ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کتا پالے گا اس کے عمل میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہو گا، سوائے کھیت یا ریوڑ کے کتے کے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3204]
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں روزانہ دو قیراط کی کمی کا ذکر ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے شاید کتوں کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جس میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے، اور دوسری وہ ہے جس میں دو قیراط کی کمی ہوتی ہے، بعض لوگوں نے اختلاف مقامات کا اعتبار کیا ہے، اور کہا کہ اگر بے ضرورت مکہ یا مدینہ میں کتا پالے تو دو قیراط کی کمی ہو گی اور اس کے علاوہ دیگر شہروں میں ایک قیراط کی کمی ہو گی کیونکہ مکہ اور مدینہ کا افضل اور اعلی مقام ہے، وہاں کتا پالنا زیادہ غیرمناسب ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3204
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ممنوع کام کے ارتکاب کی سزا یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلے سے کیے ہوئے نیک کاموں کا ثواب ضائع ہو جائے۔
(2) قیراط ایک چھوٹا سا وزن ہے جو ایک ماشیہ یا اس سےکم ہوتا ہے جبکہ نبی اکرم ﷺ نے جنازے میں شرکت کی ترغیب میں اس کی مقدار احد پہاڑ کے برابر بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث میں مذکور قیراط سے کیا مراد ہے اس کی بابت رسول اللہ ﷺ سے وضاحت نہیں ملتی لہٰذا اس سے کوئی سا بھی وزن مراد لےلیا جائے ایک مسلمان کے لیے باعث حسرت و ندامت ہے کہ روزانہ اس کے اجر وثواب سے احد پہاڑ کے برابر یا ایک قیراط معروف وزن کے برابر ثواب کم کر دیا جائے۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3204
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1147
´شکار اور ذبائح کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس کسی نے مال مویشی کے تحفظ کیلئے (رکھے گئے کتے) یا شکاری کتے یا زراعت کی دیکھ بھال و حفاظت کرنے والے کتے کے علاوہ دوسرا کوئی کتا (شوقیہ طور پر) رکھا تو اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط ثواب کم ہو جاتا ہے۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1147»
تخریج: «أخرجه البخاري، الحرث والمزارعة، باب إقتناء الكلب للحرث، حديث:2322، ومسلم، المساقاة، باب الأمر بقتل الكلاب...، حديث:1575.»
تشریح: 1. مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوا کہ دل کے بہلاوے اور شوقِ فضول کی تکمیل کے لیے کتا رکھنا ممنوع ہے‘ البتہ شکار کے لیے اور کھیتی باڑی اور جانوروں وغیرہ کی دیکھ بھال کے لیے رکھنے کی اجازت ہے۔ ان مقاصد کے سوا کسی اور مقصد کے لیے کتا رکھنے کی وجہ سے یومیہ ایک قیراط ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے۔ 2.قیراط ایک چھوٹا سا وزن ہے جو ایک ماشہ یا اس سے کم ہوتا ہے جبکہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے میں شرکت کی ترغیب میں اس کی مقدار احد پہاڑ کے برابر بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث میں مذکور قیراط سے کیا مراد ہے؟ اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضاحت نہیں ملتی‘ لہٰذا اس سے کوئی سا بھی وزن مراد لیا جائے ایک مسلمان کے لیے باعث حسرت و ندامت ہے کہ روزانہ اس کے اجر و ثواب میں سے احد پہاڑ کے برابر یا ایک قیراط معروف وزن کے برابر ثواب کم کر دیا جائے۔ واللّٰہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1147
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2844
´شکار یا کسی اور کام کے لیے کتا رکھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مویشی کی نگہبانی، یا شکار یا کھیتی کی رکھوالی کے علاوہ کسی اور غرض سے کتا پالے تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کے برابر کم ہوتا جائے گا ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2844]
فوائد ومسائل: ان مقاصد کے علاوہ کتا رکھنا گناہ اور خسارے کا سودا ہے۔ کہ ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ یہ وزن کس قدر ہوگا۔ جبکہ اوزان میں قیراط 2125 گرام چاندی کے وزن پر بولا جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2844
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2322
