معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی موت اس گواہی پر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور یہ گواہی سچے دل سے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3796]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11331، ومصباح الزجاجة: 1325)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/229) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱ ؎: وعدوں سے متعلق بہت ساری احادیث آئی ہیں: ۱- بعض ایسی احادیث ہیں جس میں کسی نیکی کے کرنے پر جنت کی بشارت ہے۔ ۲- اور بعض میں کسی کام کے کرنے پر جنت کے حرام ہونے کی وعید اور دھمکی ہے۔ اور وعید سے متعلق بھی متعدد احادیث آئی ہیں: ۱- بعض احادیث میں بعض کبیرہ گناہوں پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ ۲- بعض کبائر کے مرتکب سے ایمان کی نفی آئی ہے۔ ۳- بعض احادیث میں ان کبائر کے مرتکب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی براءت کا اظہار فرمایا ہے۔ ۴- بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ۵- بعض میں بعض کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر جہنم کی دھمکی ہے۔ ۶- بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کو لعنت سنائی گئی ہے، یعنی رحمت سے دوری کی دھمکی۔ وعید کی یہ ساری احادیث ایسے مسلمان کے بارے میں ہیں، جس کے پاس اصل ایمان و توحید کی دولت موجود ہے، لیکن اس سے بعض کبیرہ گناہ سرزد ہوئے ہیں، اور وعدوں سے متعلق ساری احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان جنت میں داخل ہو گا، اور جہنم سے نجات پائے گا، اس لئے وہ «لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ» کی شہادت دینے والا ہے، اور فی الجملہ مسلمان ہے۔ اور وعید کی احادیث میں گناہ کبیرہ کے ارتکاب کرنے والے کو جہنم کے عذاب اور جنت سے محرومی کی دھمکی سنائی گئی ہے، اور بعض میں اس سے ایمان کی نفی ہے، بعض میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنی براءت کا اعلان فرمایا ہے، بلکہ بعض میں اس پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ وعدہ اور وعید سے متعلق مسئلہ کو اہل علم نے عقیدے کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ابتداء ہی میں ان احادیث کے سمجھنے میں اور اس سے مستفاد مسائل عقیدہ میں امت اسلامیہ اختلافات کا شکار ہوئی۔ اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ نصوص متواترہ کا مفاد ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد اپنے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی سزا میں داخل جہنم ہوں گے، پھر سزا بھگتنے کے بعد اصل توحید و ایمان کی برکت سے وہاں سے نکل کر داخل جنت ہوں گے، جیسا کہ شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ علماء کا اس مسئلہ میں ایک مسلک یہ ہے کہ وعدوں سے متعلق احادیث کا ظاہری معنی ہی مراد ہے، اور کلمہ توحید و رسالت کے شروط اور تقاضوں کے پورے ہونے اور اس راہ کے موانع (رکاوٹوں) کے دور ہونے کے بعد ان وعدوں کا متحقق ہونا ضروری ولابدی ہے، اس لئے ان نصوص کو اسی طرح بیان کیا جائے گا، مثلاً حدیث میں ہے کہ جس شخص نے «لا الہ إلا اللہ» کہا وہ جنت میں داخل ہوا، اور جہنم کو اللہ نے اس پر حرام کر دیا، یا جس نے ایسا کیا جنت میں داخل ہوا وغیرہ وغیرہ، تو جنت کا یہ دخول اس صورت میں ہو گا جب کلمہ توحید کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہوں گے، اور دخول جنت کی راہ کے موانع (رکاوٹیں) دور کی ہوں گی، ان احادیث میں صرف یہ ہے کہ یہ جنت میں جانے یا جہنم سے نجات کا سبب ہیں، اور سبب کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کے ہونے سے مسبب (نتیجہ) کا برآمد ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ وعدہ کے پورا ہونے کے لئے شروط و قیود کا پایا جانا، اور موانع (رکاوٹوں) کا دور ہونا ضروری ہے۔ لیکن ان احادیث کو کسی خاص آدمی پر چسپاں کر کے اس کو جنت یا جہنم کا مستحق قرار دینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس مخصوص بندے نے کیا اس کلمہ کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہیں؟ جس سے وہ جنت کامستحق ہے، اور دخول جنت سے مانع چیزوں کو دور کر دیا ہے یا نہیں؟۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہی مسلک ہے، امام بخاری نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث: «ما من عبد قال: لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة» کے بارے میں فرمایا: «هذا عند الموت أو قبله، إذا تاب، وندم وقال: لا إله إلا الله غفر له» یہ موت کے وقت یا موت سے پہلے جب بندہ نے توبہ کی، نادم ہوا، اور «لا إله إلا الله» کہا، تو اس کو بخش دیا جائے گا چنانچہ توبہ و ندامت، اور کلمہ «لا إله إلا الله» پر موت سے جنت میں داخلہ کی شروط اور شہادت میں قدح کرنے والی رکاوٹوں کی نفی ہو گئی، اور بندہ جنت میں چلا گیا۔ علامہ سلیمان بن عبداللہ تیسیرالعزیز الحمید (۷۲) میں فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اس کلمہ توحید کو اس کے معنی کی معرفت و سمجھ کے ساتھ کہا، اور ظاہر و باطن میں اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ یہ احادیث مطلق ہیں، دوسری احادیث میں ان کی قیود و شروط آئی ہیں، اس لئے قید و شرط پر ان مطلق احادیث کو پیش کرنا ضروری ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے دونوں جوتوں کو لے کر جاؤ، اور اس باغ کے پرے جو «لا الہ إلا اللہ» کہنے، اور اس پر دل سے یقین رکھنے والا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو“۔ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کئے بغیر مر گیا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جس نے خلوص دل سے «لا إلہ الا اللہ» کی گواہی دی، یا یقین قلب کے ساتھ گواہی دی وہ جہنم میں نہیں جائے گا، یا جنت میں جائے گا، نیز فرمایا: ”وہ جنت میں داخل ہو گا، اور اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی“۔ امام ابن رجب فرماتے ہیں: اس کی وضاحت یہ ہے کہ بندہ کا «لا إله إلا الله» کہنا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ غیر اللہ کے معبود ہونے کی نفی کرے، اور «إلــه» ایسی قابل اطاعت (مطاع) ذات ہے کہ اس کی اہمیت کے سامنے، اس کی جلالت شان کے آگے، اس سے محبت کرکے، اس سے ڈر کر، اس سے امید کر کے، اس پر توکل کر کے، اس سے سوال کر کے، اور اس کو پکار کر اس کی نافرمانی نہیں کی جا سکتی، یہ ساری چیزیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں، تو جس نے ان الٰہی خصوصیات و امتیازات میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس کے «لا إله إلا الله» کے کہنے کے اخلاص میں یہ قدح وطعن کی بات ہوئی، اور اس کی توحید میں نقص آیا، اور اس میں اسی مقدار میں مخلوق کی عبودیت متحقق ہوئی، اور یہ سب شرک کی شاخیں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وعدہ سے متعلق احادیث کو اس کے ظاہر پر رکھا جائے، اور اس کو ویسے ہی بیان کیا جائے، اور اس کو کسی مخصوص آدمی پر منطبق (چسپاں) نہیں کیا جائے گا، اور اس وعدے یعنی دخول جنت کے وجود کے تحقق کے لئے ایسی شروط وقیود ہیں جن کا وجود ضروری ہے، اور اس کی تنفیذ کی راہ میں جو موانع اور رکاوٹیں حائل ہوں ان کا دور ہونا ضروری ہے۔ بعض علماء نے ان احادیث کو اس کے عام اور ظاہری معنی میں نہیں لیا ہے بلکہ وہ اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں، مثلاً کلمہ گو مسلمان ( «لا إله إلا الله» کے قائل) پر جہنم کے حرام ہونے کا مطلب ان کے نزدیک اس کا ہمیشہ ہمیش اور ابد الآباد تک جہنم میں نہ رہنا ہے، بلکہ اس میں داخل ہونے کے بعد وہ اس سے باہر نکلے گا، یا یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ کفار و منافقین کے جہنم کے ٹھکانوں میں داخل نہ کیا جائے گا، جب کہ بہت سے گنہگار موحد (مسلمان) جہنم کے اوپری طبقہ میں اپنے گناہوں کی پاداش میں داخل ہوں گے، اور اہل شفاعت کی شفاعت اور ارحم الراحمین کی رحمت سے وہ اس سے باہر نکل کر جنت میں جائیں گے، امام ابن قتیبہ اور قاضی عیاض انہی مذکورہ معانی کے اعتبار سے «لا إله إلا الله» کے قائلین کے جنت میں داخل ہونے کے استحقاق کی احادیث کے معنی و مراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ آخری انجام و عاقبت کے اعتبار سے عذاب پانے کے بعد وہ جنت میں جائیں گے۔ بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامر و نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہو گئی ہیں، اور و اجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی)
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 12
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان اس حال میں مرتا ہے کہ وہ یقین کرنے والے دل سے گواہی دیتا ہو کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتے ہیں۔“... [صحيحه: 12]
فوائد:
جو آدمی درج ذیل کلمہ یقین دل سے ادا کرے گا، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ «أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله»
اس مبارک کلمے کی ان ہی برکات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کثرت کے ساتھ اس کا ذکر کرنے کی تلقین کی ہے، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: «أَكْثِرُوا مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ قَبْلَ أَن يُحَالَ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهَا وَلَقَنُوهَا مَوْتَاكُمْ»[صحيحه: 467] ”اللہ تعالی کے معبودِ برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمھارے اور اس کے مابین کوئی رکاٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 12