الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الرهون
کتاب: رہن کے احکام و مسائل
4. بَابُ : أَجْرِ الأُجَرَاءِ
4. باب: مزدور کی اجرت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2442
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَلِيمٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ كُنْتُ خَصْمَهُ خَصَمْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُوفِهِ أَجْرَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن ان کا مدمقابل میں ہوں گا، اور جس کا میں قیامت کے دن مدمقابل ہوں گا اس پر غالب آؤں گا، ایک وہ جو مجھ سے عہد کرے پھر بدعہدی کرے، دوسرے وہ جو کسی آزاد کو پکڑ کر بیچ دے پھر اس کی قیمت کھائے، اور تیسرے وہ جو کسی کو مزدور رکھے اور اس سے پورا کام لے اور اس کی اجرت نہ دے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2442]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 106 (2227)، الإجارة 10 (2270)، (تحفة الأشراف: 12952)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/358) (صحیح) (ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 287)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف خ لكن فيه يحيى بن سليم قال الحافظ ابن حجر صدوق سيء الحفظ

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح البخاريثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعط أجره
   صحيح البخاريثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره
   سنن ابن ماجهثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة ومن كنت خصمه خصمته يوم القيامة رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يوفه أجره
   المعجم الصغير للطبرانيثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة ومن كنت خصمه خصمته رجل أعطاني ثم غدر يعني عهد الله ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى حقه ولم يوفه أجره
   بلوغ المرام قال الله عز وجل : ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2442 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2442  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے اوریہ بہت بڑاگناہ ہیں۔

(2)
عہد شکنی ویسے بھی کبیرہ گناہ ہےاوراسے منافق کی علامتوں میں ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ جب اللہ کے احترام کوملحوظ نہ رکھنے کا گناہ بھی مل جائے توگناہ اوربھی بڑا ہو جاتا ہے۔

(3)
غلام کو آزاد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
آزاد آدمی کواغوا کرکےغلام بنا لینا اس کے بالکل برعکس عمل ہے اس لیے یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

(4)
اگر کسی کو اغوا کرکے غلام بنا لیاجائے تو ممکن ہے کبھی مجرم کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور اسے آزاد کر دے  لیکن جب اسے بیچ دیا گیا تو اب اس کا آزاد ہونا بہت مشکل ہے اس لیے یہ گناہ اور بڑا ہو جاتا ہے۔

(5)
کسی سےاجرت پرکام لینا ایک دو طرفہ معاہدہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کام کرے گا اوردوسرا اس کے بدلے اسے مقررہ رقم ادا کرے گا۔
کام مکمل ہو جانے کے بعد کارکن کے لیے تومعاہدہ توڑنا ممکن نہیں رہتا البتہ کام لینے والا ظلم کرتےہوئے اس کا حق مار سکتا ہے اس کی مجبوری کی وجہ سے یہ ایک بڑا جرم بن جاتا ہے کیونکہ اس میں ظلم بھی ہے عہد شکنی بھی ہےاورحرام کھانا بھی ہے۔

(6)
قیامت کی سزااوررسوائی سےبچنےکےلیے کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

(7)
اسلام میں عدل وانصاف کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
اسلامی معاشرہ وہی ہے جو عدل وانصاف پر کاربند ہو۔

