ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو مصدق (عامل صدقہ) بنا کر بھیجا، زکاۃ کے سلسلے میں ان کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا، ابوجہم رضی اللہ عنہ نے اسے مارا تو اس کا سر پھٹ گیا، وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور قصاص کا مطالبہ کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تم اتنا اتنا مال لے لو“، وہ راضی نہیں ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اتنا اتنا مال (اور) لے لو“، تو وہ راضی ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں، اور تم لوگوں کی رضا مندی کی خبر سناؤں؟ کہنے لگے: ٹھیک ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: ”یہ لیث کے لوگ میرے پاس آئے اور قصاص لینا چاہتے تھے، میں نے ان سے اتنا اتنا مال لینے کی پیشکش کی اور پوچھا: کیا وہ اس پر راضی ہیں“؟ کہنے لگے: نہیں، (ان کے اس رویہ پر) مہاجرین نے ان کو مارنے پیٹنے کا ارادہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باز رہنے کو کہا، تو وہ رک گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور کچھ اضافہ کر دیا، اور پوچھا: ”کیا اب راضی ہیں“؟ انہوں نے اقرار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”کیا میں خطبہ دوں اور لوگوں کو تمہاری رضا مندی کی اطلاع دے دوں“؟ جواب دیا: ٹھیک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور پھر کہا: ”تم راضی ہو“؟ جواب دیا: جی ہاں ۱؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن یحییٰ کو کہتے سنا کہ معمر اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہیں، میں نہیں جانتا کہ ان کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2638]
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں ان کی رضا مندی کی بات اس لئے کہتے تھے تاکہ لوگ گواہ ہو جائیں اور پھر وہ اپنے اقرار سے مکر نہ سکیں چونکہ آپ کو ان کی صداقت پر بھروسہ نہ تھا، اور ایسا ہوا بھی، پہلی بار راضی ہو کر گئے، مگر خطبہ کے وقت کہنے لگے کہ ہم راضی نہیں ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4534) نسائي (4782) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474
عرضت عليهم كذا وكذا فرضوا قالوا لا فهم المهاجرون بهم فأمرهم رسول الله أن يكفوا فكفوا ثم دعاهم قال أرضيتم قالوا نعم قال فإني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم قالوا نعم فخطب الناس ثم قال أرضيتم قالوا نعم
عرضت عليهم كذا وكذا فرضوا أرضيتم قالوا لا فهم المهاجرون بهم فأمرهم رسول الله أن يكفوا عنهم فكفوا ثم دعاهم فزادهم فقال أرضيتم فقالوا نعم قال إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم قالوا نعم فخطب النبي فقال أرضيتم قالوا نعم
عرضت عليهم كذا وكذا أرضيتم قالوا لا فهم بهم المهاجرون فأمر النبي أن يكفوا فكفوا ثم دعاهم فزادهم فقال أرضيتم قالوا نعم قال إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم قالوا نعم فخطب النبي ثم قال أرضيتم قالوا نعم
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2638
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد: 43؍111، 112، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم: 2638، وصحیح سنن ابن ماجة للألبانی، رقم: 2150) ۔
(2) زخم کا بھی قصاص ہوتا ہے۔
(3) قصاص کے عوض نقد جرمانہ (دیت) درست ہے۔
(4) دیت صرف اس وقت درست ہے جب مدعی راضی ہو جائے۔
(5) جس کے معاملے میں یہ خطرہ محسوس ہوکہ عوام امیر (حاکم) پر اعتراض کریں گے تو اس میں امیر کو ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے کہ اعتراضات کا دروازہ بند ہوجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2638
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4782
´سلطان (حکمراں) کے (عامل کے) ذریعہ کسی کو زخم آ جائے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تو ایک شخص اپنے صدقے کے سلسلے میں ان سے لڑ گیا، تو ابوجہم نے اسے مار دیا، ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! بدلہ دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”اتنا اتنا مال لے لو“، وہ اس پر راضی نہ ہوئے، تو آپ نے فرمایا: ”(اچھا) اتنا اتنا مال لے لو“، تو وہ اس پر راضی ہو گئے، پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4782]
اردو حاشہ: (1) اگر بادشاہ اور کوئی صاحب اختیار واقتدار حکمران کسی کے ساتھ اس قسم کی زیادتی اور مار کٹائی والا معاملہ کرے جیسا کہ حضرت ابو جہم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا تھا تو اس سے قصاص لیا جا سکتا ہے، تاہم فریق ثانی کو کچھ دے دلا کر بھی معاملہ رفع دفع کیا جا سکتا ہے۔ (2) دیہاتی طبعاً سخت مزاج ہوتے ہیں اور لا علم بھی، اس لیے انھوں نے اس طرح کا رویہ اختیار کیا۔ رسول اکرم ﷺ نے ان کی جہالت کی وجہ سے ان کے رویے سے درگزر فرمایا جو آپ کی وسعت ظرفی اور حسن اخلاق کی دلیل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل علم کو عوام الناس کی بے ادبیوں کو صبر اور اخلاق سے برداشت کرنا چاہیے اور اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ (3) اس روایت کو دیگر محققین نے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابن ماجه (مترجم) طبع، دارالسلام، حدیث: 2638)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4782
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4534
´زکاۃ وصول کرنے والے کے ہاتھ سے لاعلمی میں کوئی زخمی ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، ایک شخص نے اپنی زکاۃ کے سلسلہ میں ان سے جھگڑا کر لیا، ابوجہم نے اسے مارا تو اس کا سر زخمی ہو گیا، تو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! قصاص دلوائیے، اس پر آپ نے ان سے فرمایا: ”تم اتنا اور اتنا لے لو“ لیکن وہ لوگ راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے فرمایا: ”اچھا اتنا اور اتنا لے لو“ وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا: ”اچھا اتنا اور اتنا لے لو“ اس پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4534]
فوائد ومسائل: بعض حضرات نے اس حدیث کی صحت تسلیم کی ہے، لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ روایت ضعیف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4534