جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں مزدلفہ سے اطمینان کے ساتھ لوٹے، اور لوگوں کو بھی اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا، اور حکم دیا کہ وہ ایسی کنکریاں ماریں جو دونوں انگلیوں کے درمیان آ سکیں، اور وادی محسر، میں آپ نے سواری کو تیز چلایا اور فرمایا: ”میری امت کے لوگ حج کے احکام سیکھ لیں، کیونکہ مجھے نہیں معلوم شاید اس سال کے بعد میں ان سے نہ مل سکوں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3023]
وضاحت: ۱؎: وادی محسر: منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پر عذاب آیا تھا، جو یمن سے کعبہ کو ڈھانے اور اس کی بے حرمتی کے لیے آئے تھے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3023
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حج کے دوران میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتے ہوئے تیز رفتاری سے پرہیز کرنا چاہیے بلکہ درمیانی راستہ سے چلنا چاہیے۔
(2) وادئ محسر وہ مقام ہے جہاں ابرہہ کا لشکر تباہ ہوا تھا اس لیے رسول اللہﷺ وہاں سے تیزی سے گزرے۔
(3) قدیم تباہ شدہ بستیوں کو سیر گاہ نہیں بنانا چاہیے۔ پاکستان میں ہڑپہ اور موہن جودڑو کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں دوسرے ممالک میں بھی ایسے مقام موجود ہیں۔ ممکن ہے یہاں کے لوگ اللہ کے عذاب کی وجہ سے تباہ ہوئے ہوں۔ اللہ کی عذاب یافتہ قوموں کے آثار باعث عبرت ہے تماشہ گاہ نہیں۔
(4) شریعت کے مسائل میں اصل مرجع رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک ہےکسی اور کا عمل حجت نہیں۔ علمائے کرام سے رسول اللہﷺ کا فرمان ہی دریافت کرنا چاہیے۔
(5) رسول اللہﷺ اگلے حج تک زندہ نہیں رہے جیسے آخری حج کے موقع پر فرما دیا تھا۔ نبیﷺ کی اور بھی بہت سی پیشگوئیاں حرف بحرف پوری ہوئیں۔ یہ رسول اکرم ﷺ کی صداقت اور نبوت کی دلیل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3023
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3064
´سوار ہو کر کنکریاں مارنے اور محرم کے سایہ کرنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر جمرہ کو کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، اور آپ فرما رہے تھے: ”لوگو! مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھ لو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید میں اس سال کے بعد آئندہ حج نہ کر سکوں۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3064]
اردو حاشہ: ”شاید“ دراصل آپ کو بہت سے قرائن کی بنا پر معلوم ہو چکا تھا کہ یہ میری دنیوی زندگی کا آخری سال ہے اور اسے آپ نے اشارات وکنایات میں لوگوں پر ظاہر بھی کر دیا تھا۔ مندرجہ بالا جملہ بھی اسی بات کا اظہار ہے۔ حج نہ کر سکنے کا مطلب بھی وفات ہی ہے۔ ”شاید“ کا لفظ پیغمبرانہ شان ہے کہ باوجود یقین کے امکان ظاہر کیا کیونکہ ایسے معاملات بہر صورت اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہیں۔ صرف تین ماہ بعد پیارے رسول اللہﷺ اپنے مولا و رفیق اعلیٰ کو پیارے ہوگئے۔ فداہ نفسي وروحي وابي واميﷺ
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3064