حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اہل جنت کے بارے میں نہ بتاؤں“؟ ہر وہ کمزور اور بے حال شخص جس کو لوگ کمزور سمجھیں، کیا میں تمہیں اہل جہنم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر وہ سخت مزاج، پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھنے، اور تکبر کرنے والا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4116]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4116
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) کمزور سمجھنے والا سے مراد شریف النفس آدمی ہےجو کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اگر کوئی زیادتی کرے تو اسے معاف کردیتا ہے۔ لوگ اسے کمزور سمجھتے ہیں اس سے کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے اور نه اس کے شر وغیرہ ہی کا کوئی خوف ہوتا ہے۔
(2) افرادی معاملات میں نرمی اور درگزر کا چلن عام ہوجائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ فساد ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی اپنی مالی جسمانی یا خاندانی اور افرادی طاقت پر گھمنڈ کرکے دوسروں پر ظلم کرتا ہے۔ اگر وہ کسی پر زیادتی نہ کرے خواہ اسے کمزور سمجھا جائے تو یہ اعلی اخلاق کا نمونہ ہے۔ جس کا ثواب جنت ہے۔
(3) درشت خو سے مراد بات چیت کے انداز میں اور برتاؤ میں سختی اختیار کرنے والا ہے۔ اس قسم کے بد اخلاق آدمی سے ہر کسی کا جھگڑا ہوتا ہے جس سے فساد جنم لیتا اور بڑھتا ہے۔
(4) جواظ كا مطلب الجموع المنوع بیان کیا گیا ہے یعنی ایسا حریص آدمی جو مال جمع کرتا رہتا ہے لیکن بخیل بھی ہے خرچ نہیں کرتا۔ مومن میں حرص اور بخل کی عادات نہیں ہوتیں۔ بلکہ یہ منافقوں اور کافروں میں ہوتی ہیں۔ جن کی وجہ سے وہ جہنم کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
(5) تکبر سے مراد دوسرے کو حقیر سمجھنا اور حق واضح ہوجانے کے باوجود تسلیم نہ کرنا۔ یہ برتری کا احساس بہت سی اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کا باعث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4116
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4801
´خوش اخلاقی کا بیان۔` حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «جواظ» جنت میں نہ داخل ہو گا اور نہ «جعظری» جنت میں داخل ہو گا ۱؎۔ راوی کہتے ہیں «جواظ» کے معنی بدخلق اور سخت دل کے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4801]
فوائد ومسائل: لفظ (جَعُظُرِی) کے کئی معنی آتے ہیں، مثلاََ موٹا، تکبرانہ چال چلنے والا، پیٹو، جسے سر درد نہ ہوتا ہو، خود آراء، پلے کچھ نہ ہو، مگر باتیں بہت بنائے اور پستہ قد ہو۔ واللہ أعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4801
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7189
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمھیں اہل جنت کے بارے میں خبر نہ دوں؟ہر کم حیثیت،جس کو حقیر خیال کیا جاتا ہے،،اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھادے تو اللہ اس کو پورا کردے،کیا میں تمھیں،اہل دوزخ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر بسیار خور،بداصل اور متکبر۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7189]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: زنيم: کمینہ، لئیم، بداصل، دوسرے خاندان میں اپنے آپ کو داخل کرنے والا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7189
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7189
حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمھیں اہل جنت کے بارے میں خبر نہ دوں؟ہر کم حیثیت،جس کو حقیر خیال کیا جاتا ہے،،اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھادے تو اللہ اس کو پورا کردے،کیا میں تمھیں،اہل دوزخ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر بسیار خور،بداصل اور متکبر۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7189]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: زنيم: کمینہ، لئیم، بداصل، دوسرے خاندان میں اپنے آپ کو داخل کرنے والا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7189
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4918
4918. حضرت حارثہ بن وہب خزاعی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ وہ دیکھنے میں کمزور و ناتواں لیکن اگر کسی بات پر قسم اٹھا لے تو اللہ تعالٰی اسے ضرور پورا کر دیتا ہے۔ اور کیا میں تمہیں اہل جہنم کی خبر نہ دوں؟ وہ سخت مزاج، بدخو اور تکبر کرنے والا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4918]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ زیادہ تر مستجاب الدعوات ہوتے ہیں بظاہر بہت کمزور ناتواں غیر مشہور مگر ان کے دل محبت الٰہی سے بھر پور ہوتے ہیں۔ جعلنا اللہ منھم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4918
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4918
4918. حضرت حارثہ بن وہب خزاعی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ وہ دیکھنے میں کمزور و ناتواں لیکن اگر کسی بات پر قسم اٹھا لے تو اللہ تعالٰی اسے ضرور پورا کر دیتا ہے۔ اور کیا میں تمہیں اہل جہنم کی خبر نہ دوں؟ وہ سخت مزاج، بدخو اور تکبر کرنے والا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4918]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل جنت زیادہ تر مستجاب الدعوات ہوتے ہیں وہ اگرچہ بظاہر ناتواں کمزور اور غیر معروف ہوتے ہیں اور لوگوں کے ہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر ان کے دل محبت الٰہی سے سر شار ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ سے دعا کریں یا کسی کام کی قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی لاج رکھتے ہوئے وہ کام ضرور کردیتا اور ان کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازتا ہےاس کے برعکس جو جہنمی ہیں اور متکبر تنذ مزاج اور سخت گیر ہوتے ہیں دنیا میں دوسروں کے ناک میں دم کیے رکھتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4918
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6657
6657. حضرت حارثہ بن وہب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں تمہیں بتاؤں کہ جنتی کون ہے؟ ہر وہ ناتواں جسے لوگ کمزور اور حقیر خیال کرتے ہوں، اگر وہ کسی بات پر اللہ کی قسم اٹھائے تو اللہ اسے پورا کر دیتا ہے۔ اور اہل جہنم ہر وہ موٹی گردن والا بد خلق اور تکبر والا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6657]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں بھی قسم کا لفظ بول کر حلف مراد لیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مقصد کے لیے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ (2) ضعيف سے مراد کمزور و ناتواں اور مُتضعف سے مراد وہ شخص جسے لوگ اس کے ضعف حال کے پیش نظر حقیر خیال کرتے ہوں۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اس حدیث میں ضعیف سے مراد کون ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: جو انسان ایک دن میں پچیس سے پچاس مرتبہ لا حول ولا قوة إلا باللہ پڑھتا ہو، یعنی جو انسان خود کو بری کرتا ہو کہ مجھ میں اللہ کی توفیق کے علاوہ نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی ہمت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 662/11) اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر کمزور مسلمان جنتی ہے اور ہر بدخلق، متکبر انسان دوزخی ہے۔ اس کا برعکس مراد نہیں کہ اس کے علاوہ دوسرے اوصاف کے حاملین جنت یا دوزخ میں نہیں جائیں گے۔ (عمدةالقاري: 706/15)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6657