارشاد نبوی کا مطلب یہ ہے کہ جب عورت میں یہ پانی موجود ہے جس سے بچے کی تخلیق ہوتی ہے، تو وہ خواب میں جسم سے خارج بھی ہوسکتا ہے لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 600   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3328  
´آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی پیدائش کے بیان میں`
«. . . عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ الْغَسْلُ إِذَا احْتَلَمَتْ، قَالَ: نَعَمْ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ فَضَحِكَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: تَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَبِمَ يُشْبِهُ الْوَلَدُ . . .»
. . . زینب بنت ابی سلمہ نے، ان سے (ام المؤمنین) ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے کہ` ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا، تو کیا اگر عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بشرطیکہ وہ تری دیکھ لے۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور فرمانے لگیں، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر ایسا نہیں ہے) تو پھر بچے میں (ماں کی) مشابہت کہاں سے آتی ہے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3328]
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَذُرِّيَّتِهِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت یعنی ان کی اولادوں کی تخلیق کی بابت روشنی ڈالی۔ مگر حدیث میں ایسے کوئی ظاہر الفاظ موجود نہیں، جس سے بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت کا پتہ چلے، لیکن بغور مطالعہ سے ایک لفظ کے ساتھ حدیث کی مناسبت باب سے قائم ہوتی ہوئی دکھلاتی ہے، حدیث کے آخری لفظ کو پڑھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سوال کے جواب میں کیا فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ:
«فبم يشبه الولد»
حدیث کے اس جملے میں بچے کی پیدائش کا ذکر ہے اور ترجمۃ الباب میں بھی آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا بھی ذکر موجود ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه قوله فى آخره فبم يشبه الولد؟» [فح الباري: 307/7]
یعنی ترجمۃ الباب سے حدیث کی جو غرض ہے، وہ ان الفاظ کے ساتھ ہے،
«فبم يشبه الولد؟»
◈ علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«هذا استدلال على أن لها منيًّا كما للرجل منيّ والولد مخلوق منهما إذ لو لم يكن بها ماء وكان الولد من مائه المجدد لم يكن يشبهها لأن الشبه بسبب ما بينهما من المشاركة» [ارشاد الساري للقسطلاني: 9/139]
ترجمۃ الباب سے استدلال کچھ یوں ہے کہ عورت کی بعین اسی طرح سے منی ہوتی ہے، جس طرح مرد کی ہوتی ہے اور اولاد کی تخلیق ان دونوں سے ہوتی ہے، اگر عورت کا پانی نہ ہوتا تو بچہ ماں کے مشابہ نہ ہوتا، (یعنی بچہ کی مشابہت ماں سے اس کے پانی کے سبب ہے)۔
پس اگر آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جاتا ہے تو وہ بچہ باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور اگر اس کے بر عکس ہوا یعنی عورت کا پانی غالب آ گیا مرد کے پانی پر، تو وہ بچہ ماں کے مشابہ ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ لڑکی پیدا ہو۔
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ کا مقصد بیان واضح ہوتا ہے کہ آپ بھی مرد اور عورت کے باہمی تعلقات سے جو حضرت انسان پیدا ہوتا ہے، اس کی پیدائش کا ذکر فرما رہے ہیں، یعنی ترجمۃ الباب میں اور حدیث میں مناسبت لفظ حدیث میں مقید ہے اور لفظ حدیث کا تعلق تولیدی نظام کے ساتھ ہے، اسی بات کی طرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر شارحین نے اشارہ فرمایا ہے، لہٰذا مناسبت باب کی حدیث سے حدیث کے آخری لفظ میں ہے۔
◈ علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدیث اور باب میں غرض حدیث کے آخری جملے میں ہے،
«فبم يشبه الولد» [لب اللباب: 190/3]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 20   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 96  
´احتلام ہو جائے تو اس پر بھی غسل فرض ہے`
«. . . وعن ام سلمة رضي الله عنها ان ام سليم- وهى امراة ابي طلحة- قالت: يا رسول الله! إن الله لا يستحيي من الحق،‏‏‏‏ فهل على المراة الغسل إذا احتلمت؟ قال: ‏‏‏‏نعم إذا رات الماء . . .»
. . . سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے حیاء نہیں کرتا تو بتائیں کیا عورت کو جب احتلام ہو جائے تو اس پر بھی غسل فرض ہے؟ فرمایا ہاں! جب وہ پانی دیکھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 96]
لغوی تشریح:
«لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ» حا کے بعد دو یا ہیں۔ حا اس میں ساکن ہے۔ معنی یہ ہیں کہ وہ حق بیان کرنے سے رکتا ہے نہ حیا کرنے والے کی طرح حق کو ترک کرتا ہے۔ اسی طرح جن مسائل کے دریافت کرنے کی مجھے ضرورت و احتیاج ہے ان سے میں رک نہیں سکتی۔ یہ بات انہوں نے اعتذار کے طور پر کہی کیونکہ عورتیں اس قسم کی باتیں پوچھنے میں شرماتی ہیں۔
«إذَا احتلمت» یعنی جب اسے احتلام ہو جائے۔ ایک دوسری روایت میں: «إذَا رَأَتْ أَنَّ زَوْجَهَا يُحَامِعُهَا فِي الْمَنَامِ» کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ [مسند أحمد: 346/6، 377]
یعنی جب وہ دیکھے کہ خواب میں اس کا شوہر اس سے زن و شو کے تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔
«اذا رأتِ انمَاء» جب نیند سے بیدار ہو کر منی دیکھے۔

راویٔ حدیث:
(سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا) ان کا نام رمیصاء یا غمیصاء بنت ملحان تھا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں۔ فاضلہ و عالمہ خاتوں تھیں۔ مالک بن نصر کی زوجیت میں تھیں۔ یہ مسلمان ہو گئیں۔ انہوں نے اپنے خاوند کے سامنے اسلام پیش کیا تو وہ اسی وجہ سے ناراض ہو کر شام کی طرف بھاگ گیا اور فوت ہو گیا۔ مالک بن نصر کی وفات کے بعد ابوطلحہ نے ان کو پیغام نکاح دیا۔ ابوطلحہ ابھی مشرک تھے۔ ام سلیم نے شرط پیش کی کہ اسلام قبول کر لو تو میں تمہارے ساتھ نکاح کر لوں گی۔ اس شرط کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے قبول کیا اور مسلمان ہو گئے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ان سے نکاح کر لیا۔ ان کے بہت زیادہ فضائل و مناقب ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 96   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 97  
´عورت کو احتلام ہو جائے تو اس پر بھی غسل فرض ہے`
«. . . وعن انس رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: فى المراة ترى فى منامها ما يرى الرجل،‏‏‏‏ قال: ‏‏‏‏تغتسل . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے متعلق فرمایا جو خواب میں وہی کچھ دیکھے جو ایک نوجوان مرد دیکھتا ہے (احتلام) کہ وہ غسل کرے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 97]
لغوی تشریح:
«مَا يَرَي الرَّجُلُ» اس سے مراد احتلام ہے۔
«فَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشِّبْهُ؟» شبه میں شین پر کسرہ ہے اور با ساکن ہے اور دونوں پر فتحہ بھی جائز ہے۔ مماثلت کے معنی ہیں۔ اور اس میں «أَيْنَ» استفہامیہ ہے جو دراصل سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اس خیال کی تردید کے لیے ہے کہ آیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے۔ گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ بچہ کبھی باپ سے مشابہت رکھتا ہے اور کبھی ماں اور خالاؤں سے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ شہوت کے وقت عورت کے اندر سے بھی منی خارج ہو اور بچے کی خلقت و ساخت میں حصہ دار بنے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا انکار اس پر دلالت کرتا ہے کہ عورتوں کو احتلام نادر طور پر، یعنی بہت کم ہوتا ہے، مردوں کی طرح کثرت سے نہیں ہوتا۔

فائدہ:
جس طرح مردوں کو احتلام لاحق ہوتا ہے اور ان پر غسل کرنا فرض ہے، اسی طرح عورتوں کو بھی یہ صورت لاحق ہوتی ہے، ایسی صورت میں ان پر بھی غسل کرنا فرض ہے۔ باقی رہا بچے کی مشابہت کا مسئلہ تو اس بارے میں حدیث سے ثابت ہے کہ جب مرد کا پانی غالب ہوتا ہے تو نومولود کی مشابہت باپ سے ہوتی ہے اور جب ماں کا پانی غالب ہو تو بچے کی مشابہت والدہ سے ہوتی ہے۔ [صحيح البخاري، مناقب النصار، حديث: 3938]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 97   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 130  
´حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے`
«. . . عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ، فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ تَعْنِي وَجْهَهَا، وَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ، تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا . . .»
