عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حج کیا دسویں ذی الحجہ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”آج کون سا دن ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ یوم النحر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا شہر ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ اللہ کا حرمت والا شہر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا مہینہ ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ اللہ کا حرمت والا مہینہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حج اکبر کا دن ہے، اور تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت و آبرو اسی طرح تم پر حرام ہیں جیسے اس شہر کی حرمت اس مہینے اور اس دن میں ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے (اللہ کے احکام تم کو) پہنچا دئیے ہیں“؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، (آپ نے پہنچا دئیے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے: ”اے اللہ! تو گواہ رہ“، اس کے بعد لوگوں کو رخصت کیا، تو لوگوں نے کہا: یہ حجۃ الوداع یعنی الوداعی حج ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3058]
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ کا آخری حج ہے، اس کے بعد آپ ہمیں جدائی کا داغ دے جائیں گے، نیز اس حج کے تھوڑے دنوں کے بعد آپ کی وفات ہوئی اس واسطے اس کو حجۃ الوواع کہتے ہیں۔
دماؤكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة هذا البلد في هذا الشهر في هذا اليوم هل بلغت قالوا نعم فطفق النبي اللهم اشهد ثم ودع الناس فقالوا هذه حجة الوداع