عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ مزینہ کے ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھلوں کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص پھل خوشے میں سے توڑ کر چرائے تو اسے اس کی دوگنی قیمت دینی ہو گی، اور اگر پھل کھلیان میں ہو تو ہاتھ کاٹا جائے گا، بشرطیکہ وہ ڈھال کی قیمت کے برابر ہو، اور اگر اس نے صرف کھایا ہو لیا نہ ہو تو اس پر کچھ نہیں“، اس شخص نے پوچھا: اگر کوئی چراگاہ میں سے بکریاں چرا لے جائے (تو کیا ہو گا)؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دوگنی قیمت ادا کرنی ہو گی، اور سزا بھی ملے گی، اور اگر وہ اپنے باڑے میں ہو تو اس میں (چوری کرنے پر) ہاتھ کاٹا جائے بشرطیکہ چرائی گئی چیز کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2596]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللقطة 1 (1711)، الحدود 12 (4390)، (تحفة الأشراف: 8812)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 54 (1289)، سنن النسائی/قطع السارق 11 (4972)، مسند احمد (2/186) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: ابوداود کی روایت میں ہے جو کوئی پھلوں کو منہ میں ڈال لے، اور گود میں بھر کر نہ لے جائے اس پر کچھ نہیں ہے، اور جو اٹھا کر لے جائے اس پر دوگنی قیمت ہے، اور سزا کے لئے مار ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2596
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کسی کے باغ سے بلا اجازت پھل کھانا جائز نہیں ہے تاہم اس کی کوئی سزا نہیں۔
(2) باغ سے پھل لے جانا قابل سزا جرم ہے۔
(3) چوری کے نصاب سے کم مقدار کی چیز چرائی جائے تو اس کی سزا مالی جرمانہ ہے جس کی مقدار چرائی ہوئی چیز سے دگنی ہے۔
(4) مالی جرمانے کے ساتھ جرم کی نوعیت کےمطابق چند کوڑے مارے جا سکتے ہیں۔
(5) محفوظ جگہ سےچرائی ہوئی چیز کےبدلے ہاتھ اس وقت کاٹا جائے گا جب اس کی قیمت چوتھائی دینار تک پہنچتی ہو اس کو احادیث میں ڈھال کی قیمت کہا گیا ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺکے زمانےمیں ڈھال کی اوسط قیمت یہی تھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2596