. . . وہ (اپنی والدہ) ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ام سلیم (نامی ایک عورت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا (اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ہاں) جب عورت پانی دیکھ لے۔ (یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو) تو (یہ سن کر) ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے (شرم کی وجہ سے) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے (یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ:: 130]
تشریح:
متکبر اپنے تکبر کی حماقت میں مبتلا ہے جو کسی سے تحصیل علم اپنی کسرشان سمجھتا ہے اور شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ حیادار بن رہا ہے، جہاں حیا و شرم کا کوئی مقام نہیں۔

انصار کی عورتیں ان مخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں کسی قسم کی شرم سے کام نہیں لیتی تھیں، جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مسائل کو وضاحت کے ساتھ دریافت نہ کرتیں توآج مسلمان عورتوں کو اپنی زندگی کے اس گوشے کے لیے رہنمائی کہاں سے ملتی، اسی طرح مذکورہ حدیث میں سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نہایت خوب صورتی کے ساتھ پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت خاص بیان فرمائی کہ وہ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا، پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے، مگر مسئلہ ہونے کی حیثیت میں اپنی جگہ دریافت طلب تھا، پس پوری امت پر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احسان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی زندگی سے متعلق بھی وہ باتیں کھول کر بیان فرما دیں جنہیں عام طور پر لوگ بےجا شرم کے سہارے بیان نہیں کرتے اور دوسری طرف صحابیہ عورتوں کی بھی یہ امت بے حد ممنون ہے کہ انہوں نے آپ سے سب مسائل دریافت کر ڈالے، جن کی ہر عورت کو ضرورت پیش آتی ہے۔

سیدہ زینب بنت عبداللہ بن الاسد مخزومی اپنے زمانہ کی بڑی فاضلہ خاتون تھیں، ان کی والدہ ماجدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند عبداللہ کی وفات بعد غزوہ احد کے عدت گزارنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوئیں تو ان کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس ہوئی۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنہوں نے مدینہ طیبہ کو ہجرت کی، ان کے خاوند ابوسلمہ بدرمیں شریک تھے، احد میں یہ مجروح ہوئے اور بعد میں وفات پائی، جن کے جنازے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نو تکبیروں سے نماز جنازہ ادا فرمائی تھی، اس وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا حاملہ تھیں۔ وضع حمل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں ان کو شرف حاصل ہوا۔ ام سلیم حضرت انس کی والدہ محترمہ ہیں اور حضرت ابوطلحہ انصاری کی زوجہ مطہرہ ہیں، اسلام میں ان کا بھی بڑا اونچا مقام ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 130   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 282  
´جب عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل واجب ہے`
«. . . عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ امْرَأَةُ أَبِي طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا هِيَ احْتَلَمَتْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ " . . . .»
. . . ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ ام سلیم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ اللہ تعالیٰ حق سے حیاء نہیں کرتا۔ کیا عورت پر بھی جب کہ اسے احتلام ہو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں اگر (اپنی منی کا) پانی دیکھے (تو اسے بھی غسل کرنا ہو گا)۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ إِذَا احْتَلَمَتِ الْمَرْأَةُ:: 282]
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے۔ اس کے لیے بھی مرد کا سا حکم ہے کہ جاگنے پر منی کی تری اگر کپڑے یا جسم پر دیکھے تو ضرور غسل کرے تری نہ پائے تو غسل واجب نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 282   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6121  
6121. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدہ ام سلیم‬ ؓ ر‬سول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی حق (کے اظہار) سے نہیں شرماتا کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں اگر وہ پانی (مادہ منویہ کی تری) دیکھے تو غسل واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6121]
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ربیبہ تھیں، ان کے والد ابو سلمہ تھے جن کا نام عبداللہ ابن عبدالاسد مخزومی ہے اور کنیت ابو سلمہ ہے۔
یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پھوپھی زاد بھائی تھے۔
ان کی والدہ کا نام بوہ بنت عبدالمطلب ہے اور ابو سلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھی ہیں۔
ان کی بیوی ام سلمہ نے ان کے ساتھ حبشہ کی ہجرت کی تھی مگر مکہ واپس آ گئے جب دوبارہ مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو ان کے بچے سلمہ کو ددھیال والوں نے چھین لیا اور حضرت ام سلمہ کو ان کے میکے والوں نے جبراً روک لیا۔
