43. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اے ایمان والو! کوئی قوم کسی دوسری قوم کا مذاق نہ بنائے اسے حقیر نہ جانا جائے کیا معلوم شاید وہ ان سے اللہ کے نزدیک بہتر ہو۔“ «فأولئك هم الظالمون» تک۔
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عاصم بن محمد بن زید نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے میرے والد اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع) کے موقع پر منیٰ میں فرمایا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ بولے اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا یہ حرمت والا دن ہے (پھر فرمایا) تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ صحابہ بولے اللہ اور اس رسول کو زیادہ علم ہے، فرمایا یہ حرمت والا شہر ہے۔ (پھر فرمایا) تم جانتے ہو یہ کون سا مہینہ ہے؟ صحابہ بولے اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے، فرمایا یہی حرمت والا مہینہ ہے۔ پھر فرمایا بلاشبہ اللہ نے تم پر تمہارا (ایک دوسرے کا) خون، مال اور عزت اسی طرح حرام کیا ہے جیسے اس دن کو اس نے تمہارے اس مہینہ میں اور تمہارے اس شہر میں حرمت والا بنایا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6043]
دماؤكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة هذا البلد في هذا الشهر في هذا اليوم هل بلغت قالوا نعم فطفق النبي اللهم اشهد ثم ودع الناس فقالوا هذه حجة الوداع
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6043
حدیث حاشیہ: حدیث کا مضمون کسی مزید تشریح کا محتاج نہیں ہے۔ ایک مومن کی عزت فی الواقع بڑی اہم چیز ہے گویا اس کی عزت اور حرمت مکہ شہر جیسا مقام رکھتی ہے پس اس کی بے عزتی کرنا مکہ شریف کی بے عزتی کرنے کے برابر ہے۔ مومن کا خون نا حق کعبہ شریف کے ڈھا دینے کے برابر ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو ان چیزوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں اہل اسلام کی باہمی حالت پر صد درجہ افسوس ہوتا ہے۔ اس مقام پر بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے نیک دل مسلمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کعبہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا تھا کہ بے شک کعبہ ایک معزز گھر ہے اس کی تقدیس میں کوئی شبہ نہیں مگر ایک مومن ومسلمان کی عزت وحرمت بھی بہت بری چیز ہے اور کسی مسلمان کی بے عزتی کرنے والا کعبہ شریف کو ڈھا دینے والے کے برابر ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ مسلمان مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس آپس میں اگر کچھ ناچاقی بھی ہو جائے تو ان کی صلح صفائی کرا دیا کرو۔ ایک حدیث میں آپس کی صلح صفائی کرا دینے کو نفل نمازوں اور روزوں سے بھی بڑھ کر نیک عمل بتایا گیا ہے۔ پس مطالعہ فرمانے والے بھائیوں بہنوں کا اہم ترین فرض ہے کہ وہ آپس میں میل محبت رکھیں اور اگر آپس میں کچھ ناراضگی بھی ہو جائے تو اسے رفع دفع کر دیا کریں مومن جنتی بندوں کی قرآن میں یہ علامت بتلائی گئی ہے کہ وہ غصہ کو پی جانے والے اورلوگوں سے ان کی غلطیوں کو معاف کر دینے والے ہوا کرتے ہیں۔ نماز روزہ کے مسائل پر توجہ دینا جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ ایسے مسائل پر بھی توجہ دی جائے اورآپس میں زیادہ سے زیادہ میل محبت ہو۔ اخوت، بھائی چارہ بڑھا یا جائے۔ حسد، کینہ دلوں میں رکھنا سچے مسلمانوں کی شان نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6043
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6043
حدیث حاشیہ: مسلمان کا ناحق خون بہانا، بلا وجہ اس کا مال لوٹنا اور اس کی عزت وناموس پر حملہ کرنا بہت بڑا جرم ہے، بلکہ اسے حقیر خیال کرنا بھی شریعت کو پسند نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد گرامی ہے: ”مسلمان کو اتنا ہی شر کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر خیال کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے خون، مال اور عزت کو حرام کیا ہے۔ “(صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6541(2564) مذکورہ حدیث کے مطابق ایک مسلمان کی عزت وآبرو مکہ شہر کی حرمت کے برابر ہے۔ کاش! مسلمان ان باتوں کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6043
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1742
