عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوئے، اللہ کی تعریف کی، اس کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور کفار کے گروہوں کو اس نے اکیلے ہی شکست دے دی، آگاہ رہو! غلطی سے قتل ہونے والا وہ ہے جو کوڑے اور لاٹھی سے مارا جائے، اس میں (دیت کے) سو اونٹ لازم ہیں، جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں ان کے پیٹ میں بچے ہوں، خبردار! زمانہ جاہلیت کی ہر رسم اور اس میں جو بھی خون ہوا ہو سب میرے ان پیروں کے تلے ہیں ۱؎ سوائے بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانے کے، سن لو! میں نے ان دونوں چیزوں کو انہیں کے پاس رہنے دیا ہے جن کے پاس وہ پہلے تھے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2628]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الدیات 19 (4549)، سنن النسائی/القسامة 27 (4797)، (تحفة الأشراف: 7372) (حسن)» (ابن جدعان ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 7/257)
وضاحت: ۱؎: یعنی لغو ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ ۲؎: چنانچہ کعبہ کی کلید برداری بنی شیبہ کے پاس اور حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمے داری بنی عباس کے پاس حسب سابق رہے گی۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (4549) نسائي (4803) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 473
الحمد لله الذي صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده قتيل الخطإ قتيل السوط والعصا فيه مائة من الإبل منها أربعون خلفة في بطونها أولادها ألا إن كل مأثرة كانت في الجاهلية ودم تحت قدمي هاتين إلا ما كان من سدانة البيت وسقاية الحاج ألا إني قد أمضيتهما لأ
الحمد لله الذي صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده قتيل العمد الخطإ بالسوط والعصا شبه العمد فيه مائة من الإبل مغلظة منها أربعون خلفة في بطونها أولادها
الحمد لله الذي صدق وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده، ألا إن قتيل العمد والخطأ بالسوط أو العصا فيه مائة من الإبل مغلظة فيها أربعون خلفة في بطونها أولادها، ألا إن كل مأثرة في الجاهلية أو دم أو مال، فهو تحت قدمي هاتين، إلا ما كان من سدانة البيت أو سقاية الحاج، فإني قد أمضيتها لأهلها كما كانت
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2628
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں، ان میں سے سابقہ حدیث بھی اس کی شاہد ہے۔ اور وہ صحیح ہے، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ روایت کو حسن قراردیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھئے: (الإرواء للالبانی: 7؍257) ۔
(2) اللہ کے وعدے سے مراد فتح مکہ اورعرب میں اسلام کے غلبے کا وعدہ ہے جو نبئ اکرمﷺ کی زندگی میں پورا ہوا۔
(3) جماعتوں سے مراد عرب کے غیر مسلموں کے مختلف قبائل اور ان کے جتھے ہیں جن سے رسول اللہﷺ کا مقابلہ ہوا اور اللہ تعالی نے اپنے نبی کو فتح نصیب فرمائی۔
(4) اس حدیث میں قتل خطا سے مراد شبہ عمد ہے جیسا کہ کوڑے اور لاٹھی کے ذکر سے وضاحت فرما دی گئی ہے۔
(5) اسلام سے پہلے مکہ کے مختلف قبائل کو مختلف مذہبی عہدے حاصل تھے حو غیراسلامی ہونے کی وجہ سے منسوخ کردیے گئے، البتہ خانہ کعبہ کی خدمت اور کلید برادری کا منصب اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب قائم رکھا گیا کیونکہ ان میں اسلام کے منافی عقائد واعمال کا اثر نہیں۔
(6) زمانۂ جاہلیت میں خانہ کعبہ کی خدمت کا منصب قبیلۂ بنو عبدالدار کے پاس تھا۔ فتح مکہ کے مواقع پراس قبیلے کی شاخ بنو شیبہ کے لوگ اس منصب پر فائز تھے۔ خانہ کعبہ کی چابی بنو شیبہ کے ایک فرد حضرت عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہ کے پاس تھی۔ حاجیوں کو پانی پلانا اور زم زم کا انتظام بنو ہاشم کے ہاتھ میں تھا۔ اور فتح مکہ کے مواقع پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ اس کے ذمہ دار تھے۔ یہ دونوں منصب آج تک انہیں دو حضرات کی اولاد میں ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2628