ابوسلمہ دل مسوس کر بیوی اوربچوں کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مدینہ چلے گئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ایک سال تک برابر روتی رہی اورروزانہ اس جگہ آ کر بیٹھ جاتی جہاں شوہر سے الگ کی گئی تھیں، ان کی اس بے قراری اورگریہ وزاری نے سنگ دل عزیزوں کو بھی رحم پرمجبور کر دیا اور انہوں نے ان کو ان کے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔
یہ اکیلی مدینہ منورہ کو چل کھڑی ہوئیں، جنگ احد میں ابو سلمہ سخت زخمی ہو گئے اور جمادی الآخر3ھ میں ان زخموں کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔
اس وقت انہوں نے دعا کی تھی کہ یا اللہ! میرے اہل وعیال کی اچھی طرح نگہداشت کیجیو یہ دعا قبول ہوئی اور ابو سلمہ کے اہل وعیال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا سرپرست عطا ہوا اور حضرت ام سلمہ کو ام المؤمنین کا لقب ومنصب عطا کیا گیا۔
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے بچوں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تعلیم وتربیت فرمائی کہ عمر بن ابو سلمہ سے سعید بن مسیب، ابو امامہ بن سہل اور عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ حدیث کی روایت کرتے ہیں اور حضرت علی ان کو فارس اور بحرین کا حاکم مقرر کرتے ہیں۔
ابو سلمہ کی بیٹی زینب اپنے زمانہ کی سب عورتوں سے زیادہ فقیہ تھیں، یہ بچہ ہی تھیں کہ ایک دن کھیلتے کھیلتے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئیں آپ غسل فرما رہے تھے آپ نے پیار سے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، چہرے کی تازگی بڑھاپے میں بھی جوانی جیسی قائم رہی۔
ان کا انتقال مدینہ منورہ میں84 سال کی عمر میں 60ھ میں ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6121   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 130  
130. حضرت ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، ام سلیم‬ ؓ ر‬سول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا، کیا عورت کو احتلام ہو تو اسے غسل کرنا چاہئے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں جبکہ (اپنے کپڑے پر) پانی دیکھے۔ ام سلمہ‬ ؓ ن‬ے (شرم سے) اپنا منہ چھپا لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں تیرا ہاتھ خاک آلود ہو، پھر بچے کی صورت ماں سے کیوں کر ملتی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:130]
حدیث حاشیہ:
انصار کی عورتیں ان مخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں کسی قسم کی شرم سے کام نہیں لیتی تھیں، جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مسائل کو وضاحت کے ساتھ دریافت نہ کرتیں توآج مسلمان عورتوں کو اپنی زندگی کے اس گوشے کے لیے رہنمائی کہاں سے ملتی، اسی طرح مذکورہ حدیث میں حضرت ام سلیم نے نہایت خوب صورتی کے ساتھ پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت خاص بیان فرمائی کہ وہ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا، پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے، مگرمسئلہ ہونے کی حیثیت میں اپنی جگہ دریافت طلب تھا، پس پوری امت پر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احسان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی زندگی سے متعلق بھی وہ باتیں کھول کر بیان فرما دیں جنھیں عام طور پر لوگ بے جا شرم کے سہارے بیان نہیں کرتے اور دوسری طرف صحابیہ عورتوں کی بھی یہ امت بے حد ممنون ہے کہ انھوں نے آپ سے سب مسائل دریافت کر ڈالے، جن کی ہرعورت کو ضرورت پیش آتی ہے۔
حضرت زینب بنت عبداللہ بن الاسد مخزومی اپنے زمانہ کی بڑی فاضلہ عالمہ خاتون تھیں، ان کی والدہ ماجدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند عبداللہ کی وفات بعد غزوۂ احد کے عدت گزارنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوئیں توان کی تربیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس ہوئی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں پہلی خاتون ہیں جنھوں نے مدینہ طیبہ کو ہجرت کی، ان کے خاوند ابوسلمہ بدر میں شریک تھے، احد میں یہ مجروح ہوئے اور بعد میں وفات پائی، جن کے جنازے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نو تکبیروں سے نماز جنازہ ادا فرمائی تھی، اس وقت ام سلمہ حاملہ تھیں۔
وضع حمل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں ان کو شرف حاصل ہوا۔
حضرت ام سلیم حضرت انس کی والدہ محترمہ ہیں اور حضرت ابو طلحہ انصاری کی زوجہ مطہرہ ہیں، اسلام میں ان کا بھی بڑا اونچا مقام ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 130   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 130  
´ حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے `
«. . . عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، " إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ، فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ تَعْنِي وَجْهَهَا، وَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ، تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا . . .»
. . . ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ام سلیم (نامی ایک عورت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا (اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ہاں) جب عورت پانی دیکھ لے۔ (یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو) تو (یہ سن کر) ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے (شرم کی وجہ سے) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا، یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے (یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ: 130]
تخريج الحديث:
[180۔ البخاري فى: 3 كتاب العلم: 50 باب الحياء فى العلم 130، مسلم 313، حميدي 298، ترمذي 122]
لغوی توضیح:
«تَرِبَتْ يَمِيْنُكَ» تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ عرب لوگ محض انکار کی غرض سے یہ کلمہ استعمال کرتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ اس کا حقیقی معنی کیا ہے۔
«فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا» پھر اس کا بچہ اس کے مشابہ کیوں ہوتا ہے (اگر اس کی منی نہیں ہوتی)؟ مطلب یہ ہے کہ بچہ مرد اور عورت دونوں کے پانی (یعنی منی) سے مل کر بنتا ہے، پھر جس کا پانی غالب آ جاتا ہے وہ اسی کے ساتھ زیادہ مشابہت اختیار کر لیتا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 180   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 197  
´احتلام ہونے پر عورت کے غسل کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ حق بات (بیان کرنے) سے نہیں شرماتا ہے (اسی لیے میں ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہوں)، عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر غسل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جب منی دیکھ لے، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا (یہ سن کر) ہنس پڑیں، اور کہنے لگیں: کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر لڑکا کس چیز کی وجہ سے اس کے مشابہ (ہم شکل) ہوتا ہے؟۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 197]
197۔ اردو حاشیہ:
➊ ان روایات میں امام زہری اور ہشام بن عروہ کے مابین اختلاف ہے کہ یہ مکالمہ حضرت عائشہ کا ہے یا ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا؟ امام ابوداود رحمہ اللہ کے نزدیک زہری کی روایت راجح ہے، یعنی یہ مکالمہ حضرت عائشہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے مابین ہوا انہوں نے اس کے شواہد بھی ذکر کیے ہیں۔ مگر قاضی عیاض کی تحقیق کے مطابق یہ مکالمہ ام سلمہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے درمیان ہوا، اس طرح ہشام بن عروہ کی روایت راجح ہو گی اور امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، العلم، حدیث: 130]
تاہم علامہ نووی رحمہ اللہ نے دونوں روایتوں کے مابین یوں تطبیق دی ہے کہ عین ممکن ہے کہ ام سلمہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں ہی اس موقع پر موجود ہوں اور دونوں نے تعجب کا اظہار کیا ہو۔ واللہ أعلم۔ [شرح مسلم للنووي: 286/3، تحت حديث: 331، وعون المعبود: 403/1، 404 تحت حديث: 237]
➋ ام سلیم کا یہ جملہ جو انہوں نے اپنے سوال سے پہلے کہا کہ اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔ ان کے کمال حسن ادب پر دلیل ہے، یعنی جو بات عرفاً زبان پر نہیں لائی جاتی اور مجھے اس کی شرعاً ضرورت ہے، وہ بتائی جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں حیا انہیں آڑے نہیں آتی۔ [صحیح البخاري، قبل حدیث: 130]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 197   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 122  
´عورت کے خواب میں وہی چیز دیکھنے کا بیان جو مرد دیکھتا ہے۔`
ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم بنت ملحان نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! اللہ حق سے نہیں شرماتا ۱؎ کیا عورت پر بھی غسل ہے، جب وہ خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے ۲؎ آپ نے فرمایا: ہاں، جب وہ منی دیکھے تو غسل کرے ۳؎ ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے ام سلیم سے کہا: ام سلیم! آپ نے تو عورتوں کو رسوا کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 122]