1742. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے منیٰ کے میدان میں فرمایا: ”کیا تم جانتے ہویہ دن کون ساہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ باخبر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ دن حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ شہر کون ساہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ شہر بھی حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ مہینہ کون ساہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ مہینہ بھی عزت والا ہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تم پر تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں حرام کی ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے کے دوران اس شہر میں ہے۔“ ہشام بن غاز نے کہا: مجھے حضرت نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے خبردی کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع میں قربانی کے دن جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”یہ دن حج اکبرکاہے۔“ اس کے بعد نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1742]
حدیث حاشیہ: حج اکبر حج کو کہتے ہیں اور حج اصغر عمرہ کو کہتے ہیں اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ نویں تاریخ جمعہ کو آجائے تو وہ حج اکبر ہے، اس کی سند صحیح حدیث سے کچھ نہیں، البتہ چند ضعیف حدیثیں اس حج کی زیادہ فضیلت میں وارد ہیں جس میں نویں تاریخ جمعہ کو آن پڑے۔ بعضوں نے کہا یوم الحج الأصغر نویں تاریخ کو اور یوم الحج الأکبر دسویں تاریخ کو کہتے ہیں کہ ان ہی دنوں میں آپ ﷺ پر سورۃ: ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ نازل ہوئی اور آپ ﷺ سمجھ گئے کہ اب دنیا سے روانگی قریب ہے، اب ایسے اجتماع کا موقع نہ مل سکے گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا فیه دلیل لمن یقول أن یوم الحج الأکبر هو یوم النحر یعنی اس حدیث میں اس شخص کی دلیل موجود ہے جو کہتا ہے کہ حج اکبر کے دن سے مراد دسویں تاریخ ہے بس عوام میں جو مشہور ہے کہ اگر جمعہ کے دن حج واقع ہو تو اسے حج اکبر کہا جاتا ہے، یہ خیال قوی نہیں أنه نبه صلی اللہ علیه وسلم في الخطبة المذکورة علی تعظیم یوم النحر و علی تعظیم شهر ذي الحجة و علی تعظیم البلد الحرام۔ یعنی آنحضرت ﷺ اس خطبہ میں یوم النحر اور ماہ ذی الحجہ اور مکۃ المکرمہ کی عظمتوں پر تنبیہ فرمائی کہ امت ان اشیاء مقدسہ کو یاد رکھے اور جو نصائح و وصایا آپ ﷺ دئیے جارہے ہیں امت ان کو تاابد فراموش نہ کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1742
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6785
6785. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”تم کس مہینےکو حرمت میں عظیم تر جانتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: اسی مہینے (ذوالحجہ) کو۔ آپ نے فرمایا: ”بتاؤ تم کس شہر کو سے زیادہ حرمت والا خیال کرتے ہو؟“ لوگوں نے جواب دیا: اسی شہر (مکہ) کو۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: ”تم کس دن کو سب سے زیادہ عزت والا سمجھتے ہو؟“ صحابہ کرام نے کہا: اپنے اسی دن (یوم نحر) کو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالٰی نے حق شرع کے سوا تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام کر دی ہیں جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔“ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟“ صحابہ کرام نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ ہاں پہنچا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”تمہاری خرابی ہو! میرے بعد تم کفار جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6785]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ظاہر ہے کہ مسلمان کا عنداللہ کتنا بڑا مقام ہے۔ جس کا لحاظ ہر مسلمان کا اہم فریضہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6785
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1742
1742. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے منیٰ کے میدان میں فرمایا: ”کیا تم جانتے ہویہ دن کون ساہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ باخبر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ دن حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ شہر کون ساہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ شہر بھی حرمت والا ہے۔ کیا تم جانتے ہو یہ مہینہ کون ساہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”یہ مہینہ بھی عزت والا ہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تم پر تمھارے خون، تمھارے مال اور تمھاری عزتیں حرام کی ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے کے دوران اس شہر میں ہے۔“ ہشام بن غاز نے کہا: مجھے حضرت نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے خبردی کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع میں قربانی کے دن جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”یہ دن حج اکبرکاہے۔“ اس کے بعد نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1742]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا ان احادیث کے بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ ایام منیٰ میں خطبہ مشروع ہے۔ (2) ان احادیث میں اگرچہ دس ذوالحجہ کے خطبے کا ذکر ہے، تاہم دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں جب بھی ضرورت محسوس ہوئی آپ ﷺ نے خطبہ دیا جیسا کہ بعض روایات میں أوسط أيام التشريق کے الفاظ ہیں: اس سے گیارہ یا بارہ ذوالحجہ مراد ہے۔ اس خطبے میں یوم النحر، ماہ ذی الحجہ اور مکہ مکرمہ کی عظمتوں کا ذکر ہے۔ امت کو اس پر تنبیہ فرمائی تاکہ وہ انہیں فراموش نہ کر دے، پھر اس میں لوگوں کے حج سے متعلق سوال و جواب بھی ہوئے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ نے ان تعلیمات کو خطبے کا نام دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اسی دن یہ فرمایا تھا: ”مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔ “(3) حضرت ہرماس بن زیاد، حضرت ابو امامہ، حضرت معاذ اور حضرت رافع بن عمرو ؓ سے بھی روایات ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ کے دن دس ذوالحجہ کو خطبہ دیا تھا۔ اس عظیم الشان خطبے کو اساس الاسلام قرار دیا جاتا ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف صحابۂ کرام ؓ نے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری ؓ کا مقصد خطبے کی تفاصیل سے آگاہ کرنا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ قربانی کے دن بھی خطبہ دینا مسنون ہے۔ واللہ أعلم۔ (4) حضرت ابو نضرہ کی روایت میں ایام تشریق کے درمیان والے دن کا خطبہ ان الفاظ میں مروی ہے، آپ نے فرمایا: ”اے لوگو! خبردار! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر ہی کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی سرخ کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو سرخ پر کوئی برتری حاصل ہے۔ اگر ہے تو صرف تقوے کی بنا پر۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟“ صحابۂ کرام ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے پہنچا دیا ہے۔ (مسندأحمد: 411/5)(5) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران حج میں تین خطبے مشروع ہیں: ٭ عرفہ کے دن 9 ذوالحجہ۔ ٭ نحر کے دن 10 ذوالحجہ۔ ٭ ایام تشریق کے وسط میں 12 ذوالحجہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1742
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6785
6785. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”تم کس مہینےکو حرمت میں عظیم تر جانتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: اسی مہینے (ذوالحجہ) کو۔ آپ نے فرمایا: ”بتاؤ تم کس شہر کو سے زیادہ حرمت والا خیال کرتے ہو؟“ لوگوں نے جواب دیا: اسی شہر (مکہ) کو۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: ”تم کس دن کو سب سے زیادہ عزت والا سمجھتے ہو؟“ صحابہ کرام نے کہا: اپنے اسی دن (یوم نحر) کو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالٰی نے حق شرع کے سوا تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام کر دی ہیں جیسا کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں ہے۔“ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ”کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟“ صحابہ کرام نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ ہاں پہنچا دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”تمہاری خرابی ہو! میرے بعد تم کفار جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6785]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مومن کی پیٹھ ہر قسم کی ایذا رسانی سے محفوظ ہے لیکن اگر اس پر حد واجب ہوتو محفوظ نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کا حق اس کے ذمے ہوتو اسے وصول کر لینے کے لیے اس کی پیٹھ کو مارا جا سکتا ہے، اس کے سوا مومن کا خون، مال اور اس کی آبرو محفوظ ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے جان ومال کو اپنے لیے مباح اور حلال خیال کرے یا اس کی آبرو کو اپنے لیے جائز سمجھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمان کا مقام بہت بلند ہے جس کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان کا اہم فریضہ ہے۔ (فتح الباري: 104/12)(2) ”میرے بعد تم کافر نہ بن جانا“ اس جملے کے کئی ایک مفہوم شارحین نے بیان کیے ہیں: ٭حق کے بغیر کسی کے قتل کو حلال خیال کرنا کفر ہے۔ ٭اس سے مراد کفران نعمت ہے۔ ٭یہ فعل کفر کے قریب کر دیتا ہے۔ ٭یہ فعل کافروں کے فعل جیسا ہے۔ ٭اس سے حقیقت کفر مراد ہے، یعنی کفرنہ کرو اور ہمیشہ اسلام پر قائم رہو۔ ٭ یہ جملہ ان کے لیے ہے جو ہتھیار پہن کر خود کو ڈھانپ لیتے ہیں، ہتھیار لگانے والے کو کافر کہا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو کافر نہ کہو ورنہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو گے۔ ان تمام اقوال میں سے چوتھا قول زیادہ قرین قیاس ہے۔ (عمدة القاري: 66/16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6785