ابوایوب انصاری، جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ: «فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين»”اس میں کچھ لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“(سورة التوبة: 108)، اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے طہارت کے بارے میں تمہاری تعریف کی ہے، تو وہ تمہاری کیسی طہارت ہے“، ان لوگوں نے کہا: ”ہماری طہارت یہ ہے کہ ہم لوگ نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، اور جنابت ہونے سے غسل کرتے ہیں، اور پانی سے استنجاء کرتے ہیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کا) یہی سبب ہے، لہٰذا تم لوگ اس طہارت پر کاربند رہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 355]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 926، 2337، 3460، ومصباح الزجاجة: 148)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/6) (صحیح)» (یہ سند ضعیف ہے، عتبہ بن أبی حکیم ضعیف راوی ہیں، اور طلحہ نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 34)
وضاحت: ۱؎: یعنی آیت کا معنی یہ ہے کہ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ جل جلالہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے، اور ضمیر اس آیت میں مسجد قبا، یا مسجد نبوی کی طرف لوٹ رہی ہے، شاید پانی سے استنجا کرنے سے ہی ان کی تعریف کی گئی ہے، ورنہ غسل جنابت اور وضو مہاجرین بھی کرتے تھے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث355
اردو حاشہ: (1) وضو اور غسل جنابت تو تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ صرف پانی سے استنجاء ایسی چیز ہے جس پر بعض لوگوں کا عمل نہ کرنا ممکن ہے جس کی وجہ سے عمل کرنے والے قابل تعریف ہوں۔ بہرحال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مٹی پر اکتفاء کرنے کے بجائے پانی استعمال کرنا افضل ہے۔
(2) آیت مبارکہ میں جس مسجد کا ذکر ہے اس سے بعض علماء نے مسجد نبوی اور بعض نے قباء مراد لی ہے، تاہم دونو ں مساجد کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اور دونوں مساجد میں نماز پڑھنے والے طہارت اور نظافت کا اہتمام کرنے والے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 355