اردو حاشہ:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شرم و حیا کی وجہ سے حق کے بیان کر نے سے نہیں رکتا،
تو میں بھی ان مسائل کے پوچھنے سے باز نہیں رہ سکتی جن کی مجھے احتیاج اور ضرورت ہے۔

2؎:
جو مرد دیکھتا ہے سے مراد احتلام ہے۔

3؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ منی کے نکلنے سے عورت پر بھی غسل واجب ہو جاتا ہے،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 122   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:300  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حق بات سے شرمانا درست نہیں ہے، آج کی کی ہوئی حق بات بہتوں کو فائدہ دے گی، ان شاء اللہ۔ عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے، اس کا بھی مرد کی طرح حکم ہے کہ جاگنے پر منی کی تری کپڑے یا جسم پر دیکھے تو ضرور غسل کر لے، اگر وہ تری نہ پائے تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 300   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:130  
130. حضرت ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، ام سلیم‬ ؓ ر‬سول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا، کیا عورت کو احتلام ہو تو اسے غسل کرنا چاہئے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں جبکہ (اپنے کپڑے پر) پانی دیکھے۔ ام سلمہ‬ ؓ ن‬ے (شرم سے) اپنا منہ چھپا لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں تیرا ہاتھ خاک آلود ہو، پھر بچے کی صورت ماں سے کیوں کر ملتی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:130]
حدیث حاشیہ:

اخلاقیات کے باب میں حیا ایک قابل تعریف وصف ہے۔
احادیث میں اسے ایمان کا شعبہ قراردیا گیا ہے، نیز یہ کل خیرو برکت ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 157(37)
اس کے نتائج بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات انسان اچھی چیز کا استعمال غلط کرتا ہے اور استعمال کی غلطی برے نتائج پیدا کردیتی ہے۔
مثلاً:
حیا کو بہانہ بنا کر بعض اوقات علم سے محروم رہتا ہے، اس لیے حیا کا دامن تھامتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں بے حیا بن کر سوال نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا اثر ابو نعیم نے الحلیۃ (3/328)
میں موصولاً ذکر کیا اور اس کا مطلب ہے کہ حیا کو بطور بہانہ استعمال کرنے والا علم سے محروم رہتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حیا اور طلب علم دونوں برقرار رہنے چاہئیں۔
انصار کی عورتیں اسی طرز عمل کو اپنائے ہوئے تھیں۔
یعنی حیا کا دامن بھی برقرار اور علم کا حصول بھی اپنی جگہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں موصولاً مروی ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 748(332)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیا طالب علم کے لیے محرومی علم کا سبب نہیں بننی چاہیے نیز شرم پر مبنی مسائل دریافت کرنے میں حیا داری کو برقراررکھنا چاہیے گویا حیا بھی باقی رہے اور مقصد برآری بھی ہو جائے۔

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اندر حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ حیا تھی کہ انھوں نے مارے شرم کے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔
ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ جب عورت کو یہ حالت پیش آجائے تو یہ تقوی اور دینداری کے خلاف تو نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکمل حیاداری کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا کہ عورت اور مرد کے اندر اللہ تعالیٰ نے جوہر رکھا ہے، اس کے اشتراک سے اولاد ہوتی ہے اور اولاد ماں پر باپ پر یا دونوں پر جاتی ہے۔
بے شمار بچے ایسے ہوتے ہیں جو رنگ ماں کا رکھتے ہیں لیکن حلیہ باپ کا ہو تا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ احتلام ہونا ایک فطری حالت ہے تقوی اور دینداری کے خلاف نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 130   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:282  
282. حضرت ام المومنین ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ابوطلحہ کی بیوی حضرت ام سلیم‬ ؓ ر‬سول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا، جب عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر غسل واجب ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ہاں، جب پانی دیکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:282]
