سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبیلہ ہوازن سے جنگ کی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی فزارہ سے حاصل کی ہوئی ایک لونڈی مجھے بطور نفل (انعام) دی، وہ عرب کے خوبصورت ترین لوگوں میں سے تھی، اور پوستین پہنے ہوئی تھی، میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا تھا کہ مدینہ آیا، بازار میں میری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی شان، تمہارا باپ بھی کیا خوب آدمی تھا! یہ لونڈی مجھے دے دو، میں نے وہ آپ کو ہبہ کر دی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لونڈی ان مسلمانوں کے عوض فدیہ میں دے دی جو مکہ میں تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2846]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المغازي 14 (1755)، سنن ابی داود/الجہاد 134 (2697)، (تحفة الأشراف: 4515)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ و 47، 51) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ امام کسی کو کوئی چیز دے کر پھر اس کو واپس لے لے تو بھی جائز ہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو پہلے دحیہ رضی اللہ عنہ کو دیا تھا پھر ان سے واپس لے لیا۔
هب لي المرأة فقلت يا رسول الله والله لقد أعجبتني وما كشفت لها ثوبا ثم لقيني رسول الله من الغد في السوق فقال لي يا سلمة هب لي المرأة لله أبوك فقلت هي لك يا رسول الله فوالله ما كشفت لها ثوبا فبعث بها رسول الله
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2846
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مال غنیمت تمام مجاہدین میں برابر تقسیم کیا جاتا ہے تاہم بہتر کارکردگی دکھانے والوں کو اس کے علاوہ بھی انعام دیا جاسکتا ہے اسے نفل کہتے ہیں۔
(2) امام (خلیفہ یا کمانڈر) کسی مجاہد کو دیا ہوا انعام واپس لے سکتا ہے جب اسے واپس لینے میں کوئی بڑی مصلحت ہو۔
(3) مسلمانوں قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کافر قیدیوں کو آزاد کرنا جائز ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ شرعاً درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2846
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2697
´جوان قیدیوں کو الگ الگ رکھنا جائز ہے۔` سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا، ہم نے قبیلہ بنی فزارہ سے جنگ کی، ہم نے ان پر اچانک حملہ کیا، کچھ بچوں اور عورتوں کی گردنیں ہمیں نظر آئیں، تو میں نے ایک تیر چلائی، تیر ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا وہ سب کھڑے ہو گئے، پھر میں ان کو پکڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی، وہ کھال پہنے ہوئی تھی، اس کے ساتھ اس کی لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کی بیٹی کو بطور انعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2697]
فوائد ومسائل: 1۔ مجاہد کو اضافی انعامات (نفل غنیمت) خمس نکالنے سے پہلے دیئے جاتے ہیں۔
2۔ قیدی اگر بڑی عمر کے ہوں۔ تو قریبی رشتہ داروں میں بھی تفریق کی جا سکتی ہے۔
3۔ رسول اللہ ﷺ کسی مسلمان کا مال اس کی ولی رضا مندی کے بغیر لینا پسند نہ کرتے تھے۔
3۔ لونڈیوں سے مباشرت جائز ہے۔ خواہ مشرک ہی ہوں۔ مگر استبراء (ایک حیض آنے) کے بعد۔
5۔ جس طرح بھی بن پڑے مسلمان قیدیوں کو آزاد کرایا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2697
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4573
حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بنو فزارہ سے جنگ کرنے کے لیے نکلے، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے امیر تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارا امیر مقرر کیا تھا، جب ہمارے اور پانی کے درمیان ایک گھڑی کی مسافت رہ گئی تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، پھر انہوں نے سخت حملہ کیا اور پانی پر پہنچ گئے، اس پر قابل قتل لوگوں کو قتل کیا اور (دوسروں کو) قیدی بنایا اور میں ان لوگوں کو دیکھ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4573]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) شن الغاره: ان پر زوردار ہر طرف سے حملہ کیا۔ عنق: جماعت۔ (2) قشع: پرانی پوستین (چمڑے کی قمیص) ۔ (3) ماكشف لها ثوبا: یعنی میں اس سے لطف اندوز نہیں ہو یا اس سے تعلقات قائم نہیں کیے۔ (4) لله ابوك: جب بیٹا قابل تعریف کام کرے تو تعریف و توصیف کے لیے یہ کلمہ استعمال کرتے ہیں۔ فوائد ومسائل: بنو فزارہ سے اس جنگ کے امیر لشکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، لیکن حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی اس علاقہ سے آشنا ہونے کی بناء پر بطور امیر ساتھ تھے، اس لیے اس کو غزوہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے بھی تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ غزوہ 7ھ میں پیش آیا اور اس کے قیدیوں سے ایک خوبصورت لڑکی بطور انعام حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپﷺ نے مسلمانوں کے مفاد اور بہتری کے لیے اسے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ سے مانگ لیا تاکہ اس کو مسلمان قیدیوں کے فدیہ کے طور پر دے کر ان کو چھڑایا جا سکے، جس سے معلوم ہوا مسلمان قیدیوں کو چھڑانے کے لیے بطور فدیہ کافر قیدی دینا جائز ہے اور بالغ بیٹی کو ماں سے الگ کرنا جائز ہے اور یہ اتفاقی اجماعی مسئلہ ہے اور یہ لڑکی اہل مکہ کو دی گئی اور وہاں حزن بن ابی وھب کے ہاتھ لگی، کیونکہ وہ اس وقت کافر تھا، فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا۔