(8)
مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر عدل وانصاف کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ان کا معاشرہ اسلامی بن سکے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2442   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2270  
2270. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے: تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کےخلاف مدعی ہوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام کے واسطے سے کسی کے ساتھ عہدوپیمان کیا، پھر عہد شکنی کا مرتکب ہوا۔ دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد کو غلام بنا کر بیچ ڈالا اور اس کی قیمت ہڑپ کرگیا۔ تیسرا وہ جس نے کوئی مزدور رکھا، اس سے کام تو پورا لیا لیکن اسے اس کی مزدوری نہ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2270]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے اکثر مقامات پر اوصاف اہل ایمان بیان کرتے ہوئے ایفائے عہد کا وصف نمایاں بیان کیا ہے پھر جو وعدہ اور قسم اللہ تعالیٰ کا پاک نام درمیان میں ڈال کر کیا جائے، اس کا توڑنا اور پورا نہ کرنا بہت بڑا اخلاقی جرم ہے۔
جس کے لیے قیامت کے دن خود اللہ پاک مدعی بنے گا اور وہ غدار بندہ مدعی علیہ ہوگا۔
جس کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔
اور وہ محض اس عظیم جرم کی بناء پر دوزخ میں دھکیلا جائے گا۔
اس لیے ایک حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی ایک علامت بتلایا گیا ہے۔
جس کے ساتھ اگر آدمی خیانت کا بھی عادی ہو اور جھوٹ بھی اس کی گھٹی میں داخل ہو تو پھر وہ از روئے شرع محمدی پکا منافق شمار کیا جاتاہے۔
اور نور ایمان سے اس کا دل قطعاً خالی ہو جاتا ہے۔
دوسرا جرم کسی آزاد آدمی کو غلام بنا کر اسے بیچ کر اس کی قیمت کھانا اس میں نمبروار تین جرم شامل ہیں۔
اول تو کسی آزاد کو غلام بنانا ہی جرم ہے پھر اسے ناحق بیچنا جرم، پھر اس کی قیمت کھانا۔
یہ اور بھی ڈبل جرم ہے۔
ایسا ظالم انسان بھی وہ ہے جس پر قیامت کے دن اللہ پاک خود مدی بن کر کھڑا ہوگا۔
تیسرا مجرم جس نے کسی مزدور سے پورا پورا کام کرایا مگر مزدوری ادا کرتے وقت اس کو دھتکار دیا اور وہ غریب کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔
یہ بھی بہت ہی بڑا ظلم ہے۔
حکم یہ ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کر دی جائے۔
سرمایہ داروں کے ایسے ہی پے در پے مظالم نے مزدوروں کی تنظیم کو جنم دیا ہے جو آج ہر ملک میں مستحکم بنیادوں پر قائم اور مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔
اسلام نے ایک زمانہ قبل ہی اس قسم کے مفاسد کے خلاف آواز بلند کی تھی، جو اسلام کے مزدور اور غریب پرور ہونے کی اٹل دلیل ہے۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2270   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2227  
2227. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: میں قیامت کے دن تین آدمیوں کا دشمن ہوں گا: ایک وہ جس نے میرا نام لے کر عہد کیا پھر بے وفائی کی، دوسرا وہ جس نے کسی آزاد کو بیچ دیا اور اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ جس نے کسی مزدور سے پورا کام لیا لیکن اس کی اجرت نہ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2227]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں مذکور یہ تینوں بڑے اخلاقی جرائم ہیں۔
اللہ کے نام پر کسی سے عہدوپیمان کرنا، پھر اسے توڑ دینا،یہ اللہ تعالیٰ سے بے وفائی ہے۔
ایسے شخص کو سخت عذاب ہوگا کیونکہ اس نے اللہ کے نام کا احترام نہیں کیا،نیز تمام مسلمان آزاد ہونے میں مساوی ہیں لیکن اس بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کسی آزاد کو غلامی کی زنجیر میں جکڑ دے اور اس کے تمام تصرفات ختم کرکے اس کی آزادی سلب کرے۔
تیسرے وہ انسان جو کسی مزدور سے بلا اجرت کام لیتا ہے۔
بہرحال ایسے جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف اللہ تعالیٰ خود مدعی ہوگا۔
ایسے لوگوں کی نامرادی اور ناکامی کی کوئی حد نہیں۔
ہاں، اگر کوئی جہالت یا لاعلمی کی وجہ سے کسی آزاد آدمی کو فروخت کرتا ہے تو پھر اس وعید میں داخل نہیں ہوگا۔
(2)
آزاد آدمی کو غلام بنانے کی دو صورتیں ہیں:
٭ غلام کو آزاد کرکے اسے چھپائے رکھے یا اس کی آزادی کا انکار کردے۔
٭ آزاد کرنے کے بعد زبردستی اس سے خدمت لیتے رہنا۔
لیکن حدیث میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ ان دونوں صورتوں سے زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس میں ایک آزاد آدمی کو غلام بنا کر فروخت کرنا، پھر اس کی قیمت ہڑپ کرجانا ہے۔
(فتح الباري: 528/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2227   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2270  
2270. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے: تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کےخلاف مدعی ہوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام کے واسطے سے کسی کے ساتھ عہدوپیمان کیا، پھر عہد شکنی کا مرتکب ہوا۔ دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد کو غلام بنا کر بیچ ڈالا اور اس کی قیمت ہڑپ کرگیا۔ تیسرا وہ جس نے کوئی مزدور رکھا، اس سے کام تو پورا لیا لیکن اسے اس کی مزدوری نہ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2270]
حدیث حاشیہ:
اصلاحی صاحب لکھتے ہیں:
یہ حدیث تو لاکھوں کی ہے، الفاظ بہت پاکیزہ ہیں، بیان بھی پاکیزہ ہے، دل پسند معلوم ہوتی ہے لیکن بے محل ہے، شارحین بھی کہتے ہیں کہ اس روایت کا محل سمجھ میں نہیں آتا۔
اس سے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ امام بخاری ؒ کو روایات جمع کرنے کا موقع تو ملا لیکن ترتیب وتہذیب کا موقع بالکل نہ ملا اور لوگوں نے غیر مرتب حالت ہی میں صحیح بخاری کو روایت کرنا شروع کردیا۔
(تدبرحدیث: 66/1)
اصلاحی صاحب کی یہ بات عقل ونقل کے خلاف ہے۔
امام بخاری ؒ کتاب مرتب کرنے کے بعد مدت دراز تک اپنے تلامذہ کو پڑھاتے رہے ہیں، دراصل امام بخاری ؒ ایک نکتے کی خاطر اسے درمیان میں لائے ہیں۔
وہ اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے تھوڑا تھوڑا عمل ہوتا جائے ایسے اجرت بھی تھوڑی تھوڑی دینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ عادت یہ ہے کہ مزدور اپنی اجرت پورا دن یا مہینہ گزرنے کے بعد طلب کرتا ہے لیکن اسے حق پہنچتا ہے کہ دن کے پورا ہونے سے پہلے مطالبہ کرے، مالک کو چاہیے کہ وہ اس کے کام کی مزدوری دے اور اسے نہ روکے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2270