الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
27. بَابُ : الرَّجُلِ يُسَلَّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ يَبُولُ
27. باب: پیشاب کے دوران سلام کا جواب۔
حدیث نمبر: 351
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" مَرَّ رَجُلٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ، فَلَمَّا فَرَغَ ضَرَبَ بِكَفَّيْهِ الْأَرْضَ فَتَيَمَّمَ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس سے گزرا، اس شخص نے آپ کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب نہ دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب سے فارغ ہو گئے تو اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پہ ماریں، اور تیمم کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 351]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15401، ومصباح الزجاجة: 145) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں ضعف ہے اس لئے کہ مسلمہ بن علی ضعیف ہیں، ابی اور صحیحین میں «الأرض» کے بجائے «الجدار» کے لفظ سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 256)

قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ الجدار مكان الأرض

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
مسلمة بن علي: متروك (تقريب: 6662)
والحديث ضعفه البوصيري
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 389

   سنن ابن ماجهيبول فسلم عليه فلم يرد عليه فلما فرغ ضرب بكفيه الأرض فتيمم ثم رد
   سنن ابن ماجهوعليك السلام

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 351 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث351  
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث کی یہ سند ضعیف ہے، البتہ اس قسم کا واقعہ دوسری صحیح سند سے بھی مروی ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوجہیم بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:
نبی ﷺ بئر جمل کی طرف سے تشریف لارہے تھے کہ ایک آدمی آپ کو ملا۔
اس نے سلام کہا تو نبی ﷺ نے جواب دینے سے پہلے دیوار پر ہاتھ مار کر چہرے اور ہاتھوں پر پھیر ے (تیمم کیا)
پھر سلام کا جواب دیا۔ (صحیح البخاری، التیمم، باب التیمم فی الحضر إذا لم یجد الماء وخاف فوت الصلاۃ، حدیث: 337)

(2)
کسی عذر اور مشغولیت کی وجہ سے سلام کا جواب مؤخر کرنا جائز ہے۔

(3)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ تیمم کے لیے سفر شرط نہیں۔
سورہ مائدہ کی آیت: 6 سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیمم سفر ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آیت میں ان حالات کا ذکر ہے جن میں عام طور پر تیمم کی ضرورت پیش آسکتی ہے یہ مطلب نہیں کہ ان حالات کے علاوہ تیمم جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 351   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3695  
´سلام کے جواب کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آ کر سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وعلیک السلام» (اور تم پر بھی سلامتی ہو)۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3695]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر مسجد میں چند افراد مل کر بیٹھے ہوئے ہوں تو ان کے پاس آنے والا انہیں سلام کرے۔

(2)
  سلام کا جواب ضرور دینا چاہیے۔

(3)
«عليك» ایک آدمی کے لیے اور «عليكم» زیادہ زیادہ افراد کے لیے ہوتا ہے لیکن ایک آدمی کو بھی «عليكم» کہنا درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3695