حدیث حاشیہ:

انصار کی عورتیں ایسے مسائل دریافت کرنے میں کسی قسم کی روایتی شرم سے کام نہ لیتی تھی جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہوتا تھا، چنانچہ حضرت ام سلیم ؒ نے سب سے پہلے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اللہ کی صفت حیا بیان فرمائی کہ وہ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا، پھر شرم وحیا کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے متعلق تھا مگرایک مسئلہ ہونے کی حیثیت سے دریافت طلب ضرور تھا۔
اگرآپ اس کے دریافت کرنے میں عورتوں جیسی شرم سے کام لیتیں تو نہ صرف ایک دینی حکم سے محروم رہتیں بلکہ دوسری تمام مسلمان عورتیں بھی اس سے ناواقف رہتیں۔
اس اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کا اس امت پر بڑا احسان ہے کہ آپ نے ذاتی زندگی سے متعلق وہ باتیں کھول کر بیان کردیں جنھیں عام طور پر روایتی شرم وحیا کے پیش نظر بیان نہیں کیا جاتا۔
دوسری طرف صحابیات مبشرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کا بھی اس امت پر بہت احسان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسے ایسے سوالات دریافت کیے جن کی ہر مسلمان عورت کو زندگی میں ضرورت پیش آسکتی تھی، اور جومسائل بعض اوقات اپنے خاوند سے بھی دریافت کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔

لفظ استحیاء میں ایک انفعالی کیفیت ہے جسے حافظ ابن حجر ؒ نے تغیر وانکسار سے تعبیر کیا ہے۔
علماء کو اس مقام پر بڑا اشکال ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اسے کس معنی میں منسوب کیا جائے؟ ان حضرات کے بقول اس معنی کے لحاظ سے اللہ کی طرف نسبت کرنا صحیح نہیں، لہذا انھوں نے اس کی بایں الفاظ تاویل کرڈالی کہ اللہ تعالیٰ حق کے معاملات میں شرم وحیا کا حکم نہیں دیتا۔
درست بات یہ ہے کہ جن امور کی نسبت خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کی طرف کی ہے ان کی نسبت اللہ کی طرف کرنے میں ہم بھی تامل نہیں کریں گے۔
البتہ ان کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، لہذا کیفیت کا معاملہ اللہ کے سپرد کریں گے۔
اس مقام پر بھی تاویل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
صفت حیا کو اللہ کی طرف بایں طور منسوب کریں گے جو اس کی شایان شان ہے اور اس طرح کہ کسی طرح بھی مخلوق اس صفت میں اپنے خالق سے مشابہت نہیں رکھتی، جیسا کہ دیگر صفات باری تعالیٰ کے متعلق اہل حق کا موقف ہے۔
یہی نجات کا راستہ اور حق بات ہے۔

اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ مرد کی طرح عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے، لیکن بحالت خواب اگروہ جماع کی حالت دیکھے تو بیداری کے بعد اگراپنے کپڑے پر تری دیکھے تو عورت پر غسل واجب ہوجاتا ہے۔
احتلام کے متعلق مرد وعورت میں مساوات کا حکم ہے کہ حالتِ نوم میں بصورت انزال دونوں پرغسل واجب ہوجاتا ہے اور بصورت عدم انزال دونوں پر غسل واجب نہیں ہوگا، چنانچہ امام ترمذی ؒ انے اپنی جامع میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیاہےجوشخص بیدار ہو،تری دیکھے لیکن احتلام کا خواب یاد نہ ہو پھر انھوں نے حضرت عائشہ ٍؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے:
رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوا کہ جو شخص تری دیکھے اوراسے احتلام کا خواب یاد نہ ہو تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا:
وہ غسل کرے۔
پھر ایسے شخص کے متعلق سوال ہوا جسے احتلام تو یاد ہومگرتری نہ دیکھے؟آپ نے فرمایا:
اس پر غسل نہیں۔
اس پر حضرت ام سلیم نے عرض کیا:
یارسول اللہ ﷺ !اگر عورت ایسا دیکھے تو کیا اس پر بھی غسل ہے؟ آپ نے فرمایا:
ہاں اس پر بھی غسل ہے کیونکہ عورتیں بھی تومردوں کی طرح ہیں۔
(جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 113)
یہ احادیث مجرد وجود منی کو معتبر ٹھہراتی ہیں، خواہ اس کے ساتھ دفق وشہوت ہو یا نہ ہو۔

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے ان حضرات کا موقف غلط ثابت ہوا جو کہتے ہیں کہ عورت کے پانی میں خروج وبروز ہوتا ہی نہیں اور اس کے انزال کو صرف اس کی شہوت ہی سے معلوم کیا جا سکتا ہے، لہٰذا ان کے نزدیک پانی دیکھنے سے مراد پانی کا معلوم ہو جانا ہے۔
یعنی روئیت، علم کے معنی میں ہے۔
ان کا یہ خیال درست نہیں۔
