ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تباہی ہے زیادہ مال والوں کے لیے سوائے اس کے جو مال اپنے اس طرف، اس طرف، اس طرف اور اس طرف خرچ کرے، دائیں، بائیں، اور اپنے آگے اور پیچھے چاروں طرف خرچ کرے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4129]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4242، ومصباح الزجاجة: 1463)، وقد أخرجہ: (حم3/31، 52) (حسن)» (سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن ابن ابی لیلیٰ دونوں ضعیف ہیں، شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2412)
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن أبي ليلي و عطية العوفي ضعيفان و روي أحمد (428/2 ح 9526) عن النبي ﷺ قال: ((المكثرون ھم الأسفلون إلا من قال بالمال ھكذا و ھكذا و ھكذا،أمامه و عن يمينه وعن شماله و عن خلفه۔)) و سنده حسن وھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 526
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4129
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مال حرص اور بخل کے ذریعے جمع ہوتا ہے اور یہ دونوں مذموم خصلتیں ہیں۔
(2) جائز طریقے سے کمایا ہوامال بھی اللہ کی راہ میں اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ضروری ہے اپنی ذاتی آسائشات اور تعیشات پر مال صرف کرنا درست نہیں۔
(3) سخاوت کرنے والا ہلاکت سے محفوظ ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا مال اس کے لیے نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جس قدر زیادہ خرچ کرے گا اتنا ہی جنت میں بلند درجات کا مستحق ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4129