عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد نے میری دولت ختم کر دی (اس کے بارے میں فرمائیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے ہیں“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2292]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8675)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع 79 (3530)، مسند احمد (2/179) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کے مال میں ضرورت کے مطابق تصرف کر سکتا ہے اور اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے بھی لیں تو بھی بیٹے کو چاہئے کہ وہ ماں باپ سے مقابلہ نہ کرے، نہ ان سے سخت کلامی کرے اور اس وقت کو یاد کرے جب ماں باپ نے اسے محبت سے پالا پوسا تھا، پیشاب و پاخانہ دھویا، پھر کھلایا، پلایا، پڑھایا اور سکھایا، یہ سب احسانات ایسے ہیں کہ اگر ماں باپ کے کام میں بیٹے کا چمڑہ بھی آئے تو ان کا احسان نہ ادا ہو سکے اور یہ سمجھ لے کہ ماں باپ ہی کی رضامندی پر ان کی نجات منحصر ہے، اگر ماں باپ ناراض ہوئے تو دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو گی، تجربہ سے معلوم ہوا کہ جن لڑکوں نے ماں باپ کو راضی رکھا ان کو بڑی برکت حاصل ہوئی اور انہوں نے چین سے زندگی بسر کی اور جنہوں نے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کی وہ ہمیشہ دنیا میں جلتے اور کڑھتے ہی رہے، اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے لیں تو کمال خوشی کرنا چاہئے کہ ہماری یہ قسمت کہاں تھی کہ ہمارا روپیہ ماں باپ کے کام آئے یا روپیہ اپنے موقع پر صرف ہوا، اور ماں باپ سے یوں کہنا چاہئے کہ روپیہ تو کیا میرا بدن اور میری جان بھی آپ ہی کی ہے، آپ اگر چاہیں تو مجھ کو بھی بازار میں بیچ لیں،میں آپ کا غلام ہوں۔