عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کا ایک گھوڑا چلا گیا، اور اسے دشمن نے پکڑ لیا، پھر مسلمان ان پر غالب آ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وہ انہیں لوٹایا گیا، ان کا ایک غلام بھی بھاگ گیا، اور روم (کے نصاریٰ) سے جا ملا، پھر مسلمان ان پر غالب آ گئے، تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کو واپس کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2847]
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عضباء کو کافر لے گئے، پھر ایک عورت اس پر چڑھ کر مسلمانوں کے پاس آ گئی، تو اس اونٹنی کے نحر کرنے کی اس نے نذر کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو نذر گناہ کی ہو، یا اپنی ملکیت میں نہ ہو وہ پوری نہ کی جائے“، علماء کا یہی قول ہے کہ کافر غلبہ سے مسلمانوں کے کسی چیز کے مالک نہ ہوں گے اور جب وہ چیز پھر ہاتھ آئے تو اس کا مالک لے لے گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2847
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر کسی مسلمان کا کوئی مال کافروں کے قبضے میں چلا جائے اور بعد میں وہ دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے تو اسے عام غنیمت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ وہ اسی مسلمان کو ملے گا جس کے قبضے سے نکلا تھا۔
(2) مسلمانوں کی جو چیز کافروں کے قبضے میں چلی جائے تو قانونی طور پر وہ اسی مسلمان کی ملکیت میں رہتی ہے۔ جب ممکن ہو اسے دے دی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2847