2322. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے زراعت اور مویشیوں کے نگہبان کتے کے علاوہ کوئی کتا رکھاتو اس کے عمل سے روزانہ ایک قیراط اجر کم ہوتا رہے گا۔“ ابن سیرین اور ابو صالح حضرت ابوہریرہ ؓ سے، اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں: ”سوائے اس کتے کے جوبکریاں یا کھیتی یا شکار کے لیے ہو۔“ ابو حازم حضرت ابوہریرہ ؓ سے، اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں: ”شکار یا ریوڑ کا کتا مستثنیٰ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2322]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھیتی کی حفاظت کے لیے بھی کتا پالا جاسکتا ہے جس طرح سے شکار کے لیے کتا پالنا جائز ہے۔ محض شوقیہ کتا پالنا منع ہے۔ اس لیے کہ اس سے بہت سے خطرات ہوتے ہیں۔ بڑا خطرہ یہ کہ ایسے کتے موقع پاتے ہی برتنوں میں منہ ڈال کر ان کو گندا کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ آنے جانے والوں کو ستاتے بھی ہیں۔ ان کے کاٹنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں داخل ہوتے جس میں یہ موذی جانور رکھا گیا ہو۔ ایسے مسلمان کی نیکیوں میں سے ایک قیراط نیکیاں کم ہوتی رہتی ہیں جو بے منفعت کتے کو پالتا ہو۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ فَضِيلَةُ الْغَرْسِ وَفَضِيلَةُ الزَّرْعِ وَأَنَّ أجر فاعلى ذلك مستمر مادام الْغِرَاسُ وَالزَّرْعُ وَمَا تَوَلَّدَ مِنْهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي أَطْيَبِ الْمَكَاسِبِ وَأَفْضَلِهَا فَقِيلَ التِّجَارَةُ وَقِيلَ الصَّنْعَةُ بِالْيَدِ وَقِيلَ الزِّرَاعَةُ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَقَدْ بَسَطْتُ إِيضَاحَهُ فِي آخِرِ بَابِ الْأَطْعِمَةِ مِنْ شَرْحِ الْمُهَذَّبِ وَفِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَيْضًا أَنَّ الثَّوَابَ وَالْأَجْرَ فِي الْآخِرَةِ مُخْتَصٌّ بِالْمُسْلِمِينَ وَأَنَّ الْإِنْسَانَ يُثَابُ عَلَى مَا سُرِقَ مِنْ مَالِهِ أَوْ أَتْلَفَتْهُ دَابَّةٌ أَوْ طَائِرٌ وَنَحْوُهُمَا الخ۔ و في الحدیث الحث علی تکثیر الأعمال الصالحة و التحذیر من العمل بما ینقصها و التنبیه علی أسباب الزیادة فیها و النقص منها لتجنتب أو ترتکب و بیان لطف اللہ تعالیٰ بخلقه في إباحة مالهم به نفع و تبلیغ نبیهم صلی اللہ علیه وسلم أمور معاشهم و معادهم و فیه ترجیح المصلحة الراجحة علی المفسدة لوقوع استثناء ما ینتفع به مما حرم اتخاذہ (فتح الباري) یعنی نیکیوں میں سے ایک قیراط کم ہونے کا سبب ایک تو یہ ہے کہ رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، یا یہ کہ اس کتے کی وجہ سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یا اس لیے کہ بھی کہ بعض کتے شیطان ہوتے ہیں یا اس لیے کہ باوجود نہی کے کتا رکھا گیا، اس سے نیکی کم ہوتی ہے یا اس لیے کہ وہ برتنوں میں منہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جہاں گھر والے سے ذار غفلت ہوئی اور کتے نے فوراً پاک پانی کو ناپاک کر ڈالا۔ اب اگر عبادت کے لیے وہ استعمال کیا گیا تو اس سے پاکی حاصل نہ ہوگی۔ الغرض یہ جملہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے محض شوقیہ کتا پالنے والوں کی نیکیاں روزانہ ایک ایک قیراط کم ہوتی رہتی ہیں۔ مگر تہذیب مغرب کا برا ہو آج کل نئی تہذب میں کتا پالنا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ امیر گھرانوں میں محض شوقیہ پلنے والے کتوں کی اس قدر خدمت کی جاتی ہے کہ ان کے نہلانے دھلانے کے لیے خاص ملازم ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ استغفر اللہ! مسلمانوں کو ایسے فضول بے ہودہ فضول خرچی کے کاموں سے بہرحال پرہیز لازم ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جن میں سے اعمال صالحہ کی کثرت پر رغبت دلانا بھی ہے اور ایسے اعمال بد سے ڈرانا بھی جن سے نیکی برباد ہو اورگناہ لازم آئے۔ حدیث ہذا میں ہر دو امور کے لیے تنبیہ ہے کہ نیکیاں بکثرت کی جائیں اور برائیوں سے بکثرت پرہیز کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ اللہ کی اپنی مخلوق پر مہربانی ہے کہ جو چیز اس کے لیے نفع بخش ہے وہ مباح قرار دی ہے اور اس حدیث میں تبلیغ نبوی بابت امور معاش و معاد بھی مذکو رہے۔ اوراس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض چیزیں حرام ہوتی ہیں جیسا کہ کتا پالنا، مگر ان کے نفع بخش ہونے کی صورت میں ان کو مصلحت کی بنا پر مستثنیٰ بھی کر دیا جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2322
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3324
3324. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے کتا پالا، اسکے عمل سے ہر روزایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے سوائے اس کتے کے جو کھیتی باڑی یا بھیڑ بکریوں کی حفاظت کرتا ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3324]
حدیث حاشیہ: کتے ضرور کبھی نہ کبھی کسی کا کسی بھی قسم کا نقصان ضرور کردیتے ہیں، اس نقصان کے عوض اس کے پالنے والے پر ذمہ داری ہوگی، حفاظت کے لیے جو کتے پالے جائیں ان پر ضرور مالک کا کنٹرول ہوگا لہٰذا وہ مستثنیٰ کئے گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3324