ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کر دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2579]
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ پیاس کے مارے تڑپتے رہے لیکن کسی نے ان کو پانی نہیں دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے، یہ آنکھیں پھوڑنا اور پانی نہ دینا تشدد کے لئے نہ تھا بلکہ اس لئے تھا کہ انہوں نے کئی کبیرہ گناہ کئے تھے، ارتداد، قتل، لوٹ پاٹ، ناشکری وغیرہ۔ بعضوں نے کہا کہ یہ قصاص میں تھا کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا، غرض بدکار، بدفعل، بے رحم اور ظالم پر ہرگز رحم نہ کرنا چاہئے، اور اس کو ہمیشہ سخت سزا دینی چاہئے تاکہ عام لوگ تکلیف سے محفوظ رہیں، اور یہ عام لوگوں پر عین رحم و کرم ہے کہ ظالم کو سخت سزا دی جائے، اور ظالم پر رحم کرنا غریب رعایا پر ظلم ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4042
´اس حدیث میں یحییٰ بن سعید سے روایت کرنے میں طلحہ بن مصرف اور معاویہ بن صالح کے اختلاف کا ذکر۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹا تو آپ نے انہیں گرفتار کیا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4042]
اردو حاشہ: یہ رویات مندرجہ بالا واقعہ ہی کا اختصار ہے ورنہ آپ نے یہ سزا صرف اونٹنیاں لوٹنے پر نہ دی تھی۔ ویسے بالجبر ڈاکا ڈالنے والوں کے ایک سے زیادہ ہاتھ پائوں کاٹے جا سکتے ہیں جیسا کہ محاربہ والی آیت میں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4042
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4043
´اس حدیث میں یحییٰ بن سعید سے روایت کرنے میں طلحہ بن مصرف اور معاویہ بن صالح کے اختلاف کا ذکر۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لوٹ لیں، انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے، اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4043]
اردو حاشہ: امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ روایت دو استادوں محمد بن مثنیٰ اور محمد بن بشار (بندا) سے سنی ہے۔ الفاظ میں کچھ فرق ہے، مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔ یہ الفاظ استاد محمد بن مثنیٰ کے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4043