عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کی وادی نمرہ میں ٹھہرتے، راوی کہتے ہیں: جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس یہ پوچھنے کے لیے آدمی بھیجا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آج کے دن کس وقت (نماز اور خطبہ کے لیے) نکلتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، حجاج نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ دیکھتا رہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کب نکلتے ہیں؟ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے چلنے کا ارادہ کیا، تو پوچھا: کیا سورج ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ہے، تو وہ بیٹھ گئے، پھر پوچھا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ہے، پھر آپ بیٹھ گئے، پھر آپ نے کہا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو جب لوگوں نے کہا: ہاں، تو وہ چلے۔ وکیع نے «ارتحل» کا معنی «راح»(چلے) بتایا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3009]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/المناسک 61 (1914)، (تحفة الأشراف: 7073)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 87 (1660)، موطا امام مالک/الحج 64 (195)، مسند احمد (2/25) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1914) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
أراد ابن عمر أن يرتحل قال أزاغت الشمس قالوا لم تزغ بعد فجلس ثم قال أزاغت الشمس قالوا لم تزغ بعد فجلس ثم قال أزاغت الشمس قالوا لم تزغ بعد فجلس ثم قال أزاغت الشمس قالوا نعم فلما قالوا قد زاغت ارتحل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3009
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کی اصل صحیح مسلم (1218) میں ہے۔ نیز سنن ابو داؤد (اردو حديث: 1914۔ طبع دارالسلام) کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ صحیح مسلم کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نے اسے حسن قراردیا ہے۔ نیز مسند احمد کے محققین اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت تو سنداً ضعیف ہے۔ لیکن دیگر صحیح روایات سے حدیث میں مذکور مسئلےکی تائید ہوتی ہے۔ کہ سورج ڈھلنے کے بعد عرفات کی حدود میں داخل ہونا چاہیے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد 8/ 399، 400) وصحيح أبي داؤد (مفصل) حديث: 1672)
(2) نو ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے پہلے وادی نمرہ میں ٹھرنا چاہیے۔ یہ جگہ حرم کی حدود میں ہے اور عرفات سے مشرق میں ہے۔
(3) سورج ڈھلنے کے بعد عرفات کی حدود میں داخل ہونا چاہیے۔ میدان عرفات حرم کی حدود سے باہر ہے۔
(4) خلیفہ عبدالملک کو حجاج بن یوسف نے تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا کہ حج کے مسائل میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فتوی کے مطابق عمل کیا جائے اس لیے اس نے ان سے پوچھ پوچھ کر عمل کیا۔ (صحيح البخاري، الحج، باب التهجير بالرواح يوم عرفة، حديث: 1660)
(5) حکام کو چاہیے کہ علماء سے رہنمائی حاصل کریں اور لوگوں سے شریعت کے مطابق عمل کرائیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3009
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1914
´(نمرہ سے) عرفات کے لیے نکلنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس (پوچھنے کے لیے آدمی) بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج (یعنی عرفہ) کے دن (نماز اور خطبہ کے لیے) کس وقت نکلتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے چلنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا: ابھی سورج ڈھلا نہیں، انہوں نے پوچھا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا، پھر جب لوگوں نے کہا کہ سورج ”ڈھل گیا“ تو وہ چلے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1914]
1914. اردو حاشیہ: اصحاب کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ عمل کی کسی جزئی کو بھی غیر اہم نہیں سمجھتے تھے ان کی انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ سب پر من وعن عمل کیاجائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1914