کلام کو ظاہر پر محمول کرنا زیادہ قرین قیاس ہے۔
(فتح الباري: 505/1)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے تعجب کے طور پر سوال کیا:
آیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا:
کیوں نہیں؟ایسا ہوتا ہے ورنہ بچے میں ماں کی شکل وصورت کیسے آتی ہے؟ اس سے ثابت ہوا کہ مرد کی طرح عورت کا بھی مادہ منویہ ہوتا ہے اور بچہ دونوں کے نطفے سے پیدا ہوتا ہے۔
جب عورت کے لیے منی کا وجود ثابت ہے تو اس کا انزال اورخروج بھی ممکن ہے، اگرچہ بحالت خواب ایساکم ہوتا ہے۔

صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ مرد کا پانی گاڑھا سفید اور عورت کا پانی رقیق زرد ہوتا ہے اور دونوں میں سے جس کا پانی غالب آ جائے اس کی شکل وشباہت بچہ اختیار کرتا ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ جس کا پانی رحم مادر میں پہلے پہنچ جائے، بچہ تذکیر و تانیث اس کی اختیارکرتا ہے۔
اس بنا پر چارصورتیں ممکن ہیں:
۔
رحم مادر میں مرد کا پانی پہلے پہنچتا ہے اورعورت کے پانی پر غالب آجاتا ہے تو اس صورت میں بچہ نرہوگا اور شکل وصورت بھی ددھیال کی اختیار کرے گا۔
۔
رحم مادر میں عورت کا پانی پہلے پہنچتا ہے اور عورت ہی کا پانی غالب آتا ہے تو بچہ مادہ ہو گا اور ننھیال کی شکل و صورت اختیار کرے گا۔
۔
رحم مادر میں مرد کا پانی پہلے پہنچتا ہے، لیکن غالب عورت کا پانی آتا ہے تو اس صورت میں بچہ نر ہوگا، لیکن شکل وصورت میں ننھیال جیساہوگا۔
۔
رحم مادر میں عورت کا پانی پہلے پہنچتا ہے، لیکن غالب مرد کا پانی آتا ہے تو اس صورت میں بچہ مادہ ہوگا، لیکن شکل وصورت ددھیال جیسی اختیار کرے گا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 282   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3328  
3328. حضرت ام سلمہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا تو کیا جب عورت کو احتلام ہوجائے تو اس پر بھی غسل واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، یعنی اس پر بھی غسل واجب ہے جب وہ پانی (منی) کو دیکھ لے۔ حضرت ام سلمہ ؓ کو اس بات پر ہنسی آگئی اور عرض کرنے لگیں: کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اگر ایسا نہیں تو)بچہ اس کے مشابہ کیسے ہوتا ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3328]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی طرح عورت کی منی اور نطفہ ہے اور ان دونوں کے مادے کے ملنے سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔
اگر عورت کا نطفہ نہ ہو اور بچہ صرف مرد کے نطفے سے پیدا ہو تو وہ عورت کے مشابہ کبھی نہ ہو۔
اگر مرد کا نطفہ عورت کی منی پر غالب آجائے اور رحم میں پہلے پہنچ جائے تو بچہ مرد کے مشابہ ہو گا اور لڑکا پیدا ہوگا اور اگر عورت کا نطفہ مرد کی منی پر غلبہ کرے اور رحم میں پہلے پہنچ جائے تو بچہ عورت کے مشابہ ہوگا اور لڑکی پیدا ہوگی۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ حدیث کے ذیل میں بیان کریں گے۔

اس حدیث میں اولاد آدم کی خلقت کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3328   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6121  
6121. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدہ ام سلیم‬ ؓ ر‬سول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی حق (کے اظہار) سے نہیں شرماتا کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں اگر وہ پانی (مادہ منویہ کی تری) دیکھے تو غسل واجب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6121]
حدیث حاشیہ:
دینی امور کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے حیا مانع نہیں ہونی چاہیے، چنانچہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بطور تعریف و حمد پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت بیان کی کہ وہ حق بات بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا، پھر ہمیں بھی حق کے متعلق سوال کرنے سے نہیں شرمانا چاہیے، پھر انہوں نے زندگی میں پیش آنے والا ایک سوال کیا جو سراسر شرم و حیا پر مبنی ہے لیکن انہوں نے اس قسم کی حیا کو ایک طرف رکھا، پھر سوال کیا کیونکہ اس قسم کا سوال حصول دین کا ذریعہ تھا۔
اگر وہ حیا کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال نہ کرتیں تو ہم اس دینی امر سے محروم